مرکزی وزیر رام داس اٹھاؤلے کا ایک ویڈیو گزشتہ ماہ کافی دیکھا گیا جس میں اُنہوں نے بار بار ’’گو کورونا گو، کورونا گو‘‘ کا نعرہ کچھ اس طرح لگایا جیسے کوئی نظم پڑھ رہے ہوں۔ جب اُن سے اس بابت پوچھا گیا تو اُن کا جواب تھا: ’’میں کم کورونا کم، کورونا کم‘‘ تو نہیں کہہ سکتا، اُسے اپنے ملک میں آنے یا رہنے کی صلاح تو نہیں دے سکتا، اس لئے گو کہہ رہا ہوں تاکہ کورونا دفع ہوجائے۔
بغداد ، کورونا وائرس ۔ تصویر : پی ٹی آئی
مرکزی وزیر رام داس اٹھاؤلے کا ایک ویڈیو گزشتہ ماہ کافی دیکھا گیا جس میں اُنہوں نے بار بار ’’گو کورونا گو، کورونا گو‘‘ کا نعرہ کچھ اس طرح لگایا جیسے کوئی نظم پڑھ رہے ہوں۔ جب اُن سے اس بابت پوچھا گیا تو اُن کا جواب تھا: ’’میں کم کورونا کم، کورونا کم‘‘ تو نہیں کہہ سکتا، اُسے اپنے ملک میں آنے یا رہنے کی صلاح تو نہیں دے سکتا، اس لئے گو کہہ رہا ہوں تاکہ کورونا دفع ہوجائے۔
کورونا کے خوف کے درمیان ایسی چند باتیں عوام کو چند ہلکے پھلکے لمحات سے دوچار کررہی ہیں۔ ایک ملتی جلتی خبر قاہرہ سے موصول ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مصر کا ایک چاکلیٹ کورونا کافی مشہور ہے اور اِن دنوں اس کی شہرت روز افزوں ہے۔ اس کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ جب سے کورونا وائرس کا خوف پھیلا ہے تب سے اُن کے چاکلیٹ کی مانگ اور سیل بڑھ گیا ہے۔ خبر کے مطابق ایک سیلس مین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس ہمارے چاکلیٹ کیلئے سودمند ثابت ہوا، اتنی اچھی ایڈورٹائزنگ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
فلسطین سے موصولہ خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جو کشیدگی برسوں سے جاری ہے اور وقت کے ساتھ جس میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے، وہ ان دنوں کافی کم ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی افسران نے اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی کنارہ اور غزہ کے افسران کے ساتھ مل کر کورونا کے خلاف اقدامات عمل میں لائیں گے۔ یروشلم پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق اسرائیل کی وزارت دفاع نے مغربی کنارہ اور غزہ کے شہریوں کیلئے عربی زبان میں ایک اعلامیہ ترجمہ کرواکے تقسیم کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کیلئے کیا کیا اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
کورونا سے پیدا شدہ خوف کے ماحول میں ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ کئی تحقیقی ادارے مثلاً بوسٹن کا ادارہ ’’ماڈرنا ‘‘ کورونا سے حفاظت کا ٹیکہ تیار کرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ روزنامہ ’’گارجین ‘‘ میں شائع شدہ اس اطلاع کے مطابق مذکورہ ادارہ اپریل سے اپنے تیار کردہ ٹیکے کا انسانوں پر تجربہ کرسکے گا۔ تحقیقی اداروں کو چین کی سابقہ تحقیق سے کافی ملی ہے جو اس کے سائنسدانوں نے ’سارس‘ کے حملے کے بعد کی تھی۔ کورونا کا تعلق ’سارس‘ ہی کے خاندان سے بتایا جاتا ہے۔
جے پور سے ملنے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ جن تین مریضوں کی کورونا سے متاثر ہونے کی توثیق ہوئی تھی اُن تینوں کا شافی علاج کیا جاچکا ہے۔ ان میں ایک اطالوی جوڑا تھا جبکہ تیسرا شخص دبئی سے لَوٹا تھا۔ یہ مریض معمر ہیں اور اب ان کے معائنوں سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ان پر کورونا کا اثر نہیں ہے۔
نیوزی لینڈ کے تیز گیند باز لاکی فرگیوسن کے اس بیان میں بے باکی ہے کہ کورونا کے سلسلے میں کچھ مبالغہ سے کام لیا جارہا ہے۔ سڈنی کرکٹ گراؤنڈ پر آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے پہلے ون ڈے کے بعد اُنہوں نے گلے میں ہلکی سی خراش کی شکایت کی تھی مگر اسے کورونا سے جوڑ کر اُنہیں ہوٹل کے علاحدہ گوشے میں رکھا گیا اور کورونا کے نقطۂ نظر سے معائنہ کیا گیا جو اگر ضروری تھا تو شاید نہیں بھی تھا۔
مذکورہ بالا سطور میں چند خبروں کا خلاصہ اس لئے پیش کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو سمجھا جاسکے کہ کورونا وائرس اچھی خبروں کے خیرمقدم اور حالات کو حقائق کے آئینہ میں دیکھنے کی انسانی فطرت پر بالکل ہی حاوی نہ ہوجائے۔ ان دنوں چاروں طرف خوف اور تشویش ہی کے نقشے ہیں اور آپسی گفتگو کا بڑا حصہ نیز زیادہ تر خبریں کورونا ہی کے متعلق ہیں۔ اس موذی وائرس کا خوف کوئی معنی نہیں رکھتا، اگر کوئی چیز معنی رکھتی ہے تو وہ احتیاطی تدابیر ہیں۔ زندگی کے رواں دواں ہونے اور اس کیلئے معمول کے شب و روز گزارنے کی کوشش نہ کی گئی تو جو لوگ بیمار نہیں ہیں خدانخواستہ وہ بھی خود کو بیمار محسوس کرنے لگیں گے جو صحتمند سماج کیلئے باعث زحمت ہوگا !