Inquilab Logo

قرآن مجید کی معاشی رہنمائی

Updated: December 02, 2022, 11:25 AM IST | Abdul Raqib | mumbai

قرآن مجید نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ (النساء:۵) مال کو خیر (العادیات) اور اللہ کا فضل (الجمعہ:۱۰) قرار دیا ہے۔ مال و دولت انسانی معاشرے کیلئے وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے معاشرے کی ترقی کیلئے مال و دولت کے متعلق ایک صحیح اور متوازن فکر کی ضرورت ہے

The Shari`ah has allowed trade, agriculture, industry (craftsmanship) and earning wealth through every lawful means.
شریعت نے تجارت، زراعت، صناعت (ہنرمندی) اور ہر جائز وسیلے سے مال کمانے کی اجازت دی ہے


قرآن مجید میں چھ ہزار سے زیادہ آیات ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی آیت، سورۃ البقرہ کی آیت ۲۸۲ہے، جسے ’آیتِ دَین‘ بھی کہتے ہیں۔ وہ قرآن کے معاشی، اقتصادی اور مالیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا ہے کہ ’’باہم لین دین کا معاملہ ایک متعین وقت کے لئے ہو تو لکھ لیا کرو‘‘۔ آج سے چودہ سو سال پہلے، جب کہ معاشرے میں گنتی کے چند ہی افراد لکھنے پڑھنے پر قادر ہوتے تھے، ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ’’لکھنے سے انکار نہ کریں۔‘‘ علم اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اس نعمت کا استعمال دوسروں کیلئے کرنا چاہئے۔
دوسری حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دستاویز کا املا کون کرے؟ آج کے دور کی طرح قرض دینے والا نہیں بلکہ مقروض جو فریقین میں کم زور ہوتا ہے اور جس پر قرض دینے کا حق ہے۔ وہ اللہ سے ڈر کر معاملہ کے عین مطابق املا کروائے۔ اگر مقروض بیمار ہے، ناسمجھ اور معذور و مجبور ہے تو دوسرے کاتب کی خدمات حاصل کرکے اسے املا کرایا جائے، جو عدل و انصاف سے لکھے۔ کاتب کو لکھنے سے پس و پیش نہیں کرنا چاہئے۔ اس کے بعد اس دستاویز پر دو لوگ گواہی کے لئے بلائے جائیں۔ اگر دو مرد نہ ملیں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لی جائے۔
یاد رہے کہ چھوٹے بڑے جزئیات بھی دستاویز کی دفعات میں شامل ہوں۔ تحریر صاف اور شک سے بالا تر ہو (اَ لَّا تَرْتَا بُوا)۔ اس بات کا بھی خیال رہے کہ کاتب کو اور شہادت دینے والوں کو بھی نقصان نہ پہنچایا جائے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ عرب کے اس معاشرے میں جہاں لڑکیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، انہیں قرض کے لین دین کے معاملات کے ایک اہم مرحلے میں گواہی دینے کا موقع دے کر ان کے مقام و مرتبے کو اونچا اٹھایا گیا ہے۔گویا قرض لینے والے معاشرے کے کمزور فرد کو املا کروانے کا حق دے کر اور خواتین کو قرض کی دستاویز میں گواہ کی حیثیت سے شامل ہونے کا حق دے کر، قرآن نے معاشرے کے کچلے اور دبے ہوئے حصے کو باعزّت مقام عطا کیا ہے۔
’آیتِ دین‘ کے علاوہ قرض کے بارے میں چند ارشادات رسولؐ بھی ملاحظہ فرمائیں:
    جوشخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اس طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے، جس سے وہ مال ہی برباد ہو جاتا ہے۔ (بخاری)
    قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری)
    اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے، مگر قرض معاف نہیں کرتا۔(مسلم)
مال کے  متعلق صحیح اور متوازن تصور
قرآن مجید نے مال و دولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ (النساء:۵) مال کو خیر (العادیات) اور اللہ کا فضل (الجمعہ:۱۰) قرار دیا ہے۔ مال و دولت انسانی معاشرے کے لئے وہی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے انسانی زندگی خون کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی معاشرہ معاشی سرگرمی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ اس وجہ سے معاشرے کی ترقی کیلئے مال و دولت کے متعلق ایک صحیح اور متوازن فکر کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’پھر جب نماز ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘(الجمعۃ:۱۰)
’’(حج کے دوران) تم پر اپنے رب کا فضل تلاش کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ ‘‘ (البقرۃ:۱۹۸)
’’پانی میں تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں، تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کے شکر گزار بنو۔‘‘ (فاطر: ۱۳)
تجارت، زراعت، صناعت (ہنرمندی) اور ہر جائز وسیلے سے مال کمانے کی شریعت نے نہ صرف اجازت دی ہے، بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے اور دوسروں کا دست نگر بننے کے بجائے ہاتھ پاؤں مار کر محنت و مشقت کرکے روزی روٹی حاصل کرنے اور مال کمانے کی ترغیب دی ہے۔
 اس کے برخلاف دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرکے عزلت نشین بننے کے بجائے دنیا میں رہ کر اور دنیا کے لوگوں سے مل کر ان کے ساتھ لین دین کرکے مال کمانے، پھر حاصل شدہ مال کو  اللہ کی راہ میں اور محتاج اور ضرورت مند انسانوں میں خرچ کرکے دنیا میں عزت و شرف اور آخرت میں بھی مقام بلند حاصل کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے: ’’ہم رسول اللہ کے ساتھ ایک لڑائی میں شریک تھے۔ ہمارے پاس سے ایک پھر تیلا نوجوان گزرا، جو غنیمت میں حصے کے طور پر ملے مویشی کو لئے جارہا تھا، تو ہم بول پڑے کہ ’اگر اس کی جوانی و سرگرمی اللہ کی راہ میں صرف ہوتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔‘  ہماری یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپؐنے فرمایا: ’تم کیا کہہ رہے تھے؟‘ ہم نے بتایا کہ ’یہ اور یہ‘۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’اگر وہ والدین یا ان میں سے کسی ایک کے لئے بھاگ دوڑ کرے، تو یہ بھی اللہ کی راہ میں شمار ہوگا، اور اگر وہ اہلِ دنیا کے کے لئے تگ و دو کر رہا ہو، تاکہ ان کی کفالت کر سکے تو یہ بھی اللہ کی راہ میں گنا جائے گا، اور اگر اپنی ذات کے لئے کام کرے تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہوگا۔‘‘(بیہقی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن  مجید میں وارد ہے:
’’اور تمہیں نادار پایا اور پھر مال دار کردیا۔‘‘  
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:’’مجھے ابوبکرؓ کے مال کی طرح کسی کے مال نے فائدہ نہیں پہنچایا۔‘‘
رسول اللہؐ نے اپنے خادم خاص حضرت انسؓ کے لئے یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ ان کو مال فراواں دے۔‘‘
آج ہم دیکھتے ہیں کہ مال کمانے میں جائز وناجائزکی تمیز نہیں کی جا رہی ہے۔ جھوٹ، دھوکا، رشوت، ناپ تول میں کمی، وعدہ خلافی کا عام چلن ہے اور کسبِ معاش میں حرام و حلال کے حدود و قیود کا پاس و لحاظ نہیں کیا جا رہا ہے۔ حالاں کہ ارشاد ربانی ہے: ’’اے پیغمبرو، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں ۔‘‘ (المؤمنون: ۵۱)
علماء نے تشریح کی ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل صالح سے پہلے رزق حلال اور طیب چیزوں کے کھانے کا ذکر کر کے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اعمالِ صالحہ کی قبولیت کا دار و مدار رزقِ حلال پر ہے۔ اس لئے ہم میں سے ہر شخص پر لازم ہے کہ حلال رزق کے حصول کو دین کی اوّلین ذمہ داری سمجھے۔
مال کے حصول اور استعمال کے بارے میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’یہ مال ہرا بھرا اور دل آویز ہے۔ جو شخص اسے جائز طریقے سے حاصل کرے گا اس میں برکت ہوگی اور جو شخص اسے ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا، اس کیلئے اس میں برکت نہیں ہو گی، اور وہ اس شخص کے مانند ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔‘‘ 
انسدادِ سود اور معاشی استحصال کا خاتمہ
اللہ فرماتا ہے: اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سودی مطالبات باقی رہ گئے ہیں ان کو  چھوڑ دو اگر تم صحیح معنوں میں مومن ہو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اگر تم توبہ کرو اور سودی معاملات سے باز آجائو تو تمہارے راس المال تمہارے ہیں وہ تم کو ملیں گے۔ نہ تم زیادتی کرو نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے۔ 
سود کی مذمت اور اس سے اجتناب کی تلقین میں اسلام اس حد تک سخت ہے کہ اس معاملے میں جو کوئی کسی طرح شریک ہو، چاہے اس کی دستاویز لکھنے والا ہو یا اس پر گواہی دینے والا، ان سب پر وہ لعنت بھیجتا ہے۔ حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے سود کھانے والے، کھلانے والے اور اس کی دستاویز لکھنے والے، اس پر گواہی دینے والوں، سب پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔ اسلام محنت کی عظمت اور تقدس کو اہمیت دیتا ہے اور اسے ملکیت اور نفع کی اساس قرار دیتا ہے۔ وہ اس بات کو روا نہیں رکھتاکہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والا مال کا حقدار ٹھہرے یا دولت سے دولت پیدا کرے۔ دولت صرف محنت سے پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر وہ مال حرام قرار پاتا ہے۔
حرمت سود میں ایک اور حکمت مضمر ہے جو آج ہم پر دور جدید میں منکشف ہو رہی ہے اور غالباً اس سے پہلے سامنے نہیں آئی تھی، وہ یہ کہ سود ایک ایسا عامل ہے جو سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ کرتا جاتا ہے۔ یہ اضافہ نہ کسی سعی وجہد کا نتیجہ ہوتا ہے اور نہ کسی طرح کی محنت کا ثمرہ۔سود کی یہ صفت ایسی ہے جو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھے رہنے والوں کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ افزائش دولت کے سلسلہ میں تمام تر اسی ایک ذریعے پر انحصار کر بیٹھیں۔ یہ سب کچھ ان محنت کشوں کے بل پر ہے جو دولت کے محتاج ہوتے ہیں اور تنگی کے عالم میں مجبور ہو کر سودی قرض لیتے ہیں۔ اس طرح دو خطرناک اجتماعی امراض سر اٹھاتے ہیں۔ سرمایہ میں بے حد وحساب اضافہ اور انسانیت کی بلند وپست دو طبقات کے مابین روز افزوں تفریق جو کسی بھی حد پر جا کر رکنے کا نام نہیں لیتی۔ حقیقت یہ ہے کہ سود کھانا اسلامی تصور زندگی کے اس بنیادی اصول سے ٹکراتا ہے کہ مال اللہ کا ہے جس میں اس نے انسانوں کو نائب بنایا ہے۔ ان شرطوں کے تحت کہ نائب بنانے والے اللہ کا منشا پورا کرے نہ کہ انسان جو چاہے کرے؟ سود معاشی استحصال کا بڑا ذریعہ ہے۔ معاشی استحصال سے بچنے کے لئے انسدادِ سود ناگزیر ہے۔
نظم زکوٰۃ اور تقاضے
سورۂ توبہ کی آیت ۱۰۳؍ میں فرمایا گیا ہے: ’’اے نبیؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو۔‘‘  اسی سورہ کی آیت  نمبر ۶۰؍ میں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ زکوٰۃ کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت فرمائی کہ حاصل شدہ زکوٰۃ کے خرچ کرنے کی مدات کیا ہیں؟: ’’صدقات (یعنی زکوٰۃ) اللہ کی طرف سے فرض ہے فقراء کے لئے، مساکین کے لئے، گردن چھڑانے کے لئے، قرض داروں کے لئے، راہِ خدا اور مسافروں کے لئے۔ اللہ بہتر جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
 زکوٰۃ، اسلام کا تیسرا اہم ستون ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے مالوں، حکومت اور معاشرے کی ذمہ داریوں میں فقراء و مساکین کے حقوق کی ضمانت دی۔ آج ہم اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو الحمد للہ، کلمۂ شہادت کے تقاضوں پر عمل کرنے کے لئے محنت ہو رہی ہے، نماز کی اقامت اور اس کی ادائیگی کا اہتمام ہو رہا ہے، نہ صرف فرائض بلکہ نوافل میں چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح اور تہجد پر زور دیا جا رہا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے، حتیٰ کہ شوال کے چھ روزے اور عاشورہ کا روزہ کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ مالی عبادات میں حج کا شوق کافی بڑھا ہے اور عمرہ کا بھی خوب اہتمام ہو رہا ہے، لیکن ایتائے زکوٰۃ جو پسماندگی کو دور کرنے کے لئے دراصل اُمت کے فقراء و مساکین کا حق ہے، اس کی طرف توجہ کی کمی ہے۔ حال یہ ہے کہ زکوٰۃ کے اجتماعی نظم اور ان آٹھ مدات میں جہاں اس رقم کو خرچ ہونا ہے، اس سے امت کا ایک بڑا طبقہ ناواقف ہے۔

quran Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK