• Sat, 23 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’’صدی کے آخر تک کمپیوٹراپنی ذہانت کو خود بخود بڑھاتے ہوئےانسانوں سے بھی آگے نکل جائیں گے‘‘

Updated: December 10, 2023, 12:57 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

جاپان کے ممتاز سائنسدان ’میشیوکاکو ‘نے اپنی کتاب’ مستقبل کی طبیعیات: ایجادات جو ہماری زندگیاں بدل دیں گی‘ میں ایسے کئی دعوے کئے ہیں جنہیں حیرت انگیز کہا جاسکتا ہے، اس کتاب میں ۲۱۰۰ء تک ہونے والی ممکنہ سائنسی ترقی پرگفتگو کی گئی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ہر دور میں انسان اپنے مستقبل کے متعلق تجسّس میں مبتلا رہا ہے۔ ذاتی حالات کو جاننے کے شوق میں لوگوں نے نجومیوں اوردست شناسوں کو خوب فیضیاب کیا ہے۔ ستاروں کی گردش جیسے کالم چھوٹے بڑے اخبارات ورسائل کی فروخت میں اپنا رول ادا کرتے رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ سنجیدہ غوروفکر کرنے والے بھی آنے والے دور میں انسانی معاشرے کے خدوخال کی جھلکیاں پیش کرتے رہے ہیں۔ یقیناً قارئین نے’اسٹاروارس‘ جیسی فلموں کا لطف لیا ہوگا اورتخیلاتی کائنات میں لے جانے والی کہانیاں اور ناولیں وغیرہ بھی پڑھی ہوں گی ۔ عموماً یہ سب کچھ فکشن یعنی ذہن کے پروازِ تخّیل کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن ہمارا موضوع آج ایک ایسی کتاب ہے جو داستان گوئی نہیں بلکہ نان فکشن کے زمرے میں آنے والی ایک کتاب’مستقبل کی طبیعات‘ ہےجس میں تفصیلات درج ہیں سائنسی ریسرچ اوران ممکنہ ایجادات کا، جو ہماری زندگیوں کوبدل کر رکھ دیں گی۔ کینسر کے خُلیات کو صرف ایک بٹن دباکر چشم زدن میں ختم کیا جاسکے گا۔ سڑک حادثات قصۂ پارینہ ہو کر رہ جائیں گے۔ نیند کے دوران دیکھے گئے خوابوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جاسکے گی۔ سُپرہیومن خوبیوں کے حامل اور جاذب نظرڈیزائنر بچوں کی پیدائش ممکن ہو گی وغیرہ۔ ۲۱۰۰ ءتک سائنسی ایجادات کے نتیجے میں وقوع پزیر ہونے والی تبدیلیوں کا انگشت بدنداں کردینے والا بیان اس کتاب میں درج ہے۔ یہ کتاب ۲۰۱۱ء میں منظرعام پر آئی اور خوب مقبول ہوئی۔
مستقبل کی فزکس، مشہور سائنسدان’ مِیشیوکاکو‘کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹر کاکو تیسری نسل کے جاپانی نژاد امریکن ہیں ۔ نیو یارک سٹی کالج میں عرصے تک تھیوریٹکل فزکس کے پروفیسر رہے۔ انھوں نے طبیعیات اورمتعلقہ موضوعات پر متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں ، جن میں اس کتاب کے علاوہ ’ناممکن کی طبیعیات‘، ’دماغ کا مستقبل‘، اور’دی گاڈ ایکویشن: ہرشئے کیلئے واحد تھیوری کی تلاش میں ‘ شامل ہیں ۔ ’کاکو‘ نے بی بی سی، ڈسکوری چینل، ہسٹری چینل اور سائنس چینل کیلئے کئی ٹیلی ویژن شوز کی میزبانی بھی کی ہے۔ ریڈیو کے ذریعہ بھی مسلسل، سائنس کو عوامی مقبولیت دلاتے رہے ہیں۔
میشیو نے جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ ٹھوس اور دقیق معلومات پر مبنی ہے۔ دنیا بھر کی لیباریٹریوں میں ہونے والی ریسرچ پر اُن کی گہری نظر رہی ہے۔ کتاب کے مشمولات سے متعلق انھوں نے تقریباً ۳۰۰؍ علمائے سائنس سے تبادلہ خیالات کیا ہے جن میں دو درجن نوبل انعام یافتہ بلند پایہ شخصیات بھی شامل ہیں ۔ کتاب میں کل ۹؍ابواب ہیں ۔ ہر شعبے کو ترقی کے تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ مستقبل قریب کو ۲۰۳۰ء تک پھر وسط یعنی۲۰۷۰ء تک اور اس سے آگے ۲۱۰۰ ءتک۔
کمپیوٹر کا مستقبل
 اگلی صدی میں کمپیوٹر کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ پلک جھپکتے ہماری عینک ،کانکٹیکٹ لینس یا کسی دیوارپر انٹریٹ میسر ہوگا۔ گاڑیوں کو ڈرائیوروں کی بالکل ضرورت نہیں ہوگی۔ ہم سلیکون ٹیکنالوجی کی حدود کو چھو لیں گے۔ حقیقی دنیا اور مجازی حقیقت کا امتزاج ہوگا۔ ترقی یافتہ مجازیت کا اِرتقا، سیاحت، آرٹ، شاپنگ اور جنگ کے میدانوں میں انقلاب کا باعث بنے گی۔ انسان صرف سوچ کے ذریعے خیالات کو پڑھنے اور اشیاء کو حکم دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہیں گے جو انسان جیسی خصوصیات کے حامل روبوٹس سے آباد ہو گی۔
’اے آئی‘ کا مستقبل
 اس باب میں مصنوعی ذہانت کی کرشمہ سازیوں کا دلچسپ نظارہ کروایا گیا ہے۔ ہماری زندگی میں روبوٹوں کےعمل دخل پر گفتگو کی گئی ہے۔ روبوٹ سرجن اور روبوٹ باورچی عام ہو جائیں گے۔ انسانی دماغ کی معکوس انجینئرنگ پر ریسرچ کے نتیجے میں جذبات رکھنے اور سمجھنے والے روبوٹ بنیں گے۔ یہ آگ بجھانے، زلزلے یا دھماکوں کے مقامات پر مددگارکا رول ادا کریں گے۔اس کا مطلب یہ کہ مشینوں میں بھی شعور پیدا کیا جاسکے گا۔ مشینیں ہوش میں آ جائیں گی۔ سائنس کی دنیا میں اس دن کا بھی تذکرہ چل رہا ہے جب کمپیوٹر اپنی ذہانت کو خود بخود بڑھاتے ہوئے انسانوں سے بھی آگے نکل پڑیں گے۔ گرچہ یہ بات انتہائی مبہم ہے لیکن بات تو ہے کہ کیا انسانی ذہن اور مشینی جسم کے امتزاج سے ایک مخلوط وجود تشکیل دیاجاسکے گا ، خود ہم جیسا ایک ایسا وجود جو ہم سے بہت زیادہ صلاحیتوں کا مالک ہوگا۔
دواؤں کا مستقبل
 ڈاکٹر کاکوبتاتے ہیں جنیناتی نقشے کو دوبارہ ڈیزائن کیا جاسکے گا۔ عمر بڑھنےکے عمل کو سست کیا جاسکے گا۔ ٹشوانجینئرنگ اور اسٹیم سیلز کے ذریعے نئے اعضاء کی افزائش کیلئے ٹیکنالوجی دستیاب ہوگی۔ نینو سینسر ہمارے روزمرہ کے ماحول میں موجود ہوں گے تاکہ بیماریوں کا پتہ لگتے ہی ان کا علاج ہوسکے۔ جوانی کو برقرار رکھنے کیلئے پروٹین اور انزائمز کا کاک ٹیل کھانا ایک عام عمل ہوگا۔ کتاب کی ایک چونکانے والی سرخی ہے ، لافانیت و جوانی ! غور کیجیے۔
نینوٹیکنالوجی کا مستقبل
 نینو ٹیکنالوجی پرڈاکٹر کاکو بتاتے ہیں کہ ایٹموں کو جوڑ توڑ کی ٹیکنالوجی کے ساتھ، قابل پروگرام مادے تخلیق کرنے کے تکنیک ممکن ہوگی۔ ایٹموں میں ہیرا پھیری دوسرے صنعتی انقلاب کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ مالیکیولز کی تیاری سے نئے مواد تیار ہوں گے جو حیرت انگیز الیکٹرانک اور مقناطیسی خصوصیات کے ساتھ انتہائی مضبوط ہوں گے۔ ڈاکٹر کاکو مختلف قسم کی نینو مشینوں کی توقع کرتے ہیں جن کی مدد سے کینسر کے خلیات کو اس طرح تباہ کیا جاسکے گا کہ آس پاس کے صحت مند خلیے بالکل محفوظ رہیں گے۔ 
توانائی کا مستقبل
 توانائی کے شعبے میں صدی کا آخری حصہ مقناطیسیت کا دور ہوگا۔ کمرے کے درجہ حرارت والے سپر کنڈکٹرز، مقناطیس سے چلنے والی تیرتی کاروں اور ٹرینوں کے دور کا آغاز کریں گے۔آخر میں ، ہم سورج سے براہ راست تابکاری کو جذب کرنے کیلئے مدار میں بڑی تعداد میں سیٹیلائٹ روانہ کریں گے اور پھراس توانائی کو مائیکرو ویو تابکاری کی شکل میں زمین پر واپس بھیجیں گے۔ اس طرح آسمان سے توانائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
خلائی سفر کا مستقبل
 بیرونی خلا کی روبوٹک ریسرچ انسانیت کی سب سے شاندار کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ صدی کے وسط تک خلائی سیاحت عروج پر ہوگی اور اس کے ساتھ ہی مریخ کا مشن سب سے امید افزا آپشن ہوگا۔ صدی کے اواخرمیں ، ہزاروں چھوٹے جہازوں کو خلا میں بھیجا جائے گا۔ قریبی چاند پر پہنچ کر وہ خود کو کھول دینے اور اپنی کاپیاں بنانے کی قابلیت رکھیں گے۔
دولت کا مستقبل
 اس دلچسپ باب میں میشیو کاکو ان چیلنجوں پرتبصرہ کرتے ہیں جن کا سامنا مستقبل کی سرمایہ داری کے زیر اثر انسانیت کو ہوگا۔ اس باب میں انھوں نے بتایا ہے ٹیکنالوجی کے اثرات، معیشت کے روایتی قوانین پر کس طرح مرتب ہوں گے۔ کون سے پیشوں میں نوکریاں ختم ہوں گی اور کن میں باقی رہیں گی۔ ٹیکنالوجی میں بے پناہ کامیابیوں کے ساتھ، کچھ قومیں زندہ رہیں گی اور ترقی کریں گی جب کہ دیگر ختم ہو سکتی ہیں۔
انسانیت کا مستقبل
 طبیعیات دان، تہذیبوں کی طاقت کا تجزیہ ان کے ذریعہ استعمال کی جانے والی توانائی کی کمیت و کیفیت کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ یہاں کاکو، دنیا میں ہونے والی سماجیاتی تبدیلیوں کا سائنسی انقلابات سےجوڑ کرجائزہ لیتے ہیں ، مستقبل کے چیلنجوں کا ذکر کرتے ہیں ۔ آخری باب میں ۲۱۰۰ء کے ایک دن کا حال ایک کہانی کی شکل میں پیش کرتے ہیں ۔
 مستقبل کے متعلق دانشوروں نےبہت کچھ لکھا ہے، لیکن ان میں زیادہ ترتاریخ، سماجیات وادب کے میدان سےتعلق رکھتے تھے۔ وہ سائنسدان جو اپنی تجربہ گاہوں میں اہم ترین تحقیقات کے ذریعہ دراصل مستقبل کی تخلیق کرتے ہیں ، بہت مصروف ہوتے ہیں ۔ عدیم الفرصتی ان کوعوام کیلئے لکھنے سے دور رکھتی ہے لہٰذا ایک ٹھیٹھ سائنٹسٹ کے ذریعہ عالمِ سائنس کے اندرونی راز افشا کرتی یہ کتاب مختلف ہے۔ یہ کتاب ہمیں سیکھنے، اس سے بڑھ کرسوچنے اور امکانات تلاش کرنے کی جانب مائل کرتی ہے۔ اوریہی،اس کتاب کی بڑی خوبی ہے، اس میں درج معلومات کے ذخیرے سے بھی بڑی۔
 میشیو کا اندازِتحریر دِلکش ہے۔ ظاہر ہےکہ مستقبل کے متعلق کوئی بھی بیان قیاس آرائی ہی کہلائے گا لیکن وہ اپنی ہر دلیل منطقی طریقے پر پیش کرتے ہیں ۔ تھیوری اورمنظرکشی کو مربوط کرتے ہوئے کہیں کہیں وہ اپنے خیالات کی رو میں بہہ جاتے ہیں اور مبالغہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں ۔ پروفیسر کاکو اپنے میدان کے عظیم شہسوار ہیں لیکن سماجیاتی پہلوؤں پرگفتگو کے دوران ان کی تنگ دامنی صاف محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً وہ فکرمندی کا اظہار کرتے ہیں کہ سائنس کا مفید یا مضر استعمال، خود انسانی ’حکمت‘ (وزڈم) پر منحصر ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ حکمت ہی دراصل مستقبل کی کلید ہے۔ لیکن اس حکمت کے حصول کے جو ذرائع تجویز کرتے ہیں خود ان میں نقائص موجود ہیں ۔ مغرب اس معاملے میں تہی دامن دکھائی دیتا ہے۔ روحانیت اور تہذیب نفس کے بیش قیمت خزانے مشرق کے پاس موجود ہیں ۔ جاپان سے اتنا قریبی رشتہ ہوتے ہوئے بھی میشیو کا، ان گنج ہائے گرانمایہ کا ذکر بھی نہ کرنا حیرت کی بات ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی پیش قدمی برق رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ اس کے اثرات سےخالی نہیں۔ خوردونوش، رہن سہن، بول چال، تعلقات اور معاشرے کی ساخت، یہاں تک کہ مذہبی رسوم تک تغیر پذیر ہیں۔ اخلاقیات سے متعلق بڑے سوالات دنیا کے سامنے کسی ٹھوس حل کے بغیرکھڑے ہیں ۔ سبھی مذہبی اور تہذیبی اکائیاں ان سوالوں کے جوابات کی تلاش میں لگی ہیں ۔ہمارے یہاں اس موضوع پر کتنا غوروخوض ہورہا ہے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK