اسمبلی نتائج یقیناً حیران کن اور چونکادینےوالے ہیں۔ کئی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہ ملے ہیں، نہ ملنے کی امید ہے مگر یہ بات طے ہے کہ کانگریس کی مرکزی قیادت کا ریاستی لیڈرشپ کے آگے ہتھیار ڈال دینا ،ان پر مکمل اعتماد کرلینا اورا ن کی من مانیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دینا شکست کی بڑی وجہ بنی۔
تلنگانہ کی کامیابی اور دیگر تین ریاستوں میں ناکامی کا جائزہ لیتے ہوئے کانگریس کو آگے کا لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ تصویر : آئی این این
۵؍ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات جنہیں آئندہ سال کے لوک سبھا انتخات کا سیمی فائنل قرار دیا جا رہا تھا، کے حیران کن اور چونکادینےوالے نتائج نے قومی سطح پر تبدیلی کی اُمید لگائے بیٹھے افرادکو فکرمند کردیا ہے۔ جس کانگریس نے کرناٹک میں بی جےپی کو دھول چٹائی اور حالیہ انتخابات میں تلنگانہ میں زیرو سے ہیرو بننے میں کامیابی حاصل کی وہ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں اپنا اقتدار بچاسکی، نہ مدھیہ پردیش میں حکومت مخالف لہر کا فائدہ اٹھا کر بی جےپی کو اقتدار سے بے دخل کر سکی۔ تینوں ریاستیں اُس’’ مودی لہر ‘‘ میں بہہ گئیں جو کہیں نظر ہی نہیں آرہی تھی۔نتائج کا تجزیہ کرتے وقت کئی سوال ہیں جن کے جواب نہیں مل پاتے اور مستقبل میں ملنے کی امید بھی کم ہی ہے۔مثال کے طور پر تینوں ہی ریاستوں میں کانگریس اپنا ووٹ شیئر کم وبیش برقرار رکھنے میں کامیاب رہی بلکہ راجستھان میں تو اضافہ بھی ہوا مگر سیٹیں کم ہو گئیں کیوں کہ بی جےپی کو ملنے والے ووٹوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔
چھتیس گرھ جہاں بی جےپی کی مقامی قیادت میں الیکشن جیتنے کا حوصلہ بھی نظر نہیں آرہا تھا اور جو الیکشن سے پہلے ہی شکست خوردہ نظر آرہی تھی، وہاں بی جےپی کے ووٹ شیئر میں ۱۳؍ فیصد کا حیرت انگیز اضافہ ہوا۔ ۲۰۱۸ء میں ۳۳؍ فیصد ووٹ پانے والی بی جےپی نے ۴۶ء۲۷؍ فیصد ووٹ حاصل کر کے ۵۴؍ سیٹوں پر قبضہ کر لیا جبکہ کانگریس جس نے سابقہ الیکشن میں ۴۳؍فیصد ووٹ حاصل کئے تھے اس بار بھی ۴۲ء۱۹؍ فیصد ووٹوں کے حصول میں کامیاب رہی مگر سیٹوں کو برقرار نہ رکھ سکی اور گھٹ ۶۸؍ سے ۳۵؍ پر پہنچ گئی۔ یہی حال مدھیہ پردیش میں رہا جہاں عوام میں حکومت سے ناراضگی بہت صاف نظر آرہی تھی۔ یہ ناراضگی انتخابات کے اعلان سے بہت پہلے واضح ہوچکی تھی اور خود بی جےپی کی مرکزی قیادت بھی محسوس کر رہی تھی۔اس سے بچنے کیلئے اس نے وزیراعلیٰ کے چہرے کو ہی اپنی انتخابی مہم سے غائب کردیا مگر جونتائج آئے وہ حیران کن ہیں ۔ کانگریس نے اپنا ۴۰؍ فیصد کا ووٹ شیئر برقراررکھا مگر سیٹیں ۱۱۴؍ سے گھٹ کر ۶۶؍ ہو گئیں کیوں کہ بی جےپی کے ووٹ شیئر میں ۸؍ فیصد کا غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ ۱۳؍ یا ۸؍ فیصدکا اضافہ اتنا غیر معمولی ہے کہ اسے انتخابی مہم کے دوران ہی نظر آجانا چاہئے تھا مگر حیرت انگیز طور پر وہ نظر آیا نہ کانگریس اسے محسوس کرسکی۔ ذرائع ابلاغ بھی اس کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا طبقہ ان نتائج کو جوں کا توں صحیح تسلیم کرنےکیلئے تیار نہیں ہے۔ ایسے میں ای وی ایم پر سوال اٹھنا فطری ہے،جو اٹھ بھی رہا ہے۔ کمل ناتھ، دگ وجے ، اُدھو ، فاروق عبداللہ اور مایاوتی سمیت ناموں کی ایک طویل فہرست ہے جس نے ایم وی ایم پر شبہ ظاہر کیا ہےمگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بات جب سوال اٹھنے سےآگے نہیں بڑھ سکتی تو پھر سیاسی پارٹیوں کو اس سے آگے بڑھ کر سوچنا ہوگا۔ انتخابی مہم اور بی جےپی کی حکمت عملی پر نظر ڈالیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف جہاں بی جےپی ہاری ہوئی بازی بھی جیتنے کیلئے کھیل رہی تھی اور ایڑی چوٹی کا زور لگارہی تھی وہیں کانگریس جیت کی امید کے نشے میں اس قدر چور ہوگئی تھی کہ اس نے متوقع جیت کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کو بھی ضروری نہیں سمجھا۔ مثال کے طور بی جےپی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ساتھ لے کر اس بات کو لے کر اُن ووٹوں کو بھی اپنے حق میں یقینی بنالیتی ہے جو بصورت دیگر اسے قطعی نہیں مل سکتے تھے۔دوسری طرف کانگریس اس ’انڈیا‘ کا بھی فائدہ نہیں اٹھاسکی جو چند ماہ قبل ہی قائم ہوا تھا اورجس کی وجہ سے پورے ملک میں اپوزیشن اتحاد کیلئے خوشگوار اور حوصلہ افزاء ماحول پیدا ہوا تھا۔ کانگریس کی ریاستی اکائیوں کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی وجہ سے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کو نہ صرف بالائے طاق رکھ دیا گیا بلکہ اتحادیوں کے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کیاگیا اس نے اس اتحاد کیلئے بھی خطرہ پیدا کر دیا تھا۔ سماجوادی پارٹی جو مدھیہ پردیش میں محض ۶؍ سیٹیں مانگ رہی تھی، کو ساتھ میں لے کر کئی سیٹوں پر کانگریس اپنی فتح یقینی بناسکتی تھی۔ راہل اور کھرگے کی شکل میں کانگریس کی مرکزی قیادت اس کے حق میں بھی تھی مگر اسے ریاستی قیادت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔اسی طرح بھارت آدیواسی پارٹی کو ساتھ لے کر موجودہ نتائج میں بھی کئی سیٹوں پر شکست سے بچا جاسکتاتھا مگر مدھیہ پردیش ہو کہ راجستھان، کانگریس کی ریاستی لیڈر شپ نے جس غرور وتکبر کا مظاہرہ کیا اس نے سارے مثبت امکانات کو منفی کرکے رکھ دیا۔ حاشیے کے ووٹروں کو اپنے حق میں ہموار کرنے کیلئے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے ہاتھ ملانے کی جو حکمت عملی بی جےپی اختیار کرتی ہے وہ کانگریس بھی اپناسکتی تھی مگر وہ ریاستی اکائیوں کی ضد کے آگے مجبور ہوگئی اور اکثر ہوجاتی ہے۔
بی جےپی ’گارنٹی‘ کے عنوان سے کانگریس کے انتخابی وعدوں سے سیکھ کر ’’مودی کی گارنٹی‘‘ کی اصطلاح وضع کر لیتی ہے لیکن کانگریس اس سے یہ نہیں سیکھ پائی کہ اقتدار مخالف لہر کا مقابلہ کس طرح کیا جائے۔ بی جےپی نے حلقہ کی سطح پر اس کا مقابلہ کرنے کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے وہ اسی الیکشن میں نہیں بلکہ اس سے قبل کے کئی بار کامیاب ثابت ہوئی ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاستی سطح پر حکومت مخالف لہر سے زیادہ خطرناک اسمبلی حلقہ کی سطح پر رکن اسمبلی کے تعلق سے عوامی ناراضگی اپنا اثر دکھاتی ہے۔ بی جےپی نے اس سے نمٹنے کیلئے ٹکٹ کاٹنے اور امیدوار بدلنے کی حکمت عملی اختیار کی مگر مدھیہ پردیش اور راجستھان میں کانگریس کی ریاستی قیادت من مانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُس ایجنسی کے مشوروں کو بھی ٹھکرا دیا جس کی وضع کردہ حکمت عملی نے کرناٹک اور تلنگانہ میں پارٹی کی شاندار کارکردگی میں اہم رول ادا کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سروے میں جن امیدواروں کا جیتنا مشکل بتایا گیاتھا،ان کی امیدواری کو کمل ناتھ اور گہلوت نے محض اپنے تئیں وفاداری کی وجہ سے یقینی بنایا اوراس کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا اسے باعث شرمندگی بننا ہی تھا، سو بنا۔ اس لئے کانگریس جس سے مقابلہ کررہی ہے،اسے نہ صرف اس کے داؤ پیچ سمجھنے ہوں گےبلکہ اس کے وہ حربے جو کارآمد ہیں ہیں ،انہیں اپنانا بھی ہوگا، ان میں ریاستی لیڈر شپ پر کنٹرول سب سے اہم ہے۔