ابلیس اور حضرت آدم ؑ کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل سے وارد ہوا ہے۔ ایک نے اَنا کا مظاہرہ کیا جبکہ دوسرے نے عجز و انکسار سے اپنے گناہوں پر معافی مانگی۔ اعتراف اور تواضع سے آدمی کی اصلاح بھی ہوتی ہے اس کے برعکس انکار اور کبر کی وجہ سے کبھی اس کی اصلاح نہیں ہوتی
جس شخص میں حقیقی آدمیت جتنی زیادہ ہوگی وہ حقیقتوں کے اعتراف میں اسی قدر وسیع الظرف ہوگا ، عجز و فروتنی اس کے عمل سے نمایاں ہوگی
قرآن مجید ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے۔ اس کے ہر لفظ کی تہ میں ہدایت کا نور موجود ہے۔ اس نے دو اہم کردار پیش کئے ہیں ، انسانیت کے باپ اور اللہ کے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کا کردار اور دوسرا شیاطین کے سردار ابلیس کا کردار۔
ابلیس ’’جن‘‘ نامی مخلوق ہی سے تعلق رکھتا ہے۔ اللہ نے جب یہ حسین و جمیل اور آراستہ و پیراستہ دنیا بنائی تو پہلے اس کو جنوں سے بسایا، مگر انہوں نے خدا کے سامنے جھکنے کے بجائے سرکشی کا ثبوت دیا اور تکبر کی راہ اختیار کی، اس لئے خدا کے حکم سے جنوں کو ازراہِ سرزنش پہاڑوں اور جنگلوں میں قیام کا حکم دیا گیا ۔ انہیں میں ابلیس تھا۔ یہ بظاہر اپنی قوم سے جداگانہ مزاج رکھتا تھا ، مطیع و فرمانبردار اور عبادت گزار۔ گو، اللہ تعالیٰ اس کی باطنی کیفیت سے واقف تھے لیکن ظاہری حالات کی رعایت سے اس کا درجہ بلند کیا گیا اور اسے عالم بالا میں جگہ دی گئی۔ اب یہ فرشتوں کا مصاحب تھا اور مقربین ِبارگاہِ الٰہی کے ساتھ رہتا تھا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے آب و خاک کی اس دنیا میں نئی بستی بسانے کی غرض سے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا جہاں مٹی کو آپ کا مادۂ تخلیق بنایا وہیں علم و تحقیق کی صلاحیت حضرت ِ انساں کی سرشت میں داخل فرمائی۔ پھر خالق کائنات کی طرف سے انسان کی عظمت اس طور ظاہر کی گئی کہ قدسیانِ عالم بالا کو حضرت آدم علیہ السلام کی طرف سجدہ ر یز ہونے کا حکم فرمایا گیا۔ یہ حکم فرشتوں کو بھی ہوا اور شیطان کو بھی ۔ فرشتے تو فوراً ہی سر بسجود ہوگئے لیکن ابلیس کی ’’انا‘‘ (جو اَب تک بہ تکلف دبی ہوئی تھی) نے اب انگڑائی لی ، اس نے آدم ؑ کی طرف سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کبر پر اتر آیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارا گیا اور زمین پر اس کا اخراج عمل میں آیا، تب بھی اسے کوئی پشیمانی نہیں ہوئی اور کبر و علم کے احساس سے وہ اپنے آپ کو فارغ نہیں کر پایا، بلکہ ایک حد تک اس نے باری تعالیٰ کو قصوروار قرار دینے کی جسارت کی کہ آدم تخلیقی اعتبار سے اس سے کمتر ہے اس لئے اس کا حضرت آدمؑ کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اس کی تحقیر و اہانت اور گویا اس کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اس نے یہ نہ سمجھا کہ رب کائنات ہی تمام مخلوقات کا مالک ہے اور وہ جس کے لئے جو درجہ و مقام متعین کرے وہی اس کا صحیح اور اصل مقام ہے۔ یہ ایک کردار ہے جس میں کبر ہے، اپنی ’’انا‘‘ کی پرستاری ہے، اعترافِ حقیقت سے پہلوتہی ہے اور خسران و محرومی کے اسباب کو اپنے بجائے دوسروں میں تلاش کرنے کی کوشش ہے۔
دوسرا کردار حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ حضرت آدمؑ اس اعزاز و اکرام کے بعد جنت میں رکھے گئے۔ جنت صرف راحتوں اور نعمتوں کی جگہ ہے، جہاں نہ غمِ امروز ہے اور نہ فکر فردا ، لیکن انسان ’’انس‘‘ سے ماخوذ ہے، اس لئے وہ کسی’’انیس‘‘ کے بغیر ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک ’’انسی‘‘ بھی عطا فرمایا اور آپؑ ہی سے آپؑ کے جوڑے حضرت حوا کی تخلیق فرمائی۔ اب اس وسیع و عریض جنت میں اس جوڑے کو سب کچھ میسر تھا ، وہ سبھی جو سوچا جائے اور وہ بھی جو تصور سے بالاتر ہو، البتہ ایک پھل کھانے کی ممانعت تھی ۔ شیطان جو انسان کا ازلی دشمن ہوچکا تھا ، وہ گو آسمان سے نکالا گیا تھا مگر دامِ وسوسہ اب بھی آسمان بلکہ جنت تک پھینک سکتا تھا۔ آخر اس بھولے بھالے انسانی جوڑے نے بھول کی اور وسوسہ ٔ شیطانی کا شکار ہوکر اس شجر ممنوعہ کو کھا لیا۔ پھر کیا تھا؟ پہلے لباسِ جنت اترا اور پھر ’’بڑے بے آبرو ہوکر تری جنت سے ہم نکلے!‘‘ کے مصداق حضرت آدم ؑ و حوا ؑ زمین پر اتارے گئے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت آدم ؑ کا نزول ہندوستان ہی کے جنوبی علاقہ یا سری لنکا میں ہوا تھا۔ حدیث میں آیا کہ حضرت آدم تو اتنا روئے، لجائے، گڑگڑائے، خدا کے سامنے جھکے اور بچھے، ہاتھ پھیلایا اور دست ِ عفو خواہی دراز کیا کہ شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ یہ بھی عرض کرسکتے تھے کہ اس میں میرا کیا قصور، یہ تو سب شیطان کی وسوسہ اندازی کا نتیجہ ہے، لیکن حضرت آدم ؑ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ پیغمبر سے بڑھ کر نہ کوئی خداشناس ہوسکتا ہے اور نہ خدا کا مرتبہ شناس۔ حضرت آدم ؑ نے دوسروں کے بجائے اپنے آپ میں اللہ تعالیٰ کی ناخوشنودی کی وجہ کو تلاش کیا اور نہایت فروتنی سے عرض گزار ہوئے:
’’اے ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر خود ہی بڑا ظلم کیا ہے، اگر آپ ہمیں معاف نہ فرمادیں اور رحم و کرم کا معاملہ نہ فرمائیں تو ہم بے شک سخت نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔‘‘
غور کیجئے! اس دعا میں کس قدر عجز و انکسار اور اقرار و اعتراف ہے! سراپا اعتراف و اقرار، نہ ایک حرف ِ کبر ، نہ کوئی کلمۂ پندار!
یہ دونوں کردار صرف حضرت آدم ؑ اور ابلیس کے ساتھ مخصوص نہیں، دنیا میں ہر انسان ان دو میں سے ایک کردار ادا کرتا ہے۔ جس شخص میں حقیقی آدمیت جتنی زیادہ ہوگی وہ حقیقتوں کے اعتراف میں اسی قدر وسیع الظرف ہوگا ، عجز و فروتنی اس کے ایک ایک عمل سے نمایاں ہوگی، اس کے بول بھی انکسار کا مظہر ہوں گے، اس کی چال بھی شرافت اور بندگی کی شہادت دے گی ، وہ د وسروں کے بجائے اپنے آپ میں غلطی کو تلاش کرنے کا عادی ہوگا ، وہ اپنی غلطیوں کی تاویل وتوجیہ کے بجائے اپنے آپ میں غلطی کو تلاش کرنے کا داعی ہوگا، وہ اپنی غلطیوں کی تاویل و توجیہ کے بجائے سیدھے سادے طریقہ پر اعتراف کا مزاج رکھے گا، وہ اپنی خطاؤں پر نادم اور پشیماں ہوتا جائے گا، خطائیں اور لغزشیں اس کو فوراً جھکا دیں گی، خدا کے سامنے بھی اور خلق کے سامنے بھی۔ جس شخص میں آدمیت کا عنصر جتنا کم ہوگا اور وہ شیطان کے مزاج سے جس قدر قریب ہوگا، اس میں ’’انا‘‘ کا جذبہ اتنا ہی زیادہ ہوگا، اسے اپنی غلطیوں کے اعتراف اور زیادتیوں کے اقرار کا حوصلہ نہ ہوگا، وہ ہمیشہ کسی واقعہ میں ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دے گا، اسے لوگوں کے سامنے جھکنے میں اور حق اور حقیقت کا اعتراف کرنے میں عار ہوگی، اصولوں کا پابند رہنے میں اسے ہتک محسوس ہوگی، اس کی رفتار و گفتار سے ظاہر ہوگا کہ وہ اپنے تئیں بڑے ہونے کا احساس رکھتا ہے اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ اعتراف اور تواضع سے آدمی کی اصلاح بھی ہوتی ہے اور وہ خدا اور خلق خدا دونوں کی نگاہ میں محبوب بن جاتا ہے۔ اس کے برعکس انکار اور کبر کی وجہ سے کبھی اس کی شخصیت کی اصلاح نہیں ہوتی، خدا بھی اس سے ناراض ہوتا ہے اور گو ، خلق خدا وقتی طور پر کسی مجبوری کی وجہ سے زبان نہ کھولے لیکن وہ اس کی نگاہ میں مغـضوب ہی ہوتا ہے۔
ہر شخص ان دو میں سے ایک سے قریب ہے۔
آئیے! ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہمارا رویہ حضرت آدم ؑ سے کتنی مطابقت رکھتا ہے اور اگر ہم اپنے جدامجد حضرت آدم ؑ کے اُسوہ سے دور ہیں تو کیا ہم اپنی اصلاح کے لئے تیار ہیں؟