’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے بعداس تقسیم کے نعرے کا کیا معنی ہے، کیا وزیر اعظم نریندر مودی اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟۔
EPAPER
Updated: November 18, 2024, 4:29 PM IST | Arkam Noorul Hasan | Mumbai
’سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے بعداس تقسیم کے نعرے کا کیا معنی ہے، کیا وزیر اعظم نریندر مودی اس کی وضاحت کرسکتے ہیں؟۔
وزیر اعظم مودی کے۲۰۱۴ء کے ہندو ستان کی کہانی’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘سے شروع ہوئی تھی اور۲۰۱۹ء میں اس میں سب کا وشواس بھی شامل کیا گیا تھا ۔ یہ نعرے اوربی جے پی کی سطح پر ان کی معنویت۲۰۲۴ء تک برقرار رہی یعنی وہ اپنے پیروکاروں کو یقین دلاتی رہی کہ وہ اسی نعرے پر قائم ہے اور اسی مقصد کیلئے پابند عہد ہے لیکن اب ۲۰۲۴ء میں مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابا ت کے دوران نعروں کا ایک الگ رجحان سامنے آ رہا ہے ۔ وہ بی جے پی جس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے کا خواب دکھایا تھا، اسی پارٹی کا ایک لیڈر اور ایک ریاست کا وزیراعلیٰ اپنے فرقے کے لوگوں سے اتحاد کی اپیل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ ۔
بی جے پی کیلئے یہ نعرہ کس نے بنایا ؟کس پس منظر میں بنایا؟جس نے بنایا، کیا اس کے ذہن میں اس سے قبل ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ یا ’سب کا ساتھ سب کا وشواس‘ جیسے نعرے نہیں تھے ؟کیا نعرہ بنانے اور نعرہ دینے والوں کیلئےعوامی اتحادکے معنی الگ ہیں یا بی جے پی کیلئے صر ف اس کے پیرو کاروں کا اتحادمعنی رکھتا ہے؟
حقیقتاً، بی جےپی کیلئے عوامی اتحاد وہی ہےجو بالخصوص اس کے ووٹروں کا اتحاد ہے۔ اس کے نعرے میں ’سب کا ساتھ‘ شامل ہے لیکن اس کی سیاست اس سے مختلف ہے ۔ اس کی سیاست کے محور میں وہ طبقہ شامل نہیں ہےجو اس کے مخالفین اور ناقدین کا طبقہ ہے۔ اس کی سیاست اس طبقے کے گرد مرکوز نہیں ہے جو مذہبی اقلیت بالخصوص مسلمان ہیں ۔ اس کی سیاست ایک خاص طبقے کو ساتھ لےکرچلنےکے گرد گھومتی ہے جو اکثریتی طبقہ ہے۔ بی جےپی اکثریتی طبقے کی قیمت پر کسی کو ساتھ نہیں لے گی، بی جےپی اکثر یتی طبقے کی قیمت پرکسی دوسرے طبقےکے حق میں کوئی اعلان نہیں کرے گی۔ اس کے دعوےحالانکہ اس کے برعکس ہوں گے لیکن عملی طورپروہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرےگی جو اکثریتی طبقے کے مزاج، ذہنیت اور ترجیحات کے خلاف ہو۔
بی جےپی اقلیتی طبقے کے مفاد کیلئے اکثریتی طبقے کا کوئی مفاد قربان نہیں کرےگی لیکن اکثریتی طبقے کے مفاد کیلئے اقلیتی طبقے کے سارے مفادا ت قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گی۔ حکومت توعدالت پر بھی اپنا پورا تسلط چاہتی ہے لیکن بہت سے مقدموں میں ٹھوس پیروی ا ور ججوں کی غیر جانبداری سے فیصلے اس کی خواہشوں کے برخلاف آجاتے ہیں ، مثال کے طور پر یوپی میں حالیہ مدارس کے تعلق سے فیصلہ ہویا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعلق سے فیصلہ۔ یہ فیصلے یقیناً بی جےپی حکومت کی خواہشوں کے بر خلاف سامنے آئےہیں لیکن بی جےپی خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔ ابھی وقف بل کا معاملہ بھی جاری ہے۔ حکومت کی نظر اس پر ٹکی ہوئی ہے۔
کرناٹک میں کسانو ں کی زمینوں پر وقف بورڈ کے دعوے کے بعدجگدمبیکا پال کی قیادت میں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے اراکین کرناٹک پہنچے تھے اور وہاں کسانوں سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں کمیٹی کے سربراہ کے انداز و حرکات وسکنات سے ظاہر ہوا تھا کہ ان وہ وقف بورڈ کے دعوے کو ہی بنیادی طورپر غلط سمجھتے ہیں۔ بلکہ انہو ں نے بیان ہی یہی دیا تھا کہ کرناٹک حکومت نے کسانوں کی زمینیں وقف بورڈ کو سونپی ہیں ۔ جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف بورڈ کے قانون میں ترمیم کے خلاف تجاویز پرغور کرنے کیلئے تشکیل دی گئی ہے، اس کے سربراہ اور نمائندےاگرایک ریاست میں جاکرکسانوں اور اپنی پارٹی کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہیں، صرف ایک جانب کا موقف سنتے ہیں، اس سے اول تو غیر جانبداری کی توقع رکھی ہی نہیں جاسکتی اوردوم یہی بات ہے جو ثابت کرتی ہےیہاں بھی ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ ترجیح نہیں ہے بلکہ اپنے طبقے، اپنے حامیوں اور ہمنواؤں کو ترجیح دینا ہے، ان کی شکایتوں کا ازالہ کرنا ہے، ان کے حق میں فیصلے کی راہ ہموار کرنا ہے۔
ایک طرف قانونی طور پر حکومت کی اس طرح کی کوششیں نظر آتی ہیں اور دوسری طرف ایک طبقے کے خطرے میں ہونے کا شوشہ چھوڑ کر دوسرے کے خلاف بدگمانی، نفرت اور تعصب کی فضاقائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ اور’بٹیں گے تو کٹیں گے ‘ جیسے نعرے دئیے جاتے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے جو نعرہ دیا تھا، آج اس کے خلاف پورا ماحول بن چکا ہےاوراس نعرے کی حقیقت کہیں گم ہوگئی ہے۔ وزیراعظم جومیڈیا کے سامنے صرف اپنی حکومت کا موقف رکھنے آتے ہیں، ان سے بھی اس مخالف نعرے پر کسی جواب کی توقع نہیں کی جا سکتی کیونکہ ان اپنا مزاج ہے جو مخالف بیانیے کا جواب نہ دینے سے متعلق ہے۔
بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے متنازع نعروں سے کنارہ کشی اختیار کی ہے ۔ مثلاًنتن گڈکر ی، اجیت پوار، پنکجا منڈے اوراشوک چوان جیسے لیڈران ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسے نعروں پر اعتراض کرچکے ہیں۔ ان کے مطابق یہ پارٹی کا موقف ہے اور کم از کم مہاراشٹرکے حوالے سے ان کاکہنا ہے کہ یہاں اس طرح کے نعروں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ان لیڈران کا عوام کیلئے کئےگئےکاموں پراعتماد ہے۔
یعنی پارٹی اس معاملے میں واضح طورپر دورُخ پر ہے۔ ایک رُخ یوپی بی جےپی کاہے اور دوسرا مہاراشٹر بی جے پی کا۔ یوپی بی جےپی سمجھتی ہے کہ اس کا حامی طبقہ خطرے میں ہے، مہاراشٹر بی جےپی کے کئی لیڈروں کا ایسا کوئی خیال نہیں ہے، فی الحال یہ سمجھا جاسکتا ہےلیکن مجموعی اور باضابطہ طورپر پارٹی کا موقف پارٹی کے صدر یا وزیر اعظم کے بیان سے ہی واضح ہوسکتا ہے۔ اب یہ ممکن نظر نہیں آرہا ہےکیونکہ معاملہ متنازع ہوچکا ہےاور ملک کے کسی داخلی تنازع، بالخصوص تنازع بڑھنے کے بعد وزیر اعظم نے کوئی وضاحت پیش کی ہو، ایسا شایدہی کبھی ہوا ہے۔ آج تک ہجومی تشدد پر وزیر اعظم کی جانب سے کوئی واضح بیان کبھی نہیں دیا گیا۔ اب کیا یہ سمجھ لیاجائے کہ نعروں کی حیثیت صرف سیاسی ہے یا کوئی حیثیت ہے ہی نہیں یا نعروں سے جو بھی ماحول بن جائے اس میں بس بی جےپی کو اپنا فائدہ دیکھنا ہے، اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کون بٹنے والا ہے اور کون کٹنے والا۔