مردم شماری ۲۰۱۱ء کے بعد سے نہیں ہوئی ہے، اسے ۲۰۲۱ء میں ہونا چاہئے تھا۔ نئی حدبندی تو ۱۹۷۲ءسے نہیں ہوئی ہے۔
EPAPER
Updated: November 26, 2023, 1:15 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
مردم شماری ۲۰۱۱ء کے بعد سے نہیں ہوئی ہے، اسے ۲۰۲۱ء میں ہونا چاہئے تھا۔ نئی حدبندی تو ۱۹۷۲ءسے نہیں ہوئی ہے۔
پچاس سال ہوگئے، ہندوستان نے نئی حدبندی نہیں کی جس کے تحت لوک سبھا کی تشکیل، بناوٹ یا یوں کہئے کہ اس کی شکل بدلی جاتی ہے۔ اس سلسلے کے سارے اختیارات اُس ایک شخص کے ہاتھوں میں ہیں جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ملک کے کس حصے میں کتنی سیٹیں ہوں گی۔ (اس شخص کے) ’’احکام کو قانون کی پشت پناہی حاصل ہے جسے کسی بھی عدالت میں سوالات کے گھیرے میں نہیں لایا جاسکتا‘‘ اور بدلا نہیں جاسکتا۔ حالیہ چند واقعات کی وجہ سے ’’حدبندی‘‘ ایک بار پھر موضوع بحث بن گئی ہے جبکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کا ریزرویشن تبھی ممکن ہوگا جب نئی حدبندی کا کام مکمل ہوجائیگا۔یاد رہے کہ حکومت نے دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے مشروط کیا ہے،ریزرویشن کا قانون تب ہی نافذ ہوگا جب حدبندی ہوگی اور حد بندی تبھی ہوگی جب مردم شماری ہوگی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ اتنا بااثر اور بااختیار شخص کون ہے۔ حدبندی کمیشن کی سابق سربراہ سبکدوش جج رنجنا دیسائی تھیں جنہوں نے ۲۰۲۲ء میں اس عہدہ سے علاحدگی اختیار کرلی تھی لیکن اُن کا نام الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اب بھی موجود ہے۔ یاد رہے کہ حدبندی اُس وقت کی جاتی ہے جب ریاستوں کی آبادی تبدیل ہوتی ہے کیونکہ ہر ریاست میں شرح پیدائش مختلف ہوتی ہے۔ پچاس سال پہلے یوپی کے ۸۵؍ اراکین پارلیمان (تب اُتراکھنڈ بھی اس ریاست کا حصہ تھا)، میں سے ہر رکن پارلیمان اوسطاً ۱۰؍ لاکھ شہریوں کی نمائندگی کرتا تھا، کیرالا کے ۲۰؍ اراکین پارلیمان، تمل ناڈو کے ۴۰؍اراکین پارلیمان، کرناٹک کے ۲۸؍ اراکین پارلیمان اور راجستھان کے ۲۵؍ اراکین پارلیمان اپنے حلقوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ لوک سبھا کی سیٹوں کے سابقہ تعین (سابقہ حدبندی) کے بعد سے اب تک کیرالا کی آبادی میں ۵۶؍ فیصد کا اور راجستھان کی آبادی میں ۱۶۶؍ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ہر ریاست کی لوک سبھا سیٹیں الگ الگ اسی لئے تھیں کہ ہر ریاست کی آبادی الگ ہے مگر پچاس سال پہلے ایک رکن پارلیمان کم و بیش اُتنے ہی عوام کی نمائندگی کرتا تھا جتنا کہ کوئی دوسرا رکن پارلیمان۔ آج صورت حال مختلف ہے۔ اسی لئے اب نئی حدبندی کمیشن کا سربراہ صورت حال کاجائزہ لینے کیلئے بیٹھے گا تو اس پر کافی دباؤ ہوگا کیونکہ ضروری نہیں کہ جس طرح کی حدبندی ہوگی اس سے ہر طبقہ مطمئن ہو۔
اسی لئے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ حد بندی کے فیصلے میں تاخیر ہوگی اور ممکن ہے کہ غیر معینہ مدت کی تاخیر ہو۔ اس احساس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب تک تازہ مردم شماری نہیں ہوجاتی، حدبندی کمیشن کا غوروخوض بے معنی ہوگا۔ جہاں تک مردم شماری کا تعلق ہے، اس میں غیر معمولی تاخیر ہوچکی ہے۔چونکہ خواتین کو ایک تہائی ریزرویشن اب قانون بن چکا ہے اس لئے حدبندی کے اثرات نمایاں ہوں گے یہ صرف جغرافیائی معاملہ نہیں رہ جائیگا۔ تو کیا یہ بہت ضروری ہے؟ اس کا جواب اثبات میں ہے۔ اس لئے کہ اس سلسلے میں کوئی قدم نہ اُٹھانا آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔ آرٹیکل ۸۲ (ہر مردم شماری کے بعد سیٹوں کی تشکیل نو یا حلقوں کی نئی حدبندی) میں کہا گیا ہے کہ ’’ہر مردم شماری کے بعد ایوان نمائندگان میں نشستوں کی تعداد اور ہر ریاست کے انتخابی حلقوں کا تعین ایک بااختیار ادارہ کے ذریعہ ہو اور اُس انداز میں ہو جس انداز میں پارلیمنٹ قانون بناکر طے کرے۔‘‘
یہاں واضح رہنا چاہئے کہ آئین نے ہر مردم شماری کے بعد کی شرط عائد کی ہے اور گزشتہ پچاس سال کے دوران اس شرط کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اب سے پہلے جو حدبندی ہوئی تھی وہ ۱۹۷۲ء میں ہوئی تھی۔ لوک سبھا کی نشستیں ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ۴۹۴؍ تھیں جو ۱۹۶۰ء کی دہائی میں ۵۲۲؍ اور ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ۵۴۳؍ تک پہنچیں ۔ اب نمائندگی بڑھنے گھٹنے کے معاملے میں آبادی کو پیش نظر رکھتے ہوئے محسوس کیا جارہا ہے کہ جنوبی ریاستیں خاندانی منصوبہ بندی کا بہتر طور پر خیال رکھ رہی ہیں مگر شمالی ریاستوں میں اس پر توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ حکومت ۱۹۸۰ء کی دہائی کے اخیر تک خاندانی منصوبہ بندی کا باقاعدہ پرچار کرتی تھی۔ ٹی وی (دوردرشن) اور اخبارات میں اس سلسلے کے اشتہارات اکثر و بیشتر شائع ہوا کرتے تھے۔
ان اشتہارات کا فائدہ یہ ہوا کہ حدبندی کے نقطۂ نظر سے ریاستوں کی آبادی میں بڑی حد تک مساوات آئی۔ اس کے بعد مردم شماری اور حدبندی کے درمیان جو تعلق تھا اُسے ختم کردیا گیا۔ ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہم نے مردم شماری کی جس سے علم ہوا کہ ریاستوں کی آبادی میں پہلے جیسی مساوات نہیں رہی بلکہ کافی فرق آگیا ہے اس کے باوجود نئی حد بندی نہیں ہوئی۔
تو کیا نئی حدبندی کی مشق اب شروع ہوگی؟ ہم نہیں جانتے۔ ۱۸۸۰ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری نہیں کرائی گئی۔ اسے ۲۰۲۱ء میں ہونا تھا۔ مرکزی حکومت نے اس کی وجہ کووڈ کی وباء بتائی کہ ایسے حالات میں مردم شماری نہیں کرائی جاسکتی۔ اب جبکہ کووڈ کی وباء ختم ہوچکی ہے، حکومت کو اس جانب متوجہ ہونا چاہئے تھا۔ مردم شماری کی تیاری اب تک شروع ہوجانی چاہئے تھی مگر اس کے کچھ آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔ سی اے اے قانون سے ہمیں اتفاق نہیں ہے مگر حکومت نے اسے بھی نافذ نہیں کیا جبکہ کہا گیا تھا کہ کووڈکی وباء ختم ہونے کے بعد اس کا نفاذ عمل میں آئیگا!
اگر مردم شماری کی تیاری جلد ہی شروع کی گئی تو حکومت کو عوامی احساسات کا خیال رکھتے ہوئے چند باتیں پہلے سے طے کرلینی ہونگی، ان میں سب سے اہم یہ کہ عوام کیا چاہتے ہیں ۔ یہ تب ہی ہوگا جب نئی حدبندی سے متعلق عوام سے سنجیدہ اور کھلے دل سے گفتگو ہوگی اور عوامی رائے جاننے پر توجہ دی جائیگی۔ یہ ضروری ہے کیونکہ ریاستوں کی آبادی اب پہلے جیسی نہیں ہے، الگ الگ ریاستوں میں آبادی کے جوں کا توں رہنے یا کافی بڑھ جانے کی اپنی کیفیت ہے۔ ایسی صورت میں مردم شماری اور حدبندی ایک اہم موضوع ہے اور موجودہ حالات کے پیش نظر اس کا امکان کم ہے کہ ان معاملات میں غیر جانبدارانہ فیصلے کئے جائینگے ۔