انوراگ ٹھاکر کا راہل گاندھی کا نام لئے بغیر ’ذات‘ کا موضوع چھیڑنا بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے، کانگریس اور سماج وادی نے اسے قومی موضوع بنادیا ہے
EPAPER
Updated: August 01, 2024, 9:44 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai
انوراگ ٹھاکر کا راہل گاندھی کا نام لئے بغیر ’ذات‘ کا موضوع چھیڑنا بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے، کانگریس اور سماج وادی نے اسے قومی موضوع بنادیا ہے
انوراگ ٹھاکر کی کوشش شعوری رہی ہو یا غیر شعوری،لیکن اتنا توطے ہے کہ ’ذات‘ کا موضوع چھیڑ کرانہوں نے بی جے پی کو بری طرح پھنسا دیا ہے۔ جس تحقیر آمیز انداز میں انہوں نے اس موضوع پر گفتگو کی ہے، اس نے نہ صرف ان کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگادیا ہے بلکہ بی جے پی کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔پارٹی کو اب سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس بحران سے کس طرح نکلے؟ انوراگ اور بی جے پی کو بچانے کی کوشش میں وزیراعظم مودی خود اس منجدھار میں پھنستے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ’ذات‘ پر ہونے والی اس گفتگو نے ’ذات پر مبنی مردم شماری‘ کے جن کو بوتل سے باہر نکال دیا ہے۔ شمالی ہند سمیت ملک کی دیگر ریاستوں میں یہ ایک بار پھر موضوع بحث بن گیا ہے۔ اس حوالے سے ملک گیر سطح پر ایک تحریک اُبھرنے لگی ہے جسے ’منڈل۔۲‘ بھی کہا جانے لگا ہے۔
بی جے پی اور اس کے حامی’ذات پر مبنی مردم شماری‘ کو سیاسی قرار دے کر اس کا زور کم کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن قومی سطح پر اس تقریر کا جس طرح سے رد عمل سامنے آیا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ سیاسی سے زیادہ ایک سماجی موضوع ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اس موضوع پر بروقت آواز بلند کرکے بی جے پی کو حواس باختہ کردیا ہے۔ مایاوتی بی جے پی کے خلاف کم ہی بولتی ہیں لیکن اس موضوع نے انہیں بھی بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔زعفرانی پارٹی کو آئندہ ماہ دو ماہ میں اسمبلی کی ۱۰؍ سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کی فکر ستانے لگی ہے۔ وہ یہ سوچ کرخوف زدہ ہے کہ اگر یہ موضوع چل گیا اور ان ’دو لڑکوں‘ کا اتحاد اسی طرح رہا جس طرح لوک سبھا میں تھا، تو ۱۰؍ میں سے ایک دو سیٹ بھی حاصل کرنا اس کیلئے جوئے شیرلانے کے مترادف ہوگا۔ اسی طرح مہاراشٹر، ہریانہ اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں بھی یہ موضوع بی جے پی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ جب یہ موضوع اُبھرے گا تو بی جے پی کی اتحادی جماعتوںمیں شامل نتیش کمار کی جے ڈی یو، چراغ پاسوان کی ایل جے پی، چندرا بابو نائیڈوکی ٹی ڈی پی، جینت چودھری کی آر ایل ڈی،دیوے گوڑا کی جے ڈی ایس،جیتن رام مانجھی کی ’ہم‘، راج بھر کی سہیل دیو سماج پارٹی اور رام داس آٹھولے کی آر پی آئی کا کیا موقف ہوگا؟
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے معاملے میں بی جے پی ، کانگریس کے ’چکرویوہ‘ میں پھنستی ہوئی نظر آرہی ہے۔یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ہندودیومالائی کہانیوں کی اُن ساری علامتوں پر جن پر بی جے پی اپنی اجارہ داری سمجھتی تھی، اب ایک ایک کرکے کانگریس کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ لفظ ’چکرویوہ‘ کا استعمال ابھی تک بی جے پی اپنے لئے کرتی آرہی تھی لیکن اب وہ اس لفظ سے بھی چڑنے لگی ہے۔ اس سے قبل ابھے مدرا، سمدر منتھن، وِش اور ایکلویہ جیسے ’الفاظ‘ کے تیروں سے کانگریس، بی جے پی کو زخمی کرچکی ہے۔بہرحال ’ذات پر مبنی مردم شماری‘ کا یہ معاملہ اب بی جے پی کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ بقول شاعر ’’بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘‘.... تو اب یہ بات نکل چکی ہے جس کی گونج ملک کے کئی خطوں میں سنائی دے رہی ہے۔ اپنے مزاج سے مجبور بی جے پی آج بھلے ہی اس بات کااعتراف نہ کرے لیکن اُس وقت جب اس کے قدموں تلے سے زمین سرک چکی ہو گی، تب امیت شاہ کی طرح وہ یہ کہہ کر لکیر پیٹنے کی کوشش کرے گی کہ ’’انوراگ ٹھاکر جیسے لیڈروں کی تقریروں نے اپوزیشن کو ایک موضوع دے دیا جس سے بی جے پی کو نقصان پہنچا۔ ‘‘ خیال رہے کہ یہ اعتراف امیت شاہ نے ۲۰۲۰ء میں دہلی کے اسمبلی انتخابات میں بری طرح ہزیمت سے دوچار ہونے کے بعد ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ اُس وقت انوراگ ٹھاکر کا یہ نعرہ’ ’دیش کے غداروں کو ، گولی مارو..... کو‘‘ موضوع بحث بنا تھا۔ بالکل اسی طرح اس بار بھی انوراگ کا یہ بیان بی جے پی کو دریا برد کرسکتا ہے۔