Inquilab Logo

ڈجیٹل ٹرانزیکشن اور آف لائن لین دین؛ معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے دونوں طریقے اہم

Updated: November 20, 2021, 2:43 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

پے ٹی ایم، فون پے، گوگل پے اورپے پال جیسے کھلاڑیوں نے ہندوستانی معیشت میں نقدی کے بہاؤ کو کم کرنے کی زبردست کوشش کی، اور اس میں کامیاب بھی رہے لیکن ہندوستان ہمیشہ ہی سے ایک ایسا مارکیٹ رہا ہے جہاں نقدی کی بادشاہت رہی ہے۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

  فلپ کارٹ نامی اسٹارٹ اپ(جو اَب ایک مشہور آن لائن شاپنگ کمپنی میں تبدیل ہوگئی ہے) نے ۲۰۰۷ء میں ہندوستان میں اپنا کاروبار آن لائن شروع کیا تھا، اور اسی ادارے نے مختلف بینکوں کے ساتھ مل کر ملک میں آن لائن ٹرانزیکشن کا آغاز کیا تھا۔ آن لائن ٹرانزیکشن کا مطلب ہے ڈجیٹل موڈ سے رقم کی ادائیگی کرنا۔ اس لین دین میں نقدی کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ ادائیگی بینکوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس دور میں آن لائن پے منٹ کرنا آسان نہیں تھا۔ انٹرنیٹ تیزی سے مستحکم ہوتا جارہا تھا، اس کے ساتھ ہی آن لائن فراڈ کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی۔ اس لئے بیشتر افراد جب آن لائن شاپنگ کرتے تھے تو ’’آن لائن پے منٹ‘‘ کے بجائے’’کیش آن ڈیلیوری‘‘ کے آپشن پر کلک کرتے تھے لیکن ۲۰۱۶ء کے بعد سے ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے شعبے میں انقلاب آگیا۔ پے ٹی ایم، فون پے، گوگل پے اورپے پال جیسے کھلاڑیوں نے ہندوستانی معیشت میں نقدی کے بہاؤ کو کم کرنے کی زبردست کوشش کی، اور اس میں کامیاب بھی رہے لیکن ہندوستان ہمیشہ ہی سے ایک ایسا مارکیٹ رہا ہے جہاں نقدی کی بادشاہت رہی ہے۔ ۲۰۱۶ء کے بعد سے کئے گئے تمام سرویز میں بار بار یہی انکشاف ہوا کہ نقدی میں لین دین ہندوستانیوں کی اولین ترجیح ہے۔ ڈجیٹل پے منٹ کمپنیوں کی آمد سے قبل ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے نام پر ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کا استعمال کیا جاتا تھالیکن اب ان کا استعمال بھی کم ہوگیا ہے۔
 مارکیٹنگ کی ایک معروف کتاب ’’وِی آر لائیک دیٹ اونلی‘‘ (ہم ایسے ہی ہیں ) میں درج ہے کہ ’’ہندوستانی صارفین کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز اتنا مختلف ہے کہ کمپنیاں بازار میں قدم رکھنے سے پہلے تذبذب کا شکار رہتی ہیں ۔ وہ سرویز کرتی ہیں لیکن ان کا انہیں وہ نتیجہ نہیں ملتا جو وہ چاہتی ہیں ۔ ہندوستانی صارفین کے رویوں کو سمجھنا ہمیشہ ہی سے ایک مشکل کام رہا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی موڑ پر کمپنیوں کو فائدہ ضرور ہوتا ہے۔‘‘
 ڈجیٹل پےمنٹس کیلئے جب ہمارے ملک میں پے ٹی ایم جیسی کمپنیوں نے اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا تو انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ سود مند ہوگا یا نہیں ۔ ۲۰۱۰ء سے ۲۰۱۵ء کے درمیان مذکورہ بالا تمام کمپنیاں شروع ہوئی تھیں لیکن انہیں منافع نہیں ہورہا تھابلکہ ان کے نقصانات میں ہر کوارٹر (سہ ماہی) اضافہ ہی ہورہا تھا۔ در حقیقت، ان کمپنیوں کی جانب ہندوستانی صارفین نے اس وقت توجہ دی جب ان کے ہاتھ میں موجود ۵؍ سو اور ایک ہزار کے نوٹ بے مول ہوگئے۔ ۸؍نومبر ۲۰۱۶ء کو جب نوٹ بندی ہوئی، تبہی ہندوستان میں ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے بارے میں لوگوں کو معلوم ہوا۔ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ فی الحال یہی متبادل ہے۔ نوٹ بندی کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ آن لائن لین دین کو ترجیح دیں ۔ جب تک حالات بہتر نہیں ہوئےلوگوں نے آن لائن لین دین کیا بھی، لیکن جب معیشت میں نئے نوٹ گردش کرنے لگے تو شہری ایک مرتبہ پھر نقدی پر انحصار کرنے لگے۔ 
 حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق نوٹ بندی کے ۵؍ سال بعد بھی نقدی کے لین دین میں کمی نہیں ہوئی ہے۔ لوگ اب بھی نقدی کے ذریعے ہی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں ۔ دوسری جانب ڈجیٹل پے منٹس کا گراف بھی دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے البتہ نقدی کے مقابلے میں یہ اب بھی کم ہے۔ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ہی باتیں خوش آئند ہیں کیونکہ دونوں ہی ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا اپنا کردار بخوبی ادا کررہے ہیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادائیگی کے دونوں ہی ذرائع سے جب معیشت کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ہر ۱۵؍ دن بعد ایسی رپورٹیں کیوں شائع کی جاتی ہیں جن میں ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے صرف ڈجیٹل ٹرانزیکشن کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے؟ کیا ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے دور سے قبل معیشت سست روی کا شکار تھی؟ اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ نوٹ بندی سے قبل ملک کی جی ڈی پی میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا لیکن نوٹ بندی نے معیشت کی کمر توڑ دی۔ تاہم، اسے کسی حد تک سہارا ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے سبب ہی ملا ۔
  وزارت برائے الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ء میں ہندوستان کی ڈجیٹل معیشت کی مالیت ۲۰۰؍ بلین ڈالرس تھی جس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت ملک کی جی ڈی پی میں اس کا حصہ ۸؍ فیصد تھا۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ۲۰۲۵ء تک جی ڈی پی میں اس کا اشتراک ۱۸؍ سے ۲۳؍ فیصد تک ہوجائے گا۔ نوٹ بندی کے وقت اگر ڈجیٹل ٹرانزیکشن کا سہارا نہیں ہوتا تو اس کے منفی اثرات، جو آج بھی کئی صنعتوں پر قائم ہیں ، ملک کے بیشتر شہریوں پر پڑتے، بالفاظ دیگر وہ تمام لوگ جو آن لائن پے منٹ کے ذریعے ضروری اشیاء خریدنے کے قابل تھے انہیں بھی غذا کیلئے تگ و دو کرنی پڑتی۔
 ریزرو بینک آف انڈیا کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق ۴؍ نومبر ۲۰۱۶ء کو ہندوستانی معیشت میں ۱۷ء۷۴؍ لاکھ کروڑ روپے گردش میں تھے جبکہ ۲۹؍ اکتوبر ۲۰۲۱ء کو یہ بڑھ کر ۲۶ء۸۸؍ لاکھ کروڑ روپے ہوگئے ہیں ۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ۲۰۱۶ء کے بعد سے معیشت میں رواں کرنسی نوٹوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے۔ ۲۱۔۲۰۲۰ء کے مالی سال میں نوٹوں کی تعداد میں ۱۶ء۸؍ فیصد کا اضافہ ہوا تھا، جو ۲۰۔۲۰۱۹ء میں ۱۴ء۷؍ فیصد تھا۔ دریں اثناء، ۲۰۱۶ء میں لانچ کئے جانے والے یو پی آئی سے ٹرانزیکشن میں ہر مہینے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اکتوبر ۲۰۲۱ء میں ۷ء۷۱؍ لاکھ کروڑ روپے (۱۰۰؍ بلین ڈالرس سے زائد) سے زیادہ کا ٹرانزیکشن کیا گیا ہے۔ مذکورہ مہینے میں ۴۲۱؍ کروڑ یو پی آئی ٹرانزیکشن کئے گئے ہیں ۔ 
 حالات کا جائزہ لینے پر احساس ہوگا کہ ملک میں ڈجیٹل ٹرانزیکشن کو فروغ حاصل ہونے کے ۲؍ مواقع پیدا ہوئے۔ پہلا نوٹ بندی (۲۰۱۶ء) اور دوسرا کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن(۲۰۲۰ء سے حالیہ مہینوں تک)۔ نوٹ بندی کے دوران نقدی نہ ہونے کے سبب صارفین آن لائن لین دین پر مجبور تھے تو کورونا وائرس کے دوران سماجی فاصلے یا لاک ڈاؤن کے سبب نقدی استعمال کرنے سے قاصر تھے۔ ان دونو ں موقعوں پر صارفین نے ڈجیٹل ٹرانزیکشن کا خوب فائدہ اٹھایا، اور اب بھی متعلقہ کمپنیوں کے صارفین کی تعداد میں ہر ماہ اضافہ ہورہا ہے۔ فی الحال ۲۸۰؍ ملین سے زائد صارفین فون پے، ۱۳۰؍ ملین سے زائد صارفین پے ٹی ایم ، اور ۷۰؍ ملین سے زائد صارفین گوگل پےسے وابستہ ہیں ۔ اگر نوٹ بندی اور کورونا وائرس کے سبب معیشت کی رفتار سست نہیں ہوتی، اور معیشت میں پرانے نوٹ ہی گردش کررہےہوتے تو کیا ان ڈجیٹل پے منٹ کمپنیوں کو ایسا فائدہ ہوتا ؟نوٹ بندی ہوجاتی لیکن کورونا وائرس کے سبب معیشت کو منفی جھٹکا نہیں لگتا تو کیا ان ڈجیٹل پے منٹ کمپنیوں کے صارفین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوتا؟ فون پے کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۰ء میں اس کے صارفین کی تعداد میں ۴۵؍ ملین سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ سال کے بیشتر مہینے لاک ڈاؤن میں گزرے ہیں ۔ 
 ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ اس سے آسانی سے ادائیگی ہوجاتی ہے لیکن آن لائن فراڈ کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ واضح رہنا چاہئے کہ اس پورے عمل میں بینکوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ’’دی منٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے بڑے بینک ہوں یا چھوٹے، ان کے صارفین اب ٹرانزیکشن کرنے لگے ہیں ، پھر چاہے منتقل ہونے والی رقم ۵؍ روپے ہی کیوں نہ ہو۔ ۲۰۱۶ء سے قبل بیشتر شہری بینک اکاؤنٹ ہونے کے باوجود آن لائن ٹرانزیکشن نہیں کرتے تھے۔ وہ عام طور پر پیسے نکالتے تھے، جمع کرتے تھے یا کبھی کبھار کسی دوسرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیتے تھے لیکن اب وہ ڈجیٹل پے منٹ کی سہولت دینے والی کمپنیوں سے جڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کا بینک اکاؤنٹ لنک ہوگیا ہے، اور اب وہ وقتاً فوقتاً آ ن لائن ٹرانزیکشن بھی کرنے لگے ہیں ۔ اس طرح ان کے کھاتوں میں پیسے آنے اور جانے کا عمل بھی بڑھ گیا ہے۔ علاوہ ازیں ، ڈجیٹل پے منٹ کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ بڑے اور چھوٹے تاجر بھی ان کمپنیوں سے وابستہ ہوگئے ہیں ۔ 
 ہندوستانی صارفین نے نقدی اور ڈجیٹل ٹرانزیکشن کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں کے افراد ڈجیٹل ٹرانزیکشن کا زیادہ فائدہ اٹھارہے ہیں اور چھوٹے شہروں ، قصبوں اور دیہی علاقوں کے باشندے بھی اس جانب راغب ہورہے ہیں ۔ ماہرین اسے مستقبل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں کرنسی کی اہمیت کم یا بالکل ہی ختم ہوجائے گی۔ لیکن جیسا کہ درج بالا سطروں میں بتایا گیا کہ ’’ہندوستانی صارفین کے رویوں کو سمجھنا ہمیشہ ہی سے ایک مشکل امر رہا ہے‘‘ کے مصداق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ ملک کا ہر شہری ادائیگی کے اس ’’موڈ‘‘ سے جڑے گا یا نہیں ۔ اگر جڑ گیا تب بھی نقدی کی اہمیت کا ختم ہونا مشکوک ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK