• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تعزیراتی قوانین کو بدلنے کی ضرورت تھی کیا؟

Updated: December 24, 2023, 1:53 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

جو قوانین لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں منظور کئے جاچکے ہیں وہ ہیں تعزیرات ہند ، ضابطۂ فوجداری اور قانونِ شواہد۔ جلد ہی انہیں حتمی قانون کی حیثیت حاصل ہوجائیگی مگر کیا انہیں بدلنے کی ضرورت تھی؟کسی نے مطالبہ کیا تھا؟

Home Minister Amit Shah in the Lok Sabha. Photo: INN
وزیر داخلہ امیت شاہ لوک سبھا میں۔تصویر :آئی این این

انگریزی کی مشہور ضرب المثل ہے کہ ’’جو چیز ٹوٹی نہیں  اُسے جوڑنا بے معنی ہے۔‘‘ انگریزی لغت کے مطابق اس ضرب المثل کا سب سے پہلے استعمال سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے ایک افسر نے کیا تھا جو یہ کہنا چاہتا تھا کہ اگر کوئی چیز ٹھیک ٹھاک کام کررہی ہے یا کسی طریق کار سے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہوں  تو اس میں  چھیڑ چھاڑ نہیں  کرنی چاہئے۔یہ ضرب المثل اُس وقت یاد آئی جب ہم نے دیکھا کہ ۱۵۰؍ سا ل پرانے قانون ’’انڈین پِنل کوڈ‘‘ میں  ترمیم کی گئی جبکہ یہ قانون ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا، اس میں  کوئی مسئلہ نہیں  تھا۔ آئی پی سی صرف ہندوستان میں  نہیں  بلکہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ملکوں  میں  بھی موجود ہے اور کسی کو اس سے شکایت نہیں  ہے حتیٰ کہ پاکستان کو بھی نہیں  ہے جو خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دیتا ہے مگر اس کے بیشتر قوانین اب بھی تقریباً ویسے ہی ہیں  جیسے کہ برطانیہ کے زیر تسلط متحدہ ہندوستان میں  رائج تھے۔واضح رہنا چاہئے کہ پِنل کوڈ تھامس میکالے نے ۱۸۳۰ء کی دہائی میں  تحریر کیا تھا جسے ۱۸۶۲ء میں  نافذ کیا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ تعزیرات کا قانون (آئی پی سی) جو متحدہ ہندوستان میں  تھا، پاکستان بننے کے بعد وہاں  بھی جاری رہا۔ ۲۰۲۳ء میں  ہندوستان اور پاکستان کا پِنل کوڈ وہی ہے جو کہ پہلے تھا۔ دفعہ ۱۴۴؍ کے بارے میں  عام پاکستانی بھی جانتے ہیں  کہ یہ کب نافذ کی جاتی ہے۔ تھانیدار اور پولیس کانسٹیبل سے لے کر عام آدمی تک، ہر کوئی ان دفعات اور قوانین سے مانوس ہے جن سے مطلوبہ مقاصد حاصل کئے جارہے ہیں ۔ پاکستانیوں  کی طرح ہر ہندوستانی بھی جانتا ہے کہ دفعہ ۳۰۲؍ کا اطلاق قتل کی واردات پر ہوتا ہے اور ۴۲۰؍ کا اطلاق دھوکہ دہی کے معاملات پر۔یہ آئی پی سی کی وہ دفعات ہیں  جو برصغیر میں  آزادی کے بعد بھی جاری رہیں ۔ کیوں ؟
 اس لئے کہ یہ قانون اور اس کی دفعات کی اثر پزیری عام مشاہدہ کا حصہ ہے۔ اگر عدالتوں  میں  مقدمات کا انبار لگ گیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں  کہ متعلقہ قوانین میں  کوئی نقص ہے اور نئے قوانین سے وہ نقائص دور ہوجائینگے (بلکہ اس کے برخلاف ہوگا، جس کی تفصیل مضمون کے بقیہ حصے میں  آئے گی۔اگر مسئلہ یہ ہے کہ غلامی کے دور کے قوانین آزاد ہندوستان کیلئے موزوں  نہیں  ہیں  اور ہم قانون کی بہتر تشکیل چاہتے ہیں  تب بھی ’’سنہتا ‘‘ جو آئی پی سی کا نیا نام ہے، اس صورت حال کو تبدیل نہیں  کرسکے گا۔
 واضح رہے کہ ملک میں  تعزیراتی قوانین کو بدلنے کا کسی نے مطالبہ نہیں  کیا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ مَیں  قوانین میں  ضروری تبدیلی کا مخالف نہیں  ہوں ۔ وقت کے تقاضوں  کے پیش نظر بعض ترامیم ضروری ہوتی ہیں  جس سے انکار ممکن نہیں ۔ مشکل قوانین کے پوری طرح بدل دیئے جانے کی ہے بلکہ کسی چیز کی پرانی شکل کو مکمل طور پر ختم کرکے نیا بنانے کی ہے جس کے سبب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی ایسی چیز کو کیوں  بدلا جائے جس سے کسی کو کوئی دشواری نہیں  ہے، جو ٹھیک ٹھیک طریقے سے جاری و ساری ہے؟
 یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں  نہ تو بتایا گیا نہ ہی اُمیدکی جاسکتی ہے کہ آئندہ بتایا جائیگا۔ قوانین کے بدل جانے سے بالی ووڈ کے کہانی نویسوں  اور مکالمہ نگاروں  کو مکالمے تبدیل کرنے پڑیں  گے اور اسکرین ججوں  نیز پولیس اہلکاروں  کو نئے نمبر اپنے ذہنوں  پر نقش کرنے پڑیں  گے کہ پہلے تو یہ دفعہ تھی، اب کون سی ہے؟ مگر مسئلہ اتنا ہی نہیں ، اس سے زیادہ پریشان کن ہے۔ جہاں  تک میری رائے کا تعلق ہے، مجھے ایسا لگتا ہے کہ نئے قوانین کی وجہ سے عدالتوں  پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جائے گا۔ ماہر قانون سنجے ہیگڈے کا کہنا ہے کہ چیک باؤنس ہونے کو مجرمانہ عمل بنادینے سے کیا ہوا؟ عدالتوں  میں  مقدمات کی جھڑی لگ گئی۔ ایک اور ماہر قانون کولن گونسالوس دریافت کرتے ہیں  کہ پولیس کو اتنے اختیارات کیوں  دیئے جارہے ہیں  جتنے کہ غلامی کے دور میں  بھی پولیس کو حاصل نہیں  تھے؟ ماہر قانون اور کانگریس لیڈر ابھیشیک منو سنگھوی نے سوال کیا ہے کہ ’’لوَ جہاد‘‘ کے مفروضے کو ۱۰؍ سال کی سزا کے ساتھ جرم کے زمرہ میں  لانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ حکومت خود تسلیم کرچکی ہے کہ لوَ جہاد جیسی کوئی چیز پائی نہیں  جاتی؟ دیگر وکلاء کا کہنا ہے کہ غداری یا بغاوت (سڈیشن) کو نئے نام کے ساتھ پِنل کوڈ میں  شامل رکھا گیا ہے۔
 کسی ماسٹر اسٹروک کو سمجھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے ماسٹراسٹروک مان لیا جائے اور کوئی سوال نہ کیا جائے یا عقلی دلائل کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ 
 سابق فوجی سربراہ ایم ایم نراؤنے اپنی سوانح حیات لکھ چکے ہیں ۔ اگر اسے شائع کرنے کی اجازت مل گئی تو اس میں  اگنی ویر اسکیم کے بارے میں  کئی چشم کشا انکشافات ہیں  اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ اچانک فیصلے کا نتیجہ تھی۔ فوج کی جانب سے یہ تجویز ضرور آئی تھی کہ شارٹ سروس کمیشن جیسی کوئی چیز ہونی چاہئے مگر اس کی شکل بدل دی گئی اور فوج میں  ملازمت کیلئے منتخب کئے ہوئے لوگوں      میں  سے تین چوتھائی کو ملازمت میں  برقرار رکھنے کے مشورہ کے بجائے یہ فیصلہ کرلیا گیا کہ صرف ایک چوتھائی کو برقرار رکھا جائیگا، بقیہ کو ۲۲؍ سال کی عمر میں  ریٹائر کردیا جائیگا۔پھر اس منصوبے کو بحریہ اور فضائیہ سے بھی جوڑ دیا گیا۔ ان دونوں  شعبوں  نے نہ تو ایسی کسی ضرورت کو محسوس کیا تھا نہ ہی موجودہ سسٹم میں  اصلاح کی بات کی تھی!
 اگنی ویر کا جھٹکا اچانک لگا۔ اسے وزیر اعظم کی فہم و فراست کا نتیجہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اُن کے دور میں  کسی اور کی تو چلتی نہیں  ہے۔ اس اسکیم کی وجہ سے ایک ایسی فوج کی شکل ہی بدل گئی جو ۱۸؍ ویں  صدی سے نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دی رہی تھی۔ اس کی خدمات کا دائرہ کم و بیش ۲۰۰؍ سال پر محیط ہے۔اسی لئے میں  نے شروع میں  کہا کہ کسی ایسی چیز کو بدلنا دانشمندی نہیں  جو عرصہ دراز سے جاری و ساری ہو اور بہتر نتائج کی حامل ہو۔ ٹھیک ٹھیک طریقے سے چلنے والی چیز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جو مثالیں  اوپر پیش کی گئی ہیں  انہی میں  نوٹ بندی کو بھی جوڑیئے، آج تک سمجھ میں  نہیں  آیا کہ ۵۰۰؍ اور ہزار کے نوٹ کیوں  منسوخ کئے گئے۔ ہم اُمید ہی کرسکتے ہیں  کہ گزشتہ دس سال کی حکمرانی میں  سوچ بچار کے بعد فیصلے نہیں  کئے گئے تھے تو کم از کم اب سوچ سمجھ کر قانون بدلے گئے ہونگے۔ ہم تو نہیں  سمجھ پائے کہ کیوں  بدلے گئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK