Inquilab Logo

مشورہ کرنے سے منجانب اللہ حق اور صحیح بات کی توفیق نصیب ہوتی ہے

Updated: June 09, 2023, 11:57 AM IST | Muhammad Muslim Shaikh | Mumbai

گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’مشورہ اسلامی شعار ہے، ہم اس کی اہمیت نہیں سمجھتے!‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

There has been a strong tradition of counseling in Islamic society. It is an important social value of Muslims.
اسلامی معاشرت میں مشورہ کی مضبوط روایت رہی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک اہم معاشرتی قدر ہے۔

مشورے کی مختلف صورتیں
معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں: (۱) انفرادی معاملات اور (۲) اجتماعی معاملات۔  انفرادی معاملات میں مشورہ شخصی ہوتا ہے کہ جس میں آدمی اپنے ذاتی معاملے میں کسی سے مشورہ کرتا ہے۔ اس کو انفرادی مشورہ کہتے ہیں۔ اجتماعی معاملات سے مراد وہ معاملات ہیں جن میں دو یا دو سے زائد افراد کے مفادات وابستہ ہوں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی معاملات میں کسی ایک شخص کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا اور دوسرے متعلقہ اشخاص کو نظرانداز کر دینا درست نہیں ہے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اجتماعی معاملات میں سب کی رائے لی جائے۔
اس میں سب سے اہم اور نازک حیثیت شوریٰ اہلِ حل و عقد کی ہے یعنی حکومتی سطح کے فیصلے جن میں وزراء اور مشیران اور عوامی نمائندے ریاست کو چلانے کے لئے سربراہِ حکومت کو مشورے اور رائے دیتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے۔ جیسے حضرت معاذؓ بن جبل کو یمن کا گورنر بناتے وقت شوریٰ بلائی گئی تھی۔ ارکان شوریٰ نے اپنی اپنی رائے پیش کی اور کافی غوروخوض کے بعد معاذؓ بن جبل کو (گورنر بناکر) یمن بھیجا گیا تھا۔ (مجمع الزوائد‘ ص ۴۶‘ ج ۹ بحوالہ اسلامی سیاست)
آخر الذکر صورت دراصل اسلامی نظامِ حکومت کی بنیاد ہے جس پر اہلِ قلم نے سیاست کے عنوان سے قلم اٹھایا ہے۔ دراصل اسلامی حکومت شورائی حکومت ہے اور صاحبِ اقتدار اُس کا رہنما ہے۔ امام، شوریٰ کے اختیارات کا نمائندہ ہے اور حکمت عملی کے دائرے میں مجلسِ شوریٰ کے فیصلوں کا ترجمان ہے۔ اس حیثیت سے اسلامی حکومت کا راہنما عام انسانوں میں سے ایک انسان ہے۔ شوریٰ کا فیصلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی شخص صدارت کے منصب ِ عظمیٰ پر فائز ہوتا ہے اور اُمت کی رائے عامہ ہی سربراہِ حکومت کو اس کے عہدے سے معزول کرسکتی ہے۔ شوریٰ وہ اصول ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نظام میں پارلیمنٹ کا فیصلہ صدر کے فیصلے پر قانونی فوقیت رکھتا ہے۔ سربراہِ حکومت کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی طاقت شوریٰ کی طاقت سے پیدا ہوتی ہے اس لئے اس سے بے نیاز ہوکر کام کرنا اس کے دائرہ اختیار سے تجاوز کے مترادف ہوگا۔
حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر جماعت کا کوئی فرد اپنے کسی بھائی سے مشورہ طلب کرے، تو مشورہ دینا اس کےلئے لازمی ہو جاتا ہے۔ (ابن ماجہ)
صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدے سے فارغ ہو کر حضوؐر نے صحابہؓ سے فرمایا کہ اب اسی حدیبیہ کے مقام پر قربانی کر کے سر منڈوائو اور احرام کھول دو۔ یہ بات تین مرتبہ فرمائی مگر کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا، کیونکہ صحابہؓ پر اس وقت رنج و غم کا شدید غلبہ تھا۔ حضوؐر کے دورِ رسالت میں اس ایک موقعے کے سوا کبھی ایسی صورت حال پیش نہیں آئی تھی کہ آپ  ؐ صحابہؓ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لئے دوڑ نہ پڑیں۔ حضوؐر کو اس موقعے پر سخت صدمہ ہوا۔ اس کٹھن مرحلے میں آپؐ نے اُم المومنین حضرت سلمہؓ سے مشورہ کیا اور اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا اور اُم المومنینؓ کے مشورے پر خود قربانی کی اور سر منڈایا اور پھر آپؐ کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی قربانیاں کرلیں اور احرام کھول دیئے۔
یہ ہیں وہ روایات جن سے مشورے کی اہمیت و ضرورت پر روشنی پڑتی ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ مشورہ قانون بھی ہے اور حکمت عملی بھی۔
مشورے کا دائرہ ٔکار
قرآن مجید میں مشورے کا جو حکم دیا گیا ہے یہ حکم ان امور کے بارے میں ہے جو قرآن کے قانونِ اساسی میں طے شدہ نہیں ہیں اور مشورے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ دنیاوی امور کودین کے ماتحت چلایا جائے۔ (اسلام کا نظامِ حکومت بحوالہ شوکانی، ج ۱، ص ۳۶۰)
اس قاعدے کلیے کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عمل درآمد کس طریقے سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملے کافیصلہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے کر دیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔ (تفہیم القرآن)
اسی طرح معصیت اور نافرمانی کے کسی معاملے میں مشورہ لینا یا دینا بھی معصیت ہے اور مومن کی شان کے خلاف ہے۔
مشورے کی حقیقت
امام راغب اصفہانیؒ نے تصریح کی ہے کہ مشورے کا مفہوم آراء کا حاصل کرنا ہے اور اس کے دو پہلو ہوسکتے ہیں۔ ایک طرف رائے لینے والے ہوتے ہیں جو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ دوسری طرف رائے دینے والے ہوتے ہیں۔ ایک سمت کے اصحاب دوسری سمت کے لوگوں سے رائے طلب کرتے ہیں اور کامیابی کے لئے ایک فیصلے پر پہنچتے ہیں۔ بس اسی کا نام مشورہ ہے۔ (مفردات القرآن، ج ۲، ۳۴۵)۔ اس لحاظ سے مشاورت کے پانچ اہم پہلو سامنے آتے ہیں جو ذیل میں درج کئے جارہے ہیں:
(۱) مشاورت کے عمل میں شریک دونوں حضرات کے مابین خوشگوار تعلقات (۲) دونوں افراد کے مابین مطلوبہ مسئلے پر کھل کر گفتگو (۳) مشیر کی اہلیت، تجربہ،  خوداعتمادی اور قوتِ فیصلہ (۴) مشاورت کے عمل میں مشیر کا مطلوبہ مسئلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھانا ، اور (۵) مشاورت سے قبل معاملے کو سمجھنا اور ضروری  تیاری کرنا۔
مشورے کی حکمت
lمشورہ کرنے سے من جانب اللہ حق اور صحیح بات کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔l معاملے میں خیر و برکت ہوتی ہے اور وزن اور قوت آتی ہے۔l اللہ تعالیٰ اور رسولؐ اللہ کے ارشادات کی پیروی ہوتی ہے۔ l کسی معاملے میں مشورہ کرنے اور اس پر کھل کر گفتگو کرنے سے اس کے مثبت و منفی پہلو سامنے آتے ہیں جس سے مثبت پہلو کو اپنا کر اس کے منفی پہلو سے بچ جانے سے نقصان کا اندیشہ نہیں رہتا۔l مشورے سے کام کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیں اور کام میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔ lاجتماعی معاملات میں مشورہ کرنے سے رائے عامہ کا اعتماد اور تعاون حاصل ہوتا ہے۔l مشورہ کرنے سے اعلیٰ رہنمائی اور رشد و ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ صحیح غورورفکر اور درست نتائج تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔l یکسوئی اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور صبروتحمل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔ l مشورے کے بعد کام میں اگر کوئی کمی رہ جائے تو بھی انسان نفس اور لوگوں کی ملامت سے بچ جاتا ہے۔l لوگوں میں خوشگوار اور برادرانہ تعلق مستحکم ہوتا ہے۔lمشورے سے رویوں کا جائزہ لے کر انسان کو مناسب تبدیلی پر آمادہ کیا جاتا ہے، اور l خوداعتمادی اور مسائل کو سمجھنے کی صلاحیت پیداہوتی ہے۔
مشیر کی صفات
مشیر کا کردار ایک کنجی کی مانند ہے جس سے وہ صندوق کا تالا کھول کر حقیقت کا اندازہ کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ معتمد ہوتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد، ج ۵) گویا مشیر وہ ہونا چاہئے جس کی امانت و دیانت پر بھروسا کیا جا سکتا ہو۔
مشیر کی صفات دو طرح کی ہوتی ہیں: ایک مثبت یعنی وہ صفات جن کا پایا جانا بہتر اور ضروری ہے اور دوسری منفی صفات جن کا نہ ہونا بہتر اور ضروری ہے۔
    مثبت صفات: مسلمان ہو، عاقل بالغ ہو، معتمد علیہ ہو، عادل اور دیانتدار ہو، امین (امانت دار) ہو، حسنِ ظن رکھتا ہو، علم و ذہانت سے آراستہ ہو (کم از کم جس مسئلے میں مشورہ لیا جا رہا ہو اس میں گہری بصیرت رکھتا ہو)، معاملہ فہم اور صاحب الرائے ہو، حالات سے باخبر ہو، حلم و بردباری سے آراستہ ہو اور راست باز اور سچا ہو۔
    منفی صفات:  لالچی اور حریص نہ ہو،  خودغرض اور خودپسند نہ ہو،  بخیل اور ڈرپوک نہ ہو،  بدظن نہ ہو،  مشورہ طلب کرنے والے کا دشمن نہ ہو، متکبر، بے پروا،  لااُبالی اور غوروخوض کے بغیر فیصلہ کرنے والا نہ ہو۔
 مشورہ اور اس کی اہمیت کے پیش نظر اس تفصیلی جائزے سے یہ بات بخوبی اجاگر ہوجاتی ہے کہ اسلامی معاشرت میں اس کی مضبوط روایت رہی ہے۔ یہ مسلمانوں کی ایک اہم معاشرتی قدر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مضبوط روایت اور قدر کو آگے بڑھایا جائے۔  بحیثیت مجموعی اگر مشورے کے ان مختلف پہلوئوں کو سامنے رکھا جائےتو  ہمیں بہت سی ذہنی الجھنوں سے نجات مل سکتی ہے اور زندگی آسان اور پُرمسرت ہوسکتی ہے۔ مشورہ اسلامی شعار ہے ، اس کی اہمیت کو سمجھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ چھوٹے چھوٹے گھریلو اُمور میں بھی مشورہ کو ضروری اور مقدم سمجھا جائے جس سے بچوں کی تربیت بھی ہوسکے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK