• Fri, 28 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

بیٹی: اس ’رحمت‘ کی قدر کریں، نہ کہ سودا!

Updated: February 28, 2025, 3:29 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

آپؐ نے زمانۂ جاہلیت کی اس قبیح روایت کا خاتمہ کیا جس میں بیٹیوں کو کمتر سمجھا جاتا تھا اور انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

Islam has given daughters a high position of honor and dignity. Photo: INN.
اسلام نے بیٹیوں کو عزت و عظمت کا اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

زمانۂ جاہلیت میں بیٹی کو زندہ درگور کر دینا سنگدلی اور شقاوتِ قلبی کی بدترین مثال تھی۔ یہ وہ تاریک دور تھا جب رحمت کی صورت میں آنے والی بیٹی کو ظلم و جبر کی مٹی تلے دفن کر دیا جاتا تھا۔ انسانی معاشرے کی یہ پست ترین روش اس حقیقت کی غماز تھی کہ جب دلوں سے شفقت رخصت ہو جائے اور ذہنوں پر جہالت کے سائے چھا جائیں تو انسانیت دم توڑنے لگتی ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ بظاہر آج ہم ایک ترقی یافتہ اور مہذب دور میں جی رہے ہیں، مگر آج بھی مختلف شکلوں میں بیٹیوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ جاری ہے۔ کہیں بیٹی کی پیدائش پر چہرے اُتر جاتے ہیں، تو کہیں اسے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ کہیں وراثت میں اس کا حصہ دبا لیا جاتا ہے، تو کہیں اسے کم تر سمجھ کر اس کے خوابوں اور صلاحیتوں کو کچل دیا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض جگہوں پر جدید دور کی ایجادات (الٹرا ساؤنڈ وغیرہ) کے ذریعےبیٹیوں کو زندگی کے حق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ زمانہ تو بدلا، مگر ذہنیت میں جاہلیت آج بھی باقی ہے۔ 
رواں ہفتے ایک ایسا دل دہلا دینے والا واقعہ دیکھنے کو ملا، جس نے انسانیت کو شرمندہ کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ راقم الحروف ایک قریبی رشتہ دار کی عیادت کے لئے اسپتال گیا تو وہاں ایک عورت اور اس کی بہن کو زار و قطار روتے دیکھا۔ صورتِ حال جاننے پر معلوم ہوا کہ وہ عورت پہلے ہی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کی ماں تھی۔ مگر اس بار اس کا شوہر کسی بے اولاد عورت سے یہ طے کر چکا تھا کہ اگر اس مرتبہ بھی بیٹی پیدا ہوئی تو وہ اسے اس بے اولاد عورت کے ہاتھوں فروخت کر دے گا۔ ہوا یہ کہ اس کے ہاں پھر بیٹی پیدا ہوئی اور ظالم باپ نے اپنی ہی معصوم بچی کو محض بیس ہزار روپے میں فروخت کر دیا۔ 
یہ سن کر دل کانپ اٹھا کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایسی سفاکی اور بے حسی موجود ہے۔ کیا یہ وہی معاشرہ ہے جہاں بیٹی کو رحمت کہا گیا؟ کیا یہ وہی انسان ہیں جو خود کو مہذب اور باشعور کہتے ہیں ؟ بیٹی کو بوجھ سمجھ کر اس کا سودا کر دینا دورِ جاہلیت کے زندہ درگور کرنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ ایسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جاہلیت کے اندھیرے آج بھی ہمارے معاشرے میں باقی ہیں۔ 
قرآن مجید میں بیٹیوں کے ساتھ اسی ظالمانہ رویے کو کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی ( پیدا ہونے ) کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غمگین ہوجاتا ہے۔ ‘‘ (النحل:۵۸) یہ آیت اُس جاہلانہ سوچ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو بیٹی کی پیدائش کو باعثِ ندامت اور شرمندگی سمجھتی تھی یا اب سمجھتی ہے۔ 
یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس کی بناء پر معلم انسانیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کو بطور خاص عزت و عظمت کا اعلیٰ مقام عطا فرمایا اور ان کی پرورش، محبت، اور حقوق کی پاسداری کو جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ آپؐ نے زمانۂ جاہلیت کی اس قبیح روایت کا خاتمہ کیا جس میں بیٹیوں کو کمتر سمجھا جاتا تھا اور انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ آپؐ نے نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے بھی بیٹیوں کی عزت و تکریم کو واضح کیا، فرمایا:’’جس شخص کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں، یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں، اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حقوق ادا کرے، تو اللہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ ‘‘ (ترمذی) اسی طرح ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے بیٹیوں کی پرورش کی، ان کے ساتھ حسن سلوک کیا، اور ان کے بالغ ہونے تک ان کی کفالت کی، وہ شخص قیامت کے دن میرے ساتھ اس طرح ہوگا‘‘ پھر آپؐ نے اپنی انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر دکھایا۔ (صحیح) 
یہ احادیث اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بیٹیاں بوجھ نہیں بلکہ سعادت اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہیں۔ زیر بحث مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ بیٹیوں سے محبت اور حسنِ سلوک کا صلہ ہمیں دنیا و آخرت میں ملے، تو ہمیں اپنی سوچ اور رویے میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی۔ بیٹی کو بوجھ سمجھنے کی فرسودہ سوچ کو ترک کر کے اسے عزت و وقار دینا ہوگا، اس کی تعلیم، تربیت اور حقوق کی ادائیگی کو اپنی ذمہ داری سمجھنا ہوگا۔ اس طرح جب ہم اپنی بیٹیوں کو سماج میں اعلیٰ مقام دیں گے، ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے مواقع فراہم کریں گے اور ان کے ساتھ انصاف کریں گے، تبھی ہم حقیقی معنوں میں ایک مہذب اور کامیاب معاشرہ تشکیل دے سکیں گے، جہاں اللہ کی رحمت بھی ہم پر سایہ فگن ہوگی اور آخرت میں بھی اس کا عظیم اجر نصیب ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK