• Wed, 01 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

مرکزی حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات کو محدود کرکے اسے کٹھ پتلی بنانا چاہتی ہے

Updated: December 29, 2024, 2:29 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مودی سرکار الیکشن کمیشن کو اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنانا چاہتا ہے۔ حکومت کی جانب سے انتہائی عجلت میں قانون میں تبدیلی سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

Along with the political parties, the people also want to know how there was so much polling in the last hour. Photo: INN.
سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہی عوام بھی یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخری گھنٹے میں اتنی زیادہ پولنگ کیسے ہوئی؟تصویر:آئی این این۔

الیکشن کمیشن پر برسر اقتدار کے بڑھتے کنٹرول پر ہورہی تنقید کے درمیان مرکزی حکومت نے انتخابی ضابطہ میں ترمیم کرکے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے الزام عائد کیا ہے کہ مودی سرکار الیکشن کمیشن کو اپنے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنانا چاہتا ہے۔ حکومت کی جانب سے انتہائی عجلت میں قانون میں تبدیلی سے کئی طرح کے سوالات جنم لے رہے ہیں جبکہ انتخابی عمل کی افادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سرکار کو سبھی اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ انتخابی رول میں ترمیم پر غیر اردو اخبارات نے کیا کچھ لکھا ہے۔ 
جس کی لاٹھی، اس کی بھینس
مراٹھی اخبار’سامنا‘ نے اداریے لکھا ہے کہ’’ ہماری جمہوریت کو ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے مصداق بنانے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا ایک لاٹھی ہے اور یہ لاٹھی اس وقت مودی اور شاہ کے ہاتھوں میں ہے، اسلئے جمہوریت کی بھینس بھی انہیں کی ہے۔ مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات کے آخری مرحلے میں ۷۶؍ لاکھ رائے دہندگان کا اضافہ ہوا۔ جیسے جیسے پولنگ کا وقت ختم ہونے آرہا تھا، آخری ڈیڑھ گھنٹے میں ۷۶؍لاکھ ووٹ بڑھے ہیں۔ اس سے ووٹنگ کے فیصد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کا فائدہ بی جے پی اور اس کی دو پارٹیوں کو ہوا ہے۔ اس طرح بی جے پی مہاراشٹر میں سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کاکیا راز ہے؟ یہ سوال مہاراشٹر کانگریس نے الیکشن کمیشن سے پوچھا ہے لیکن الیکشن کمیشن نے کانگریس کے شکوک و شبہات کو رد کرتے ہوئے یہ فیصلہ دیا کہ ایک گھنٹے کے اندر۷۶؍لاکھ ووٹنگ ممکن ہے۔ آخری کے ڈیڑھ گھنٹے میں یہ پولنگ کیسے بڑھی؟ اس کی کوئی عقلی دلیل الیکشن کمیشن نے نہیں دی۔ اوسطاً۲۵؍ سے۳۰؍ ہزار ووٹنگ کیسے بڑھی؟ یہ ایک فطری سوال ہے، جس کا جواب مہاراشٹر کا ہرشہری جاننا چاہتا ہے۔ یہی سوال ہریانہ اسمبلی انتخابات کے دوران بھی پوچھا گیا تھا وہاں بھی الیکشن کمیشن نے اچانک ووٹنگ کا فیصد بڑھا دیا تھا۔ 
اس تناظر میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن سے پولنگ اسٹیشن کا سی سی ٹی وی فوٹیج طلب کیا تھا۔ اس کے مطابق الیکشن کمیشن کو اسے عدالت میں پیش کرنا چاہئے تھا لیکن ہائی کورٹ کے فرمان سے مودی حکومت کو جھٹکا لگا اور حکم جاری کیا گیا کہ اب ایسا کوئی ریکارڈ رائے دہندگان کو نہیں دیا جا سکتا ہے۔ حکومت کا یہ متنازع فیصلہ کئی طرح کے شکوک پیدا کر رہا ہے۔ مہاراشٹر میں آخری گھنٹے میں اچانک پانچ کروڑ ووٹروں کا اضافہ ہونا بھی کئی طرح کے سوال کھڑے کر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن صرف یہ کہہ کر اپنا دامن بچا رہا ہے کہ ’یہ ممکن ہے‘۔ کیا۷۶؍ لاکھ ووٹر زمین سے نکلے یا آسمان سے گرے؟ ایسے میں پولنگ اسٹیشن کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں سامنے لائی نہیں جا رہی ہے، یہی اصل نکتہ ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات پوری شفافیت کے ساتھ منعقد کئے گئے اور ووٹنگ کا فیصد تبدیل کرنا، قطعی ممکن نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ دعویٰ محض ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ جو لوگ شرد پوار کی پارٹی اجیت پوار اور شوسینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے کی شیو سینا کو ایکناتھ شندے کے حوالے کر سکتے ہیں وہ مودی اور شاہ کی جی حضوری کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ ‘‘
انتخابی ضابطوں میں ترمیم
مراٹھی اخبار’ نو شکتی‘ نے اداریہ لکھا ہے کہ’’ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں اب تک کئی انتخابات ہو چکے ہیں، لیکن پچھلے چند برسوں میں انتخابات کے متنازع ہونے کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن آف انڈیا انتخابی عمل کو چلانے والا ایک آزاد ادارہ ہے لیکن حزب اختلاف کا الزام ہے کہ الیکشن کمیشن حکومت کے زیر اثر ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اس بات کے جاننے کا حق حاصل ہے کہ جن حلقوں میں قابل اعتراض واقعات رونما ہونے کا شبہ ہے وہاں پولنگ کے دوران کیا ہوا؟ اس کیلئے ان کے پاس حق معلومات ایکٹ کا ہتھیار ہےلیکن اب تک کے تجربات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت جس معلومات کو چھپانا چاہتی ہے وہ درخواست گزار کو کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس سے محروم کردیتی ہے۔ مرکزی حکومت نے حال ہی میں ضابطے میں ترمیم کردیا ہے کہ انتخابات سے متعلق تمام کاغذات، پولنگ اسٹیشن کی ویب کاسٹنگ، سی سی ٹی وی فوٹیج اور ایسے دیگر ڈیجیٹل دستاویزات عام یا سیاسی پارٹیوں کیلئے جاری نہیں کئے جائیں گے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایسا الیکشن کمیشن کی سفارشات پر کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے یہ سفارش کسی بھی سیاسی پارٹی سے بات چیت کے بغیر نافذ کردی ہے۔ حکومت جواز پیش کررہی ہے کہ اس کے پیچھے الیکٹرانک سسٹم کے غلط استعمال کو روکنا ہے۔ ایڈوکیٹ محمود پراچہ نے ہریانہ ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے ہریانہ اسمبلی انتخابات سے متعلق دستاویزات کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو انتخابات سے متعلق تمام دستاویزات درخواست گزار کے حوالے کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ دراصل محمود پراچہ نے ہریانہ اسمبلی انتخابات سے متعلق ویڈیو گرافی، سی سی ٹی وی فوٹیج اور فارم نمبر ۱۷؍ سی کا مطالبہ کیا تھا۔ ‘‘
اس میں حکومت کی من مانی لگ رہی ہے
ہندی اخبار ’نوبھارت‘ لکھتا ہے کہ’’ مرکزی حکومت نے اچانک انتخابی ضوابط میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن کا سی سی ٹی وی فوٹیج امیدواروں اور عام لوگوں کو دستیاب نہیں کرایا جائے گا۔ اس مسئلہ پر وسیع بحث ومباحثہ ہوسکتا ہے۔ الیکشن کنڈکٹ رولز کے تحت آرٹیکل ۹۳(۲) اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ الیکشن سے متعلق تمام دستاویزات عدالت کی اجازت سے عوام کو دکھائے جا سکتے ہیں۔ 
قواعد میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ پولنگ اسٹیشن کی سی سی ٹی وی فوٹیج دستیاب کروائی جائے۔ اس کے باوجود پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ایک عرضی گزار کی درخواست پر اس کی اجازت دی تھی۔ الیکشن کمیشن کی دلیل ہے کہ ضوابط میں ترمیم رائے دہندگان کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ جموں کشمیر اور نکسل متاثرہ علاقوں میں ووٹنگ کی فوٹیج جاری کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے سی سی ٹی وی فوٹیج کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یقینی طور پر حساس علاقوں میں سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کرنے سے ووٹروں کی حفاظت خطرے میں پڑ سکتی ہے تاہم عوامی اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے اسے قوانین میں تبدیلی پر نظر ثانی کرنی چا ہئے۔ اس میں حکومت کی من مانی لگ رہی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK