Inquilab Logo

عصر حاضر کی سیاسی فضا اور مولانا آزاد کی دور اندیشی

Updated: November 11, 2021, 9:57 AM IST | Professor Mushtaq Ahmed

عظیم مجاہد آزادی ، دانشور، مفکر اور آزاد ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزادؔ کے یوم ولادت پر خصوصی پیشکش

Abul Kalam Azad.Picture:INN
مولانا ابوالکلام آزادؔ ۔ تصویر: آئی این این

ملک کے وہ حالات جو آزادی کے بعد سے کم و بیش چھ دہائیوں تک منصہ شہود پر رہے اُن سے کوئی لاعلم نہیں ہے۔ موجودہ دہائی میں حالات کے تغیرات سے بھی ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس لئے، ان کی تفصیل میں جانا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ان تمام حالات کا تجزیہ کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے افکار ونظریات کی معنویت میں مزید اضافہ ہوگیاہے کہ مولانا آزاد نے ایک صدی پہلے ہی اس ملک کے مسلمانوں کو ہوشیار کیا تھا اور اس ملک کے مستقبل کا نقشہ ان کے سامنے پیش کیا تھاکہ کس طرح اس ملک کی سیاسی فضا مکدر ہوگی اور اس آزمائشی دور میں اقلیتی طبقے کو کس طرح آزمائشی ماحول میں اپنے جینے کے لئے راہ تلاش کرنی ہوگی۔  ہم سب اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ مولانا آزاد پیدائشی ذہین اور بلا کی قدرت و صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ہر پہلو نہ صرف روشن تھا بلکہ ماضی کی تاریخ اور مستقبل کا آئینہ تھا۔ ان کی سیاسی بصیرت وبصارت کا محور ومرکز ان کی دوربینی تھی اور ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو اسلامی تعلیمات بالخصوص صبر وتحمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طرف انگریزوں کے خلاف آزادی کے لئے جد وجہد کر رہے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کے اندر اسلامی اوصافِ جمیلہ کا جوش بھر رہے تھے۔ اپنی تحریر وتقریر سے ملک کے مسلمانوں کو ملک کی بدلتی سیاسی فضا سے با خبر کر رہے تھے اور اپنی دور اندیشی کے سبب جو کچھ بھی دیکھ رہے تھے، وہ ہر خاص و عام کو دکھانے کی کوشش کررہے تھے کہ مستقبل میں اس ملک کے مسلمانوں کا مقدر کیا ہوگا۔ وہ ایک طرف غلامی سے نجات پانے کے لئے قومی یکجہتی کے سپہ سالاروں میں شامل تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کے اندرکس طرح اتحاد مستحکم ہو اس کے لئے فکر مند تھے۔ وہ ایک طرف سیاسی اور مذہبی جلسوں میں اس کی وکالت کرتے تھے کہ ہمیں غلامی سے نجات پانا ہے اور اس کے لئے برادران وطن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا چاہئے کہ یکجہتی کے بغیر ہمارا خواب پورا نہیں ہوگا، تو دوسری طرف مسلمانوں کو یہ مشورہ بھی دیتے تھے کہ اس ملک میں ہماری ابدی شناخت کے لئے لازم ہے کہ ہم اسلامی شعار کو اپنائیں اور پیغامِ اخوت ومحبت کو عام کریں ۔ آل انڈیا خلافت کانفرنس کانپور ۱۹؍دسمبر ۱۹۲۵ء کے خطبہ میں انہوں نے جو اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ آج نگاہوں کے سامنے ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے اور ان کی دوراندیشی پر قربان جائیے :
’’یقیناً ملک کی موجودہ صورتحال محبِ وطن کے لئے انتہائی غمگینی کا سامان ہے لیکن میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر اپنی حیرت ظاہر کروں گا کہ مایوسی انقلابِ عقائد کا سامان کیوں ہو ؟ کیا ہم نے ملک اور قوم کی نجات وترقی کی راہ میں قدم نہیں اٹھایا ہے؟ کیا کروڑوں انسان کے ذہن و عمل کے انقلاب کا عظیم وگراں بار کام ہمیں درپیش نہیں؟ کیا مذہب، تاریخ، زبان، رسم ورواج، تہذیب اور معاشرت کے گہرے اختلافات اور جہل و غفلت کی بیشمار خرابیاں ہماری راہ میں حائل نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مرض صدیوں سے موجود ہے اور علاج کی عمر چندبرسوں سے زائد نہیں۔ یہ چند برس بھی قومی زندگی کے لئے زیادہ سے زیادہ چند ایام ہیں۔ اگر ان صاف اور سادہ سوالات کا جواب اس بات میں ہے تو ضروری ہے کہ ہمارے سامنے اعتقاد، یقین اور علم کی روشنی موجود ہو۔ ہم نے ایک بے خبراور نا آشنا آدمی کی طرف قدم نہ اٹھایا ہو جسے راہ کی ہر مشکل متحیر کردیتی ہے اور ہر رکاوٹ پر وہ ہمت ہار کر بیٹھ رہتا ہے۔ حالات کی تبدیلی، کوششوں کی ناکامی، مشکلوں اور رکاوٹوں کی کثرت ہے تو ہماری کوششوں کی صورت اور مقدار میں تبدیلی ہونی چاہئے۔‘‘ (خطباتِ آزاد۔ص:۱۶۔۱۷، ساہتیہ اکادمی ۱۹۷۴ء) مندرجہ بالا عبارت پر سنجیدگی سے غور فرمائیے اور عصر ِ حاضر کے حالات کو نگاہوں میں رکھئے اورپھر ان سطور کی زیریں لہروں تک پہنچنے کی کوشش کیجئے توآپ خو د بخود اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ ہماری ذلت کی جڑیں کن عادات و رجحانات میں پیوست ہیں۔ اسی طرح اجلاس جمعیۃ العلماء ہند، لاہور ۱۸ ۔۲۱ نومبر ۱۹۲۱ء کے خطبہ کا یہ اقتباس دیکھئے نیز ایک صدی پہلے اور آج کے حالات کا محاسبہ کیجئے:’’ ’اس وقت بہت بڑی آزمائش ہمارے طریق عمل کے لئے درپیش ہے ۔ ہم نے مدتوں کی غفلت کے بعد قومی اور اجتماعی اعمال کی کشمکش اور کشاکش میں قدم رکھا ہے اس لئے سب سے پہلے ہماری نظر آج کل کے مجلسی واجتماعی کاموں کے طریق واسلوب پر پڑتی ہے اور تقلید ومحاکات کا جذبہ ہمیں بے اختیار ان کی جانب کھینچنے لگتا ہے لیکن میں آپ کو یاد دلائوں گا کہ آپ کی راہ ان راہوں سے بالکل الگ ہے او رکتاب اللہ کی ہدایت اور حکمتِ نبو ت کی سنت نے آپ کو دنیا اور دنیا والوں کے تمام گڑھے ہوئے قاعدوں سے مستغنی کردیا ہے۔ آپ اس لئے نہیں ہیں کہ انسانوں کے بنائے ہوئے طریقوں کی تقلید کریں بلکہ آپ کو علم وشریعت اس لئے دیا گیاہے تاکہ دنیا کی آنکھیں آپ کی طرف امید وطلب سے اٹھیں اور آپ کی ہدایت ان کے لئے اتباع وتقلید کا پیام ہو ۔ آپ کے پاس اللہ کی کتاب ہے اور اس کے رسول کی سنت ہے ۔ ان دو چیزوں سے بڑھ کر اور کون سا مبدۂ علم سرچشمہ ٔ  حکمت ہو سکتاہے جو انسانی اعمال کے تمام اصول وفروع کیلئے دنیا میں وجود رکھتا ہو ۔دنیا میں علم ویقین صرف وحی ٔ الٰہی اور علومِ اعمالِ نبوت ہیں ۔‘‘ ( خطبات۔ص: ۹۲)
 مذکورہ عبارت کی روشنی میں ہم سب اپنے دامن میں جھانکیں تو حقیقت خو د بخود عیاں ہو جائے گی کہ ہماری پستی اور بد حالی کے وجوہ کیا ہیں اور اگر ہم زمانے میں ذلیل وخوار ہو رہے ہیں تو کیوں کر ہو رہے ہیں۔ اگر ہم نے مولانا ابوالکلام آزاد جیسے مدبر رہنما اور دانشور کی فکر کو حرز جاں بنایا ہوتا اور کتاب اللہ اور سنتِ نبویؐ کے چراغِ اسباق سے اپنی زندگی کو روشن کیا ہوتا تو شاید آج ہمارے سامنے جو مہیب اندھیرا ہے وہ نہیں ہوتا اور ہماری منزل ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ رہتی۔ یہ عبارت بھی مولانا آزاد کی دور بینی اور دوراندیشی کی دلیل ہے جو انہوں نے مجلسِ خلافت آگرہ ۲۵؍ اگست ۱۹۲۵ء کو بطور صدر اپنے خطبے میں پیش کیا تھا :
’’میںآپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ سچائی کی زبان ایک تو وہ ہے جس کا تعلق ہماری آپ کی خدا کی دی ہوئی گویائی سے ہے جو زبان سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ آواز جو حلق سے نکلتی ہے تو ایک گویائی تو وہ ہے جو زبان سے تعلق رکھتی ہے جس کے لئے زبان کو گویائی اور تکلم کی ضرورت ہے لیکن اس دنیا میں ایک دوسری خاموش بلاغت اور گویائی بھی ہے اور وہ گویائی جس کے لئے کانوں کی ضرورت نہیں ہے کہ کان سنیں بلکہ اس گویائی کو آنکھوں کی ضرورت ہے تاکہ دو آنکھیں اس کا مطالعہ کریں۔ ‘‘ (خطباتِ آزاد۔ص:۴۱)
 اس عبارت میں مولانا  نے مسلمانوںکوجو پیغامِ ابدی دیا ہے وہ یہ ہے کہ حالات کتنے ہی دگر گوں ہوں، فضا کتنی ہی مکدر ہو مگر ہماری زبان جذباتی نعروں کی ترجمان نہ بنے اور اشتعال انگیزی کا جواب اشتعال انگیزی نہ ہو بلکہ ہماراصبروتحمل مثالی ہو اور ہم تغیرِ زمانہ پرغوروفکر کریں اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کریں جو ہماری آسودگی کا سامان پیدا کرے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی قوت عطا کرے۔ افسوس کہ ہم نے مولانا ابوالکلام آزاد جیسے دور اندیش، دانشور ومدبر کی تحریر وتقریر کو نصابی کتابوں تک محدود رکھا اور ایک ایسے نسخۂ کیمیا سے محروم رہے جو ہندوستان جیسے عظیم ملک میں اقلیتی طبقے کے لئے نسخۂ جاں فزا ثابت ہو سکتا تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ ملک کی روز بروز بدلتی سیاسی فضا میں ہمارا جو بھی قدم اٹھے وہ جذباتی نہ ہو بلکہ مولانا ابوالکلام آزاد کی تلقین ہماری عملی زندگی کا حصہ بن جائے۔ 
(مضمون نگار، للت نرائن متھلا یونیورسٹی، دربھنگہ، بہار کے رجسٹرار ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK