اگر کسی میں شوگر کی علامات پائی جائیں تو اسے پریشان ہونے کے بجائے فوری طورپر جانچ اوراحتیاط کے ساتھ علاج کی جانب توجہ دینی چاہئے۔
EPAPER
Updated: November 30, 2024, 4:37 PM IST | Dr. Muhammad Shabia Ahmad Siddiqui | Mumbai
اگر کسی میں شوگر کی علامات پائی جائیں تو اسے پریشان ہونے کے بجائے فوری طورپر جانچ اوراحتیاط کے ساتھ علاج کی جانب توجہ دینی چاہئے۔
ذیابیطس ایک ایسی بیماری ہے جو بہت تیزی کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے۔ عرف عام میں اسے ’شوگر‘ کہتے ہیں۔ پہلے اس بیماری کے شکار بڑی عمر کے لوگ ہوتے تھے لیکن اب بچے بھی اس کی زد میں آنے لگے ہیں۔ عام الفاظ میں کہیں تو یہ ایک ایسی حالت ہے جو کسی شخص کے خون میں اِنسولین کی کمی سے پیدا ہوتی ہے۔
مخصوص علامات:
بار بار پیشاب آنا،غیر معمولی طورپر پیاس کا احساس ہونا، وزن میں تیزی سے کمی آنا، تکان اورکمزوری کااحساس ہونا،زخموں کا دیر سے بھرنا اور دھندلا پن نظر آنا، یہ ذیابیطس کی کچھ عام علامات ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو پیر کے تلوے میں جلن ہوتا ہے، چیونٹیوں کے رینگنے جیسا احساس ہوتا ہے اور کرنٹ مارتا ہے۔ کچھ لوگوں کو پیروں میں درد کافی شدت کی ہوتی ہے، اس حد تک کہ وہ پیر تک پٹخنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذیابیطس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے دانت اپنے آپ گرنے لگتے ہیں۔
شبہ ہونے پرکیا کریں؟
مذکورہ علامات سے دو چار ہونے والوں کو فوری طورپر اپنی جانچ کروا لینی چاہئے۔اس کے علاوہ وہ لوگ بھی جو ۴۰؍ بہاریں دیکھ چکے ہیں، انہیں بھی ذیابیطس سے متعلق ایک روٹین ٹیسٹ کروالینی چاہئے۔ اگر کسی کے والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کو ذیابیطس کی شکایت ہے، تو اس کیلئے لازم ہے کہ وہ مذکورہ علامتوں کے بغیر بھی اپنی جانچ کروالیں۔ اسی طرح اگر کسی خاتون نے ساڑھے تین کلو سے زیادہ وزن کے بچے کو جنم دیا ہو تو اس کیلئے بھی شوگر کی جانچ ضروری ہے۔ وہ لوگ جن کا وزن اوسط سے زیادہ ہے یا بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی شکایت سے دوچار ہیں یا پھر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں، انہیں بھی چاہئے کہ سال میں ایک بار ذیابیطس کی جانچ کروالیں۔ خیال رہے کہ ذیابیطس سےجتنے بھی لوگ متاثر ہوتے ہیں، ان میں سے تقریباً ۵۰؍ فیصد مریضوں کو کسی طرح کی کوئی علامت دکھائی نہیں دیتی۔
احتیاطی تدابیر:
وہ لوگ جو ابھی تک ذیابیطس سے محفوظ ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ ان تمام حالات سے بچنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے اس بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا وزن زیادہ ہے تو وہ اپنا وزن کم کرنے کی کوشش کرے اور اگر کسی کا وزن ابھی بڑھنا شروع ہوا ہے تووہ اس پر قابو پانے کے جتن کرے کیونکہ جسم میں چربی کا اضافہ ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔اسی طرح ورزش کی کمی اور غیر صحت مند غذا بھی ذیابیطس کا سبب بن سکتی ہے،اسلئے اس تعلق سے بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ ’واکنگ‘ اور نوجوان لوگ ’جاگنگ‘ کی مدد لیں۔
ذیابیطس کے متاثرین کیا کریں؟:
ڈاکٹر سے مشورہ کریں اور اس کے مطابق دواؤں کا استعمال کریں ۔ اس کے علاوہ کھانے میں متوازن اور صحت بخش غذاجیسے سبزیاں، کم چکنائی والی پروٹین اور مکمل اناج کااستعمال کریں۔ میٹھی اشیاء، مشروبات اور زیادہ شکر والے کھانوں سے احتیاط برتیں۔ ہائی کیلوریز والی اشیاء سے پرہیز کریں اور اس طرح کی جو غذا کھارہے ہیں،اسے نصف کردیں۔ ورزش کو معمول بنائیں۔ واکنگ اور سائیکلنگ جیسی ورزش سے خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول میں رکھنے میں ملتی ہے۔ذیابیطس کے مریضوں کو باقاعدگی سے اپنی شکر کی سطح کو چیک کروانا چاہئے تاکہ وہ اپنے علاج کو بہتر طریقے سے انجام دے سکیں۔ذیابیطس سے متاثر ہونے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ زندگی کی ساری رونقیں ختم ہوگئیں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔
عمر کی کوئی حد نہیں:
کسی زمانے میں ایسا خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بیماری بڑی عمر کے لوگوں کو ہوتی ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق ذیابیطس کی بیماری دوطرح کی ہوتی ہے۔ اس میں’ ٹائپ وَن‘ اور ’ٹائپ ٹو‘۔ پہلی قسم میں ۷؍ سال سے ۱۲؍ سال کی عمر کے بچے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں جبکہ دوسری قسم میں عام طورپر ۴۰؍ سال کی عمر کے بعد کے لوگ آتے ہیں۔ان میں بھی وہ لوگ جن کے والدین میں سے کوئی ایک ذیابیطس کا مریض ہوتا ہے، وہ ۳۰؍ سال کی عمر میں بھی اس سے متاثر ہوسکتا ہے اور جن کے والدین میں سے دونوں ذیابیطس سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے ۲۰؍ سال کی عمر میں بھی اس کی زد میں آنے کا خدشہ رہتا ہے۔
مضمون نگار نے’ ایم بی بی ایس‘ کے ساتھ ہی ‘ڈی ڈی ‘ (ڈپلومہ اِن ڈائبیٹولوجی) کیا ہے۔ ذیابیطس کے شعبے میںمہارت رکھتے ہیں اور ایک سینئر ڈائبیٹولوجسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ممبرا میں واقع صدیقی نرسنگ ہوم کے ڈائریکٹر ہیں۔