کانگریس کا انتخابی منشور اچھا ہے۔ جس طرح بھارت جوڑو یاترا کے دوسرے حصے کو ’’نیائے‘‘ سے جوڑا گیا تھا، اسی طرح پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کو بھی نیائے سے وابستہ کیا ہے اور اسے ’’نیائے پَتر‘‘ نام دیا ہے۔
EPAPER
Updated: April 06, 2024, 1:48 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
کانگریس کا انتخابی منشور اچھا ہے۔ جس طرح بھارت جوڑو یاترا کے دوسرے حصے کو ’’نیائے‘‘ سے جوڑا گیا تھا، اسی طرح پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کو بھی نیائے سے وابستہ کیا ہے اور اسے ’’نیائے پَتر‘‘ نام دیا ہے۔
کانگریس کا انتخابی منشور اچھا ہے۔ جس طرح بھارت جوڑو یاترا کے دوسرے حصے کو ’’نیائے‘‘ سے جوڑا گیا تھا، اسی طرح پارٹی نے اپنے انتخابی منشور کو بھی نیائے سے وابستہ کیا ہے اور اسے ’’نیائے پَتر‘‘ نام دیا ہے۔
اس کے جن حصوں کو خاص اہمیت دی گئی ہے وہ یووا نیائے، ناری نیائے، کسان نیائے، شرمک نیائے او رحصہ داری نیائے ہیں۔ ان ابواب سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ کون سے میدان ہیں جو کانگریس کا مرکز توجہ ہونگے۔ ان سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی عوام کے کن طبقات کو خاص طور پر رجھانا چاہتی ہے۔ ان میں طبقہ ٔ نوجواں اور طبقہ ٔ نسواں شامل ہیں۔ اگر انتخابی منشور کے ذریعہ سماج کے مختلف طبقات کو رجھانا اور اعتماد میں لینا ممکن ہو تو ’’نیائے پَتر‘‘ اس قابل ہے کہ اس کی ستائش کی جائے مگر ایسا کہتے وقت یہ ستم ظریفی بھی یاد رہتی ہے کہ انتخابات اور انتخابی منشور میں براہ راست تعلق ہونے کے باوجود رائے دہندگان کی اکثریت کسی بھی پارٹی کو اُس کے انتخابی منشور کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیتی۔
انتخابات میں انتخابی منشور نہیں، لہر کام کرتی ہے، نعرہ چلتا ہے اور سیاسی بیانیہ اثر دکھاتا ہے جو عوام کے دلوں میں اُتر جائے۔ ہونا تو یہی چاہئے کہ کسی پارٹی کو ووٹ دینے سے پہلے عوام یہ جاننے کیلئے بیقرار ہوں کہ اُس کا مطمح نظر، فکر اور ویژن کیا ہے، وہ کس بارے میں کیا سوچتی ہے، اقتدار میں آنے کے بعد اس کی پالیسیاں کیسی اور ترجیحات کیا ہوں گی، بہ الفاظ دیگر، عوام انتخابی منشورکا مطالعہ کرکے ذہن بنائیںمگر یہ نہیں ہوتا ۔ اسی لئے، پانچ سال گزرنے کے بعد عوام کسی پارٹی کا سابقہ انتخابی منشور لے کر بیٹھتے ہیں نہ یہ دیکھتے ہیں کہ اگر وہی پارٹی اقتدار میں آئی تھی جسے عوام کی بڑی تعداد نے ووٹ دیا تھا تو اُس کے وعدے کیا تھے اور اُس نے اُن وعدوں کو پورا کیا یا نہیں، اپنی جس فکر کا اظہار کیا تھا اُس پر وہ پورا اُتری یا نہیں۔
ہمارے ملک میں رائے دہندگان کا یہ ذہن اب تک نہیں بنا ہے۔ اسی لئے بہت سی پارٹیاں انتخابی منشور میں وعدے تو بہت کرتی ہیں مگر اُن کی تکمیل کی فکر نہیں کرتیں کیونکہ اُنہیں علم ہے کہ عوام نہ تو انتخابی منشور کو دیکھ کر اور پڑھ کر ووٹ دیتے ہیں نہ ہی انتخابی منشور کی بنیاد پر پارٹی کی کارکردگی کا محاسبہ کرتے ہیں۔
انتخابات کیلئے انتخابی منشور ہی سب کچھ ہونا چاہئے۔ نہ تو ریلیاں درکار ہوں نہ ہی بیان بازی، نہ تو لعن طعن ہو نہ ہی الزام تراشی اور کردار کشی کا سہارا لیا جائے۔ ہر پارٹی اپنے انتخابی جلسے میں صرف اور صرف انتخابی منشور پر گفتگو کرے اور عوام اسی منشور سے بحث کریں۔ منشور ہی نعرہ ہو اور منشور ہی سیاسی بیانیہ۔ شاید اس مثالی صورتحال تک پہنچنے کیلئے ہمیں ابھی کافی وقت ہے۔ قارئین کو یاد ہوتا کہ ۲۰۱۹ء میں بھی کانگریس کا منشور قابل تعریف تھا۔ مگر ملک کی یہ عظیم و قدیم ۲۰۱۴ء میں کھوئی ہوئی زمین ۲۰۱۹ء میں واپس نہیں لےسکی۔
اس بار، اس کی تیاری اچھی دکھائی دے رہی ہے مگر راہ کی رکاوٹیں بھی بے شمار ہیں۔ اس کے لیڈروں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کے رجحان کو تقویت دی ہے اور ایسے ایسے لوگ بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں جن کی واحد پہچان کانگریس تھی۔ کانگریس نے انہیں نوازا بھی بہت، مگر، جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ سیاست کو عوامی خدمت سے عبارت ہونا چاہئے مگر وہ اپنی خدمت (اپنا مفاد، اقتدار) سے جڑ گئی ہے۔ اتنی خرابیاں اسی لئے آ رہی ہیں !