ایک جیسی خبروں سے پڑھنے والے اُکتا جاتے ہیں مگر بعض خبریں آئے دن منظر عام پر آنے کے باوجود اُکتاہٹ کا سبب نہیں بنتیں بلکہ دلچسپی بڑھاتی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 10, 2022, 1:59 PM IST | Mumbai
ایک جیسی خبروں سے پڑھنے والے اُکتا جاتے ہیں مگر بعض خبریں آئے دن منظر عام پر آنے کے باوجود اُکتاہٹ کا سبب نہیں بنتیں بلکہ دلچسپی بڑھاتی ہیں۔
ایک جیسی خبروں سے پڑھنے والے اُکتا جاتے ہیں مگر بعض خبریں آئے دن منظر عام پر آنے کے باوجود اُکتاہٹ کا سبب نہیں بنتیں بلکہ دلچسپی بڑھاتی ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کا گھٹنا ایسی ہی خبر ہے۔روپے کی یہ حالت کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ کیفیت ۲۰۱۴ء سے جاری ہے۔ ۲۰۱۸ء سے یہ زوال مستقل ہوگیا ہے۔ جنوری ۲۰۱۸ء میں ایک ڈالر ۶۳ء۵؍ ؍ روپے کے برابر تھا۔ تازہ شرح آپ کے سامنے ہے۔ گزشتہ روز ایک ڈالر ۸۱ء۳۹؍ روپے کے برابر تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ زوال کا یہ رجحان فی الحال جاری رہے گا اور کچھ عجب نہیں کہ ایک ڈالر ۸۵؍ روپے کے مساوی یا اس سے بھی زیادہ ہوجائے۔ اس پس منظر میں، چند روز پہلے کا مرکزی وزیر مالیات کا یہ بیان زخم پر نمک چھڑکنے جیسا ہے کہ ’’روپیہ کمزور نہیں ہوا، ڈالر طاقتور ہوگیا ہے۔‘‘ اگر اس تشریح کو قبول کرلیا جائے تو حکمراں جماعت پر اس سوال کا جواب دینا لازمی ہوجاتا ہے کہ ۲۰۱۳ء میں جب روپے کی قدر گھٹ کر ۶۴؍ روپے فی ڈالر ہوگئی تھی تب اس نے یہ کیوں کہا تھا کہ ’’یوپی اے حکومت کو نہ تو معیشت کی فکر ہے نہ گھٹتے روپے کی، اسے فکر ہے تو صرف کرسی بچانے کی۔‘‘ قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ بات کسی اور نے نہیں، وزیر اعظم مودی نے کہی تھی جو اُس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اب یہ تنقید حکمراں جماعت کا منہ تک رہی ہے جب روپے کی حالت دگرگوں ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ ڈالر اور روپے کے درمیان رسہ کشی اور اس کے نتیجے میں روپے کی خستہ حالی سے صرف درآمدات اور برآمدات کا کاروبار ہی متاثر نہیں ہوتا، اندرون ملک معاشی حالات بھی ابتر ہوتے ہیں جو عوام کے صبر کا امتحان لیتے ہیں۔ اس سے افراط زر بڑھتا ہے اور عام آدمی کا سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ جے این یو میں سینٹر فار اکنامک اسٹڈیز سے وابستہ ماہر معاشیات پرشانت پٹنائک نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ (مفہوم) ’’پوری دُنیا میں شرح سود کے اضافے کی وجہ سے تیسری دُنیا کے وہ تمام ممالک، جن پر قرضوں کا بھاری بوجھ ہے، نت نئی پریشانیوں کا سامنا کرینگے۔ اِن ملکوں میں بھی سب سے زیادہ متاثر مزدوری پیشہ اور ملازمت پیشہ لوگ ہوں گے جن کا معیارِ زندگی بدقسمتی سے وہ سٹہ باز طے کرتے ہیں جن کا مفاد ڈالر کے گراں تر ہونے میں ہے۔ اس سے سرمایہ داری کی نہاد میں پائی جانے والی شیطنت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔‘‘
ہندوستانی ریزرو بینک اپنی سی کوشش کررہا ہے کہ روپے کو مستحکم کرے مگر دیگر اسباب کے علاوہ بالخصوص اس وجہ سے کہ ہندوستانی مارکیٹ سے بیرونی سرمایہ کار تیزی سے سرمایہ نکال رہے ہیں اور ایکسپورٹ پر اِمپورٹ حاوی ہے ، روپیہ سنبھل نہیں رہا ہے۔ ایسے میں حکومت کو روایتی اقدامات کے علاوہ چند ایسے اقدامات کا سہارا لینا چاہئے جنہیں غیر روایتی یا آؤٹ آف باکس کہا جاتا ہے۔حکومت ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دے، امپورٹ کی حوصلہ شکنی کرے اور ۱۹۸۵ء کے پلازہ معاہدہ جیسی کوئی ترکیب آزمائے تو فائدہ ہوسکتا ہے جس کے ذریعہ فرانس، جرمنی، جاپان اور برطانیہ نے یہ طے کیا تھا کہ علی الترتیب فرینک، ڈچ مارک، ین اور پاؤنڈ اسٹرلنگ کو ڈالر کے مقابلے میں مضبوط کیا جائیگا۔ معاہدہ میں امریکہ شریک تھا جس نے کرنسی اور فارین ایکس چینج مارکیٹ میں دخل اندازی پر اتفاق کیا تھا۔ ماضی میں ایسا ہوچکا ہے اور اب بھی ہوسکتا ہے جس کیلئے غیر روایتی تدابیر کو بروئے کار لانا اور عوامی اعتماد بحال رکھنے کیلئے مہمل بیانات سے گریز کرنا ہوگا ۔