Inquilab Logo Happiest Places to Work

بنگلہ دیش میں بھی اقتصادی بحران

Updated: February 08, 2023, 10:43 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ورلڈ بینک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق بنگلہ دیش کی ۳۰؍فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ایک سال کے اندر بھوکے پیٹ سونے والوں کا تناسب سات فیصد سے بڑھ کر تیرہ فیصد ہو جائے گا۔غیرملکی قرضوں کا بوجھ بھی بے تحاشہ بڑھا ہے اوربنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں بھی کمی آئی ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

وقت خواہ کسی انسان کا ہو یا کسی ملک کا کبھی ایک جیسا نہیں رہتا ہے۔وقت کی گردش سے نہ لوگ بچ سکتے ہیں اور نہ ہی قومیں۔بنگلہ دیش کی مثال ہی لے لیجئے۔ دسمبر۲۰۲۱ء میں جب بنگلہ دیش اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ منارہاتھا اس وقت ساری دنیا میں ماضی کے اس بے حد پس ماندہ ملک کی حیرت انگیز ترقی کی ستائش کی جارہی تھی۔ لیکن وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھوما کہ دسمبر ۲۰۲۲ء آتے آتے بنگلہ دیش معاشی مصائب اور سیاسی مسائل کا شکار ہوگیا اورسری لنکا اور پاکستان کی طرح اسے بھی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑا۔ دس دن قبل آئی ایم ایف نے ڈھاکہ کو ۷ء۴؍بلین ڈالر کا قرضہ دینا منظور کرلیا۔ لیکن آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل آوری کی صورت میں بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوجانے کا اندیشہ ہے جس سے عوام کی پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔
 بنگلہ دیش میں پچھلے چند ماہ سے گیس اور بجلی کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ عوام کو دن میں کئی گھنٹوں تک لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے۔پیٹرول، گیس کے ساتھ ساتھ غذائی اجناس کی سپلائی بھی کم ہوئی ہے اور ان کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔ ورلڈ بینک کے ایک حالیہ سروے کے مطابق ۳۰؍فیصد آبادی کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور ایک سال کے اندر بھوکے پیٹ سونے والوں کا تناسب سات فیصد سے بڑھ کر تیرہ فیصد ہوجائے گا۔غیرملکی قرضوں کا بوجھ بھی بے تحاشہ بڑھا ہے اوربنگلہ دیش کے زرمبادلہ کے ذخائرمیں بھی کمی آئی ہے۔ چھ سات ماہ قبل بنگلہ دیش کے پاس تقریباً ۵۰؍ بلین ڈالر کا غیر ملکی زرمبادلہ تھا جو جنوری ۲۰۲۳ء میں گھٹ کر ۳۳؍ بلین ڈالر رہ گیا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی کرنسی(ٹاکا) کی قدر ۲۵؍ فیصد گرگئی ہے۔ بنگلہ دیش کی حکومت ملک کی معاشی مسائل کا الزام اپنے سر لینے سے انکار کررہی ہے اور موجودہ صورتحال کیلئے خارجی اسباب اور عوامل خصوصاً کورونا کی وبا اور یوکرین کی جنگ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ عالمی وبا سے بنگلہ دیش کے ریڈی میڈ گارمنٹس کا ایکسپورٹ (جو زر مبادلہ حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے) بہت بری طرح متاثر ہواہے۔ بیرون ملک میں مقیم بنگلہ دیشیوں کے ذریعہ وطن بھیجی جانے والی رقومات کی ترسیل میں بھی دوسال میں کافی کمی ہوئی ہے۔ 
  آپ کو شاید یقین نہ ہو لیکن ملک کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ اس کی ترقی ہے۔ ۲۰۰۹ء سے عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ ملک کی وزیر اعظم ہیں اوران کے طویل دور حکومت میں کئی ایسے ٹھوس اور موثر اقدام کئے گئے جن کی وجہ سے غریبی کم ہوئی اور خوشحالی آئی۔ ۲۰۲۰ء میں ورلڈ بینک نے بنگلہ دیش کو ’’ تخفیف افلاس کا ایک ماڈل ‘‘قرار دیا۔ ۲۰۱۰ سے ۲۰۲۰ء کی دہائی میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی ) اتنی بڑھ گئی کہ حسینہ ۲۰۴۱ء تک اس کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے کا خواب دیکھنے لگیں۔اور اس خواب کو شرمندہ ٔتعبیر کرنے کی عجلت میں انہوں نے کروڑوں کا قومی سرمایہ لگاکر ایسے ترقیاتی پروجیکٹس کا آغاز کردیا جن کا بنگلہ دیش ابھی متحمل نہیں تھا۔ ان میں دریائے پدما پرحال میں ہی تعمیر کیا گیا پل سب سے اہم ہے۔ایک چینی کمپنی کے ذریعہ تعمیر کئے گئے اس پل کو پہلے ورلڈ بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک جیسے عالمی ادارے فنڈ فراہم کرنے والے تھے لیکن جب اس کے ٹینڈر کے حوالے سے بدعنوانی اور کرپشن کے کچھ معاملات منظر عام پر آئے تو بیرونی مالیاتی اداروں نے فنڈزکی فراہمی سے انکار کردیا۔ پہلے اس پل کی لاگت ۲ء۱؍بلین ڈالر تھی لیکن اس کا بجٹ تین گنا بڑھ گیا اور جب پل بن کر تیار ہوا تو تقریباًچاربلین ڈالر خرچ ہوچکے تھے اور یہ خطیر رقم حسینہ نے قومی خزانہ سے خرچ کی تھی۔ اسی طرح حسینہ حکومت زیر تعمیر روپ پور نیوکلیئر پاور پلانٹ پر تیرہ بلین ڈالر خرچ کررہی ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں بننے والے جوہری توانائی پلانٹ سے دوگنی لاگت ہے۔ ہر ملک کو ترقیاتی پروجیکٹس کا اعلان کرتے وقت اپنی معاشی حیثیت اور اپنے وسائل کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ جو ممالک روڈ اور پل جیسے انفراسٹرکچر کی تعمیر پر اپنی بساط سے زیادہ خرچ کرتے ہیں وہ مالی مصائب کو دعوت دیتے ہیں۔
  دراصل جب جمہوری ریاستوں کے حکمرانوں پراقتدار کا نشہ چڑھنے لگتا ہے اور وہ آمرانہ رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں توعوام کو بہلانےکیلئے وہ اس طرح کے بھاری بھرکم ترقیاتی پروجیکٹس لانچ کردیتے ہیں جو بعد میں ملک کیلئے سفید ہاتھی ثابت ہوتے ہیں۔بنگلہ دیش میں بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ کر ۱۰۰؍ بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور پدما برج جیسے ۲۰؍ میگا پروجیکٹس کیلئے ڈھاکہ نے بھاری غیرملکی قرضے لے رکھے ہیں جن کی ادائیگی اگلے تین برسوں میں کرنی ہوگی جو ملک کی معیشت کیلئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتی ہے۔
  اپوزیشن بی این پی اور غیر جانبدار میڈیا مسلسل یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ حسینہ نے ۲۰۱۴ ء اور ۲۰۱۸ء کے دونوں عام انتخابات بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعہ جیتے تھے۔ حسینہ پر جمہوری اقدار اور حقوق انسانی کی پامالی کااور حزب اختلاف کو کچلنے کے لئے جابرانہ طریقے اپنانے کابھی الزام ہے۔ حکومت کے آمرانہ رویے پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے ہونے والے احتجاج کے جواب میں حکمراں عوامی لیگ کے لیڈران’’ لیس ڈیموکریسی ، مور ڈیولپمنٹ‘‘ کا نعرہ بلند کررہے ہیں۔مطلب یہ کہ بنگلہ دیش میں بھی وکاس کی ڈگڈگی بجاکر جمہوریت کی بیخ کنی کی جارہی ہے۔لیکن اس وقت ملک کو جس اقتصادی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ان کو دیکھتے ہوئے حسینہ حکومت کا یہ نعرہ کھوکھلا لگ رہا ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی ملک میں اقتصادی بحران پیدا ہوتا ہے تو وہاں سیاسی انتشار بھی سر اٹھانے لگتا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی اس وقت یہی ہورہا ہے۔ کرپشن اور مالی گھٹالوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا اور ان کے صاحبزادے عرفات رحمان کی گرفتاری اور طویل عرصے تک جیل میں رہنے کی وجہ سے بی این پی لاسمتی کا شکار ہوگئی تھی۔ لیکن افراط زر،مہنگائی، غذا، بجلی اور ایندھن کی قلت کی وجہ سے عوام میں پھیلتی بے چینی سے بی این پی کواپنا کھوئی ہوئی زمین واپس حاصل کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں بی این پی کے ذریعہ منعقد کی گئی احتجاجی ریلیوں میں لوگوں کی امڈتی بھیڑ سے یہ واضح ہونے لگا ہے کہ حسینہ حکومت کے خلاف عوام کی ناراضگی کتنی بڑھ چکی ہے۔ اگلے عام انتخابات دسمبر میں ہونے والے ہیں۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ملک کی بڑھتی معاشی مشکلات حسینہ کیلئے سیاسی مسئلہ بن سکتے ہیں یا نہیں۔

Bangladesh Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK