سابق آئی پی ایس عبدالرحمان کی تازہ تصنیف ہندوستان میں مسلمانوں کی نہایت کم سیاسی نمائندگی کے اسباب و عوامل کا بھرپور تجزیہ ہے۔
EPAPER
Updated: October 22, 2023, 1:03 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
سابق آئی پی ایس عبدالرحمان کی تازہ تصنیف ہندوستان میں مسلمانوں کی نہایت کم سیاسی نمائندگی کے اسباب و عوامل کا بھرپور تجزیہ ہے۔
کسی پُروقار اور پُرکشش ملازمت کو ترک کردینا آسان نہیں ہوتا مگر جب غیرت للکارتی ہے تو اس کی جرأت ازخود پیدا ہوجاتی ہے۔ ۲۰۱۹ء میں شہریت ترمیمی قانون سے بے چین ہوکر کہ اس کی وجہ سے ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقے کو ہراساں کیا جاسکتا ہے حتیٰ کہ اُن کی شہریت پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں ، ہزاروں بلکہ اس سے زیادہ مسلمان نادیدہ مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں ، ایک اعلیٰ پولیس افسر نے احتجاجاً ملازمت ترک کردی تھی۔ وہ تھے جناب عبدالرحمان۔ اُن کا تعلق آئی پی ایس، مہاراشٹر کیڈر سے تھا۔ استعفے کے وقت وہ مہاراشٹر حقوق انسانی کمیشن کی تفتیشی وِنگ کے سربراہ تھے۔ اُن کے اس احتجاجی اقدام کی بڑے پیمانے پر ستائش کی گئی تھی۔ ملت کا درد رکھنے والے اس اعلیٰ افسر کی جرأت رندانہ کو ملت ہی نے نہیں سراہا، ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں نے اس اقدام کی داد دی۔ استعفے کے واقعے کو چار سال پورے ہونے کو ہیں ۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج سرد پڑچکا ہے اور عبدالرحمان صاحب کا استعفےٰ قبول نہیں ہوا ہے مگر اُن کے دل میں اس پر نظر ثانی کا خیال تک نہیں آیا۔ اس دوران اُنہو ں نے خود کو سرگرم رکھنے کیلئے نیا راستہ تلاش کرلیا۔ وہ نہایت اہم موضوعات پر دستاویزی نوعیت کی کتابیں لکھ رہے ہیں ۔ اُن کی پہلی کتاب تھی ’’ڈینائل اینڈ ڈِپرائیویشن‘‘ (انکار اور محرومی)۔ اس میں بالتفصیل بتایا گیا تھا کہ آزادی کی سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو کن کن دشواریوں سے گزرنا پڑرہا ہے اور کس طرح سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹیں منظر عام پر آنے کے باوجود اُن کی حالت زار سے چشم پوشی کی جارہی ہے۔ عبدالرحمان کی نئی کتاب ’’ایبسینٹ اِن پالیٹکس اینڈ پاور‘‘ ہے جس کا گزشتہ دنوں اجراء ہوا ہے۔ کم و بیش چار سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں بڑی محنت اور عرق ریزی کے ذریعہ ضروری حقائق اور اعدادوشمار کو حاصل کیا گیا تاکہ جو بھی کہا جائے وہ مدلل ہو، جس سے کوئی انکار نہ کرسکے۔
’’ایبسینٹ اِن پالیٹکس اینڈ پاور‘‘ میں سولہ ابواب ہیں۔ ان ابواب میں مسلم نمائندگی کا تاریخی تناظر، لوک سبھا میں نمائندگی، ریاستی اسمبلیوں میں نمائندگی، سیاسی نمائندگی کے تعلق سے حکومتی پالیسیاں ، یوپی، بہار، گجرات، کرناٹک، راجستھان، تلنگانہ اور مغربی بنگال کی ریاستی اسمبلیوں کا تجزیہ وغیرہ شامل ہے۔ حقائق کو یکجا کرنا، اعدادوشمار حاصل کرنا، پھر انہیں سمجھنا، مرتب کرنا اور قارئین کے ذہن نشین کرانا کارے دارد تھا مگر مصنف کی محنت شاقہ کی داد دیجئے کہ اس کے بغیر یہ کتاب مکمل نہیں ہوسکتی تھی۔ انقلاب نے کتاب کے مشمولات کا جائزہ لینے کے بعد ضروری سمجھا کہ مصنف سے چند باتیں کرلی جائیں۔ ملاحظہ کیجئے اُن سے ہونے والی گفتگو کے چند اقتباسات:
کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’اس تصنیف کا مقصد مسلمانوں کی غیر معمولی طور پر کم سیاسی نمائندگی کو منظر عام پر لانا ہے۔‘‘ یقیناً آپ نے اس کے اسباب پر بھی غور کیا ہوگا۔ وہ کیا ہیں ؟
جی، غور کیا ہے اور اُسی غوروخوض کے بعد محسوس ہوا کہ یہ موضوع پوری ایک کتاب کا متقاضی ہے۔ میرے خیال میں مسلم نمائندگی کے فقدان کی تین بنیادی وجوہات ہیں : (۱) سیاسی پارٹیوں کا طرز عمل (۲) جمہوری اداروں کی صورت حال اور (۳) خود مسلم قوم کا طور طریقہ۔ جہاں تک پہلی وجہ کا تعلق ہے، مسلمانوں نے سیکولر پارٹیوں کا بھرپور ساتھ دیا مگر سیکولر پارٹیو ں نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ یہ بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کمیونل پارٹیوں کی حمایت نہیں کی۔ ایسے میں سیکولر سیاسی جماعتوں کو چاہئے تھا کہ حمایت کا جواب حمایت سے دیا جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ میں نے اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ عام انتخابات میں کانگریس، سی پی ایم، سی پی آئی اور دیگر (علاقائی) سیاسی جماعتوں میں کس نے کتنے مسلمانوں کو نمائندگی دی، جو نمائندگی ملی وہ مجموعی نمائندگی کا کتنا فیصد ہے اور جن مسلمانوں کو ٹکٹ دیا گیا اُن میں سے کتنے کامیاب ہوئے۔ کتاب میں ایک ٹیبل کی شکل میں آپ ۱۹۵۲ سے لے کر ۲۰۱۹ء تک کی صورت حال کا جائزہ لے سکتے ہیں جو صفحہ ۸۵؍ اور ۸۶؍ پر درج ہے۔ اس کے پہلے اور بعد میں مَیں نے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔آپ کے اس مختصر سوال کا بہت طویل جواب میرے پاس ہے جس میں مَیں بتا سکتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کو نامزد کیا بھی گیا تو اُن حلقوں سے نہیں کیا گیا جہاں سے وہ بآسانی جیت سکتے تھے۔ اسی طرح اُن کی کامیابی کیلئے پارٹی نے کوئی محنت نہیں کی۔ مسلمانوں کی بہت کم سیاسی نمائندگی کی ایسی کئی وجوہات ہیں۔
کم نمائندگی کی آپ نے تین وجوہات بیان کی ہیں جن میں سے ایک (سیاسی جماعتوں کا طرز عمل) پر آپ نے روشنی ڈالی، مَیں چاہتا ہوں کہ اختصار کےساتھ آپ دیگر دو اسباب پر بھی روشنی ڈالیں۔
دوسرا سبب جمہوری اداروں کی صورتحال ہے۔ مسلمانوں کی کم نمائندگی میں الیکشن کمیشن کو بھی مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے، ڈی لمیٹیشن (حدبندی) کمیشن کو بھی۔ اسی طرح پارلیمانی حلقوں کے ریزرویشن کا مسئلہ بھی ہے۔ مسلمانوں کیلئے سیٹوں کا کوئی ریزرویشن ہے ہی نہیں چنانچہ ان کی نمائندگی کو آبادی کے تناسب میں لانا ممکن نہیں ہوتا۔ جمہوری ادارے چاہیں تو اس سلسلے میں ضروری اقدامات کرسکتے ہیں مگر نہ تو سیاسی پارٹیوں کو فکر ہے نہ ہی جمہوری ادارے اس جانب توجہ دے سکے ہیں۔ تیسرا مسئلہ خود مسلم قوم کا ہے جس نے اپنی نمائندگی کو یقینی بنانے کی قطعاً فکر نہیں کی۔ اُنہوں نے گزشتہ سات دہائیو ںمیں کبھی محسوس نہیں کیا کہ اُن کے ووٹ کیوں تقسیم ہوتے ہیں، اُن کی قیادت کیوں نہیں بن سکی، اُن کی نمائندگی اتنی کم کیوں ہے؟ اس میں اضافے کیلئے کیا کچھ کیا جانا چاہئے یا کس طرح سیاسی جماعتوں پر اثرانداز ہوا جاسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُنہو ںنے سیاسی قائدین سے کبھی نہیں پوچھا کہ ہمیں اتنی کم نمائندگی کیوں دی جاتی ہے۔
کتاب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’مسلمانوں کا جمہوریت پر اور جمہوری اداروں کے اختیارات اور بالادستی پر بھروسہ ہے۔‘‘ اس میں شک و شبہ کی ہرگز گنجائش نہیں ہے مگر سیاسی شعور بھی کوئی چیز ہے جس کے زیر اثر خود کو طاقت دینے کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔ اس پر آپ کیا کہیں گے؟
مَیں یہ مانتا ہوں کہ مسلمانوں میں سیاسی شعور تو ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُنہوں نے ہر ریاست میں کسی ایک پارٹی کو ووٹ نہیں دیا ہے۔ اُنہوں نے الگ الگ ریاستوں میں الگ الگ سیکولر پارٹیوں کو ووٹ دینے کا انداز اپنایا ہے۔ اُنہیں کہیں نہ کہیں یہ احساس بھی ہے کہ اُن کی نمائندگی کم ہی نہیں بہت کم ہے مگر اکثر اوقات جذباتیت حاوی ہوجاتی ہے۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے بچھائے ہوئے جال میں وہ پھنس جاتے ہیں مثال کے طور پر یوپی کے اُن حلقوں میں جہاں مسلم اُمیدوار بآسانی کامیاب ہوسکتا ہے، کانگریس، بی ایس پی اور ایس پی مسلم اُمیدوار ہی کھڑا کرتے ہیں جس سے مسلم ووٹ بٹ جاتا ہے۔ ہرچند کہ کئی حلقوں میں کسی ایک (مسلم) اُمیدوار کو ووٹ دینے کی اسٹراٹیجی بھی بنائی گئی مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
آبادی کے اعتبار سے مسلم نمائندگی کا طے کیا جانا ایک چیز ہے۔ اگر یہ ہدف پورا بھی ہوگیا تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ مسلم ایم پی یا ایم ایل اے اپنی قوم کیلئے فعال اور کارگر ثابت ہوگا؟
اس موضوع سے مَیں نے باب ۸ (نمائندگی کی مقدار اور معیار) میں تفصیل سے بحث کی ہے۔ بلاشبہ مسلم نمائندوں کی کارکردگی اتنی اچھی نہیں رہی جتنی کی توقع کی جاتی تھی۔ اکثر اوقات منتخب مسلم نمائندے پارٹی کے موقف سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی مسلم نمائندوں کو موقع نہیں دیتی۔ ہمارے بہار کے اسرار الحق صاحب پارلیمنٹ میں تین طلاقوں کے معاملے میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں بول سکے کہ اُنہیں پارٹی نے اس کا موقع نہیں دیا مگر یہ الگ بحث ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ نمائندگی بڑھے گی تو احساس ِ ذمہ داری بھی بڑھے گا اور مسلم نمائندے اُن سے کی جانے والی توقعات پر پورا اُترنے کی کوشش بھی کرینگے۔ پہلا مسئلہ نمائندگی کا ہے اور مَیں نے اسی مسئلہ کو ہائی لائٹ کیا ہے۔
آپ کی کتاب ایسے وقت میں منظر عام پر ہے جب پسماندہ برادریوں کو آبادی کے حساب سے حصہ دینے کا معاملہ کمنڈل کے مقابلے میں منڈل جیسی سیاست کا محورو مرکز بن رہا ہے۔ کیا یہ صحیح وقت ہے کتاب کے منظر عام پر آنے کا؟
مجھے اس سے غرض نہیں کہ وقت صحیح ہے یا صحیح نہیں ہے۔ کم نمائندگی ایک حقیقت ہے لہٰذا کتاب کو کبھی بھی منظرعام پر لایا جاسکتا ہے البتہ ایک نکتہ بیان کرنے پر اکتفا کرونگا۔ وہ یہ ہے کہ اوبی سی کی سیاست سماجی انصاف کیلئے عمل میں لائی گئی سیاست ہے۔ مَیں فی الحال سماجی انصاف کی بات نہیں بلکہ سیاسی انصاف کی بات کررہا ہوں۔