Inquilab Logo

مزاح نگاری انسانی زندگی اور رویوں کی ترجمان ہے

Updated: February 06, 2023, 4:41 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

نوجوان مزاح نگارو ادیب وجاہت عبد الستار کے مطابق مزاح نگار شگوفوں کی چھڑی سے کام لیتا ہےاور اپنی بات بحسن و خو بی پہنچادیتا ہے ۔پیش ہے انٹر ویو سیریز کی ساتویں قسط

Young humorist and writer Wajahat Abdul Sattar
نوجوان مزاح نگار و ادیب وجاہت عبد الستار

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچارہے ہیں۔ اس ہفتے مغربی مہاراشٹر کے تاریخی شہر شولاپور سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادیب و مزاح نگار وجاہت عبد الستار کا انٹر ویو ہم قارئین تک پہنچارہے ہیں۔ وجاہت عبد الستا ر نئی نسل کے ابھرتے ہوئے مزاح نگار ، ڈراما نگار اور ادیب ہیں۔ ساتھ ہی وہ مصوری بھی کرتے ہیں جبکہ افسانہ نگاری میں بھی ہاتھ آزما چکے ہیںلیکن ان کا اصل میدان مزاح نگاری ہی ہے۔ہفت روزہ اخبار اردو میلہ میں ان کے مزاحیہ کالم ’’گوشہ بے ادب ‘‘ کو کافی پذیرائی مل چکی ہے۔ وجاہت درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ بال بھارتی کے شعبہ اردو میں مجلس مشاورت کے رکن بھی رہے ہیں۔ان کی ۳؍ کتابیں’گستاخیاں‘  (طنز ومزاح) ،’ شیواجی مہاراج کے مسلم سپہ سالار‘( تاریخی دستاویز) اور ’ افسر میرٹھی کی نظمیں‘ منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ چند کتابیں زیر طبع ہیں۔ پیش ہے ان سے گفتگو
لکھنے کی شروعات کب سے ہوئی  ؟ 
  میں جب ہشتم جماعت میں تھا تو اردو کے پرچے میں رٹے رٹائے دو مضامین کے ساتھ ایک نیا عنوان بھی تھا   ( میں نے کھانا پکایا،مزاحیہ) میں نے اس عنوان پر کافی طویل مضمون لکھ دیا ۔ پرچے چیک کرتے وقت میری استانی کافی لوٹ پوٹ ہوئیں اور مجھے خصوصی طور بلا کر شاباشی دی کہ تم نے دوسروں کی نقل نہیں کی بلکہ ایک نئی راہ نکالی ہے اس  لئے تمہیں مکمل نمبر د ئیے جا رہے ہیں۔ ان کے اس طرح سے حوصلہ بڑھانے پر مجھ میں جو اعتماد آیا پھر میں نے مسلسل لکھنا شروع کردیا ۔  
 مزاحیہ نثر لکھنے کا خیال کیوں آیا ؟
  والد صاحب کو ابن صفی کے ناول پڑھنے کی عادت تھی ۔ ان ناولوں کا چسکا مجھے بھی لگا اور آپ یقین کریں ششم جماعت تک آتے آتے میں نے ابن صفی کے چالیس سے پچاس ناول پڑھ ڈالے تھے ۔ میرے سامنے ابتدا ہی سے مزاح کے بہترین نمونے تھے ۔ عمران، حمید اور قاسم کے شگوفوں سے طبیعت بحال ہوتی تھی ۔ وہ ایک عجیب تخیلی دنیا تھی اور اسی دنیا نے مجھے راستہ دکھایا ۔ نویں جماعت تک آتے آتے ملک کے معروف رسالوں پیام تعلیم ، نور اور الہلال وغیرہ میں میری مزاحیہ کہانیاں شائع ہوئیں تو مزید ہمت بندھی ۔ ہر چند کہ میں نے افسانہ نگاری بھی کی ہے لیکن طنز و مزاح میں لکھنے کا سرور الگ ہی ہے۔ 
 مزاح لکھنے کیلئے سب سے زیادہ مدد کس چیز سے ملتی ہے؟
 کسی خیال کو ضبط تحریر میں لانے کیلئے اس موضوع سے متعلق معلومات اور مطالعہ بہت ضروری ہے ۔اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ اسے کس انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ مزاح نگار پھولوں اور شگوفوں کی چھڑی سے کام لیتا ہے ۔اس سے مار کھانے والے تک  بات بھی پہنچ جاتی ہے اور اسےبرا بھی نہیں لگتا ۔ 
  مزاح کے میدان میں آپ  کے رہنماکون ہیں؟
 بنیادی طور پر میں ابن صفی کو اپنا روحانی استاد مانتا ہوں ۔ان ہی کی تحریروں کو پڑھ پڑھ کر مجھ میں مزاح نگاری کا مزاج پیدا ہوا  ہے۔ ان جیسا  نبّاض ، مزاح نگار اور سماجی مصلح    پیدا نہیں ہوا ۔ یوں تو کئی مزاح نگار گزرے ہیں لیکن سماجی بیماریوں کا جو علاج ابن صفی کے پاس پایا جاتا ہے وہ کہیں اور نہیں ہے ۔ ابن صفی کے یہاں سماجی ابتری کے پہلو، معاشی نابرابری ، معاشرتی عدم مساوات ، معاصر دانشورانہ  رویوںاور ادبی رویوں سے واقفیت کا پتہ ملتا ہے ۔ ان کے علاوہ میرے والد نے بھی میری بہت  رہنمائی کی  ہے۔ انہوں نے ہی  مجھ میں مطالعہ کا شوق  ابھارا  اور اچھی اچھی کتابیں فراہم کیں۔ 
بطور قلم کار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ـ
  اسکول ،کالج اور یونیورسیٹیاں آپ کو علم و دانش کی دہلیز تک تو لا کھڑا کرتی ہیں لیکن تحصیل علم کا اصل سفر مطالعے سے شروع ہوتا ہے ۔ اگر کوئی کامیاب بننے کی آرزو رکھتا ہو لیکن صرف درسی کتب پر اکتفا کرتا ہو اورکتب بینی و مطالعے کی ضرورت محسوس نہ کرتا ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جس نے پانی پینا تو سیکھ لیا لیکن پانی کی تلاش نہ کی ۔ 
 آپ کے لکھنے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
   لکھنے کا ایک مقصد ہونا چا ہئے ۔ بغیر مقصد لکھی گئی نثر تفریح تو ہو سکتی ہے لیکن سماجی بیماریوں کا سد باب نہیں ۔ بنیادی طور پر میری کوشش یہی  ہے کہ سماج میں پائے جانے والے غلط رویوں کو اس انداز سے دور کروں جس طرح ایک باغبان کرتا ہے ۔ باغبان کا مقصد درختوں کو کاٹنا نہیں بلکہ باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کیلئے بدنما ٹہنیوں کو تراشنا ہوتا ہے ۔میرے قلم سے نکلنے والی ہر تحریر کا مقصد آدم کو انسان بننے کی طرف دعوت دینا ہے ۔
کیا آپ اپنی ا ب تک کی  مزاح نگاری  سے مطمئن ہیں؟ 
  اس کا جواب قبل از وقت ہوگا ۔ اسے اطمینان تو نہیں کہیں گے کہ مجھے مزاح نگاری میں مزید منزلیں طے کرنی ہیں لیکن جب میں آج کل سطحی مزاحیہ تحریریں دیکھتا ہوں تو مسکرانے  کے بجائے رونے کو دل کرتا ہے ۔ مقصدیت سے عاری مزاح ، مزاح نہیں ٹھٹھول اور مسخرہ پن رہ جاتا ہے اور بیشتر مزاح نگار آج کل یہی کررہے ہیں ۔
 کیا آج کی  تیزرفتارزندگی میں انسان کو ادب  پڑھنے 
اور خاص طور پر مزاحیہ تحریں پڑھنے کی  ضرورت ہے؟ 
 ادب وہ طاقت ہے جو قوموں کی زندگی میں انقلاب لاتا ہے ۔معاشرے کا مصلح اور روح کی تسکین  ہوتا ہے ادب۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارے گھرآنے والا واحد اردو اخبار انقلاب تھا اور والد صاحب اسے پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ زبان شستہ ہوگی اور الفاظ کا ذخیرہ بڑھے گا۔ یہ ترغیب اگر آج کے والدین بھی دلائیں تو اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں رہ جائے گی مگر جہاں تک مزاحیہ تحریریں پڑھنے کی بابت سوال ہے تو مجھے لگتا ہے کہ مزاحیہ تحریریں صرف تفریح کیلئے پڑھنے کے بجائے ان کے ذریعے کسی بھی مسئلے کا دوسرا زاویہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
 کیا آپ متفق ہیں کہ عصری  مزاح نگاری کا معیار کم ہو رہا ہے؟  
  مزاح نگاری ایک بہترین صنف ہے لیکن اس میں کوئی آگے آنے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے مسخرہ پن اور ٹھٹھول بھی مزاح نگاری سمجھا جانے لگا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ کلاسک مزاح نگاروں کی تحریروں کا مطالعہ کم ہوگیا ہے۔ ضرورت ہے کہ ادبی انجمنیں اور اکادمیاں اس صنف کی طرف مزید توجہ دیں ۔ساتھ ہی نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ 
    نئے قارئین کیسے پیدا ہوں؟ کوئی مشورہ 
  اسکولی سطح پر بچوں کو مطالعہ کی ترغیب دینا چا ہئے ۔ صرف  یوم ترغیب مطالعہ منا کر یا فوٹو کھنچواکر اخبارات میں شائع کرانے سے بچوں میں مطالعہ کا شوق نہیں پیدا ہوگا ۔ مطالعہ کا شوق اسکول کی چہار دیواری میں ہی پروان چڑھتا ہے ۔ موبائیل اور کمپیوٹر نے بچوں سے کتابیں چھین لی ہیں  ۔ چونکہ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے اور اس سے مفر ممکن نہیں  اس لئے ہمیں اس کا استعمال بھی مطالعہ کی ترغیب دینے کیلئے کرنا چاہئے۔ 
 موجودہ حالات میں مزاح نگاروں کا کردار 
 اپنی تخلیقات میں دور حاضر کی عکاسی کرتے ہوئے سماجی ناانصافیوں پر گہری ضرب لگانا میں نے مشہور افسانہ نگار ساجد رشید سے سیکھا ہے۔ اس سوال کے جواب  میں صرف ساجد رشید کو پیش کرتا ہوں ۔

Human Life Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK