Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

دہلی فساد: وہ داستان ِ ظلم جس میں انصاف بھی ناانصافی ہے

Updated: March 02, 2025, 3:22 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

۲۴؍ فروری ۲۰۲۰ء کو دہلی میں  پھوٹ پڑنے والے فسادات، فساد کم شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف آواز بلند کرنے کی سزا زیادہ تھے۔ مسلمان ہی اس کی زد پررہے اور ان ہی پر قانون کا شکنجہ بھی کسا۔ یہ خوش آئند ہےکہ غلط طریقے سے ماخوذ کئے گئے افراد بری ہورہے ہیں  مگر انہیں  یہ انصاف بھی ناکردہ گناہوں  کی سزا کے بعد ملا ہے۔

Like every communal riot, in the Delhi riots too, the Muslims were the ones who suffered and the Muslims were the ones who were punished. Photo: INN.
ہر فرقہ وارانہ فساد کی طرح دہلی فساد میں بھی، نقصان مسلمانوں کا ہوا اور سزا بھی مسلمانوں کو ہی دی گئی۔ تصویر: آئی این این۔

ہندوستان میں  فساد کے بعد انصاف ملنے کا ریکارڈ کوئی ایسا اچھا نہیں کہ دہلی کے فساد کے بعد مظلوموں کو انصاف نہ ملنے پر واویلا مچایا جائے۔ عدالتی نظام کی تمام تر فعالیت کے باوجودملک میں  کوئی ایک فسادبھی ایسا نہیں ہےجس کی مثال پیش کی جاسکے کہ اس میں  مکمل انصاف ہوا اور خاطیوں  کو قرار واقعی سزا ملی۔ ہندوستان میں   فسادکے بعد کی یہی تلخ حقیقت ہے مگر دہلی فسادات کا معاملہ اور بھی زیادہ سنگین ہے۔ یہ فساد کم اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مسلمانوں  کے احتجاج کی سزا زیادہ معلوم ہوتے ہیں۔ 
جن نوجوانوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کی کمان سنبھالی، وہ گزشتہ ۵؍ برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ جنہوں  نے ’’گولی مارو‘‘ کے نعرے بلند کئے اور فساد پھوٹ پڑنے سے قبل سرعام ڈی سی پی کی موجودگی میں  پولیس کی بھی نہ سننے کی دھمکی دی، وہ اقتدار کے ایوانوں  کا حصہ بن چکے ہیں۔ جس پولیس نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کے دوران ’’چکہ جام‘‘کا نعرہ دینے کو ’’دہشت گردی‘‘سے تعبیر کرکے ’’وسیع تر سازش کیس‘‘ میں  شرجیل امام، عمرخالد، خالد سیفی، گلفشاں   فاطمہ، میراں  حیدر اور دیگر کو انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت گرفتار کرکے سلاخوں  کے پیچھے ڈال دیا وہی پولیس گزشتہ ۵؍ برسوں سے کپل مشرا اوران کے حامیوں  کی وکیل دفاع بنی ہوئی ہے ۔ 
جو پولیس ۵؍سال بعد وسیع ترسازش کیس میں   ۳۰؍ ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم چارج شیٹ تو داخل کرلیتی ہے مگر حقیقی ثبوت اکٹھا کرنے میں  ناکام رہتی ہے، وہی پولیس کپل مشرا کے خلاف دہلی میں  فساد بھڑکانے کا کیس درج کرانے کی تازہ کوشش کی مخالفت کرتے ہوئے کورٹ میں یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ’’انہیں (کپل مشراکو)  پھنسانے کی سازش رچی گئی تھی۔ ‘‘کپل مشرا کے خلاف ایف آئی آر کی تازہ کوشش جمنا وہار میں رہنےوالے محمد الیاس نے کی ہے۔ وہ چشم دید گواہ کی حیثیت سے ہائی کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں اور کورٹ کوبتایا ہے کہ ۲۳؍ فروری ۲۰۲۰ء کو انہوں  نے خود دیکھا ہے کہ مشرا نے ایک بھیڑ کی قیادت کرتے ہوئے کردم پوری میں  روڈ کو بلاک کیا اور وہاں  پھیری والوں  کی گاڑیوں  کو نشانہ بنایا۔ محمد الیاس نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کی بھی گواہی دی ہے کہ جس وقت کپل مشرا اوران کے ساتھ پہنچنے والی بھیڑ قانون اپنے ہاتھ میں  لے رہی تھی، اس وقت شمال مشرقی دہلی کے ڈی سی پی اور دیگر افسران خاموش تماشائی بنے وہیں موجود تھے۔ عدالت نے اس اپیل پر اپنافیصلہ محفوظ کرلیا ہے مگر دہلی پولیس نے جس طرح کورٹ میں  کپل مشرا کے وکیل صفائی کی ذمہ داری نبھائی ہے، اس کے بعد ۲۴؍ مارچ کو کیا فیصلہ آئےگا، اس تعلق سے بہت زیادہ قیاس آرائی کی ضرورت نہیں  رہ جاتی۔ ویسے بھی جو پولیس بے گناہی کی دہائی دے رہی ہے، اسی کواگر ایف آئی آردرج کرنے کا عدالت حکم بھی دے دے تو نتیجہ کیا برآمد ہوگا، وہ جگ ظاہر ہے۔ 
دہلی فساد کے ۵؍ سال کی تکمیل پر جو رپورٹیں   سامنے آئی ہیں وہ اس لحاظ سے حوصلہ افزا ہیں کہ جن بے قصوروں کو پولیس نے جھوٹے الزامات عائد کرکے فساد کا ملزم بنادیاتھا وہ بری ہورہے ہیں۔ یہ خوش آئند تو ہے مگر یہ کہنا کہ رہا ہونےوالوں  کو انصاف مل گیا، غلط ہوگا کیوں  کہ اس انصاف میں  بھی ناانصافی چھپی ہوئی ہے۔ اس کو صرف شاداب عالم اور سندیپ بھاٹی کے دو معاملوں سے ہی آسانی سے سمجھا جاسکتاہے۔ شاداب عالم جنہیں  ۸۰؍ دن جیل میں  رہنے کے بعد ضمانت پر رہائی ملی اور ۴؍ سال بعد مقدمے سے بری ہوئے، نے بی بی سی کی ایک تازہ دستاویزی رپورٹ میں   بتایا ہےکہ ۲۴؍ فروری کو جب مشرقی دہلی میں  تشدد پھوٹ پڑاتو وہ اُس میڈیکل اسٹور پر تھے جہاں  ملازمت کررہے تھے۔ حالات بگڑنے پر پولیس کی وین وہاں  پہنچی اوراس نے دکان بند کروادی۔ شاہ عالم کے مطابق ان تمام لوگوں   نے میڈیکل بند کرکے چھت پر پناہ لی۔ اسی دوران پولیس پھر لوٹ کرآئی، اس کےا ہلکار چھت پرچڑھے اور نام پوچھ کر شاداب سمیت کئی نوجوانوں  اپنے ساتھ گاڑی میں  بٹھا لیا۔ استفسار پر انہیں  بتایاگیا کہ ’’آپ نے فساد کیا ہے۔ ‘‘ ان پر ایک دکان کو جلادینے کا الزام عائد ہواتھا جو ایک مسلمان کی ہی تھی۔ پولیس نے چارج شیٹ داخل کی مگر وہ اتنی کمزور تھی اوراس میں  گھڑے گئے ثبوت اپنے فرضی ہونے کی گواہی کچھ اس طرح دے رہے تھے کہ عدالت نے مقدمہ کو قابل سماعت بھی نہیں سمجھا اور شاہ عالم سمیت تمام ۱۰؍ ملزمین کو ڈسچارج کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ۸؍ ماہ کی قیدو بند اور ۴؍ سال مقدمہ لڑنے پر آنے والے اخراجات کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اور کیا یہ جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود کسی سزا سے کم ہے۔ سندیپ بھاٹی کا معاملہ اس لئے دلچسپ ہے کہ انہوں  نے فساد کے دوران ایک مسلم نوجوان کو بچانے کی سزا پائی۔ انہیں  پولیس نے ایک ویڈیو کی بنیاد پر ملزم بنایاتھا جس میں  وہ بھیڑ کا حصہ معلوم ہو رہے ہیں۔ مذکورہ بھیڑ ایک مسلم نوجوان کی پٹائی کررہی تھی۔ بھاٹی کو مذکورہ نوجوان کے اقدام قتل کا ملزم بنایاگیا مگر عدالت میں  یہ عقدہ کھلا کہ پولیس نے جان بوجھ کر مذکورہ ویڈیو کے ایک حصے کو بطور ثبوت عدالت میں پیش کیا جبکہ پورے ویڈیو میں  وہ مذکورہ نوجوان کو مارنے والی بھیڑ سے بچانے کی کوشش کرتے ہوئے صاف نظر آرہے ہیں۔ کورٹ نے بھاٹی کو بری کرتے ہوئے دہلی پولیس کے کمشنر کو ذمہ دار افسران کے خلاف کارروائی کی ہدایت دی تھی مگر آج تک یہ نہیں  معلوم ہوسکا کہ مذکورہ افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ عدالتوں   میں  زیر التواء دہلی فساد کے تمام مقدمات پولیس کی اسی طرح کی حرکتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ 
 فساد کے فوراً بعد یہ شکایت کی گئی تھی کہ فساد کے دوران مسلمانوں کو نشانہ بنایاگیا اور ملزمین کی فہرست میں   بھی وہی سب سے زیادہ ہیں۔ یہ کتنا دلچسپ ہے کہ پولیس نے فرقہ وارانہ فساد کے دوران مسلمانوں کو ہی کسی مسلمان کی دکان جلانے کا ملزم بنادیا حالانکہ جس کی دکان جلائی گئی وہ کہہ رہا ہے کہ آگ لگانے والے ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے بلند کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک ۱۸۳؍ افراد بری اور ۷۵؍ مقدموں سے ڈسچارج ہو چکے ہیں۔ صرف ۴۷؍ ملزمین کو سزا سنائی گئی ہے۔ دہلی پولیس عدالتوں  میں  بری طرح برہنہ ہوچکی ہے۔ ججوں  کے تبصرے، اس پر کم از کم ۲؍ معاملات میں   ۲۵؍ ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جانا، اس کے پیشہ ور ہونے کے دعوؤں  کی حقیقت کو طشت از بام کردیتاہے۔ 
جس طرح فساد میں  ملوث ہونے کے الزام میں   جھوٹ کی بنیاد پر ماخوذ کئے گئے افرادبری ہورہے ہیں، یقیناً اسی طرح ’’وسیع تر سازش‘‘ کے مقدمے کے ملزمین بھی آج نہیں تو کل بری ہوں گے۔ شرجیل امام، عمر خالد، خالد سیفی، گلفشاں  فاطمہ اورمیراں  حیدر سمیت گرفتار ہونے والے ۱۸؍ نوجوانوں  میں  سے ۱۲؍ افراد جو اَب بھی سلاخوں   کے پیچھے ہیں، دیگر تمام مقدمات میں انہیں   ضمانت مل چکی ہے، وسیع تر سازش کیس میں  انہیں   ضمانت نہیں  مل پارہی کیوں  کہ یو اے پی اے میں  ضمانت کو بہت مشکل بنادیاگیاہے۔ تاہم یو اے پی اے کے مقدمات میں  حالیہ دنوں  میں  جس طرح کے فیصلے آئے ہیں اور عدالتوں کے جس طرح کے مشاہدات سامنے آئے ہیں، انہوں  نے اس بات کی امید بڑھائی ہے کہ دہلی فساد کے وسیع تر سازش کیس میں  ماخوذ کئے گئے ان نوجوانوں  کیلئے بھی نیاسورج ضرور طلوع ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK