• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عشق ِ نبویؐ سے اپنے اور نئی نسل کے سینوں کو آباد کیجئے

Updated: September 16, 2024, 10:23 AM IST | Mufti Muhammad Mujahid Hussain Habibi | Mumbai

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر مومن ومسلمان کے لئے نعمت خداوندی اور عظیم سرمایۂ حیات ہے۔

Love and love of the Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) is the life capital and soul of faith of Muslims. Photo: INN
عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی مسلمانوں کا کل سرمایۂ حیات اور جانِ ایمان ہے۔ تصویر : آئی این این

محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر مومن ومسلمان کے لئے نعمت خداوندی اور عظیم سرمایۂ حیات ہے۔ اسی سرمائے نے ہر زمانے میں قوم و ملت کو دینی وروحانی طور پر تازہ دم اور زندہ و سلامت رکھا اور ہر طرح کے حوادثات اور نئے نئے پیدا ہونے والے فتنوں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ رکھا: 
ہر کہ عشق مصطفی سامان اوست / بحر و بر در گوشہ ٔدامان اوست
 محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت ہی تھی کہ حضرت بلالؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت یاسرؓ، حضرت عمارؓ، حضرت سمیہؓ اور دیگر صحابہ وصحابیات کو جن پر اسلام دشمنوں نے ظلم وجبر کی انتہا کر رکھی تھی اورجن پر مظالم کے ایسے پہاڑ ڈھائے جارہے تھے کہ انسانی تاریخ میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہے، لیکن جذبۂ محبت رسول نے ان کے پائے ثبات میں کسی طرح کی لغزش واقع نہ ہونے دی۔ کفار ومشرکین کی اذیتیں سہنے سے لے کر ہجرت مدینہ کا درد اٹھانے تک کاسارا سفرصحابہ ؓنے ذات رسول سے والہانہ محبت ہی کے سبب طے کیا، ہر دکھ، درد اور غم بخوشی برداشت کرتے رہے۔ یہ محبت ِ رسول ہی تھی جس نے ہزاروں کفار ومشرکین کے سامنے ۳۱۳؍ نہتے اور مظلوم مسلمانوں کو لاکھڑا کیا، اللہ کی رحمت اور رسول کی محبت پر کامل بھروسے نے ان نہتے لوگوں کو بدر کے میدان میں جو بے مثال کامیابی عطا کی اُس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 
 یہ محبت ِرسولؐ ہی تھی جس نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنا سب کچھ راہ خدا میں نچھاور کرنے کیلئے آمادہ کرلیا، یہ جذبۂ حب رسول ہی ہے جس نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جنگ احد میں اپنے ماموں کے مقابل لاکھڑا کیا، یہ عشق رسول ہی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر حضور ؐکے آنے پر ہر قدم پر ایک ایک غلام آزاد فرمایا، یہ جذبۂ حب رسولؐ ہی ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کی اجازت نہ دی کہ آپ حضورؐ کے آرام میں مخل ہوں خواہ نماز جاتی رہے۔ غرض صحابہ اور صحابیات ؓ نے محبت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے رنگ میں رنگ کر ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ صبح قیامت تک اب کوئی دوسرا اس قسم کے معاملات انجام نہیں دے سکتا۔ 
 صحابہ ؓ سے عشق رسولؐ کا یہ جذبہ سینہ بہ سینہ تابعین میں اور ان سے تبع تابعین میں اور بعد کے مسلمانوں میں منتقل ہوتا رہا اور سبھی اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہوتے رہے۔ نتیجتاً مسلمان ہر محاذ، ہر میدان، ہر علم، ہر ہنر اور ہر فن پر چھاگئے۔ دُنیا کی امامت کا سہرا کئی صدیوں تک مسلمانوں کے سر رہا، تاریخ کی ورق گردانی کریں تو وہ سنہرا دور نظر آجائے گا۔ پھر آج کیا ہوگیا، وہ عزت کہاں گئی؟ قوم و ملت چہارجانب رسواکیوں نظر آرہی ہے؟ ہر محاذ، ہر میدان، علم وہنر اور اپنی تہذیب و تمدن سے مسلمان کیوں محروم ہوگئے ہیں ؟ یہ کیا ہوگیا پوری امت بیمارو بے سہارا ہوکر رہ گئی ہے؟ غور کیجیے اور اچھی طرح سمجھنے کی کوسش کیجیے تو پتہ چلے گا کہ دشمنان اسلام نے صدیوں کے تجربے سے سمجھ لیا کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی مسلمانوں کا قیمتی سرمایہ ہے، اسے اگر ان کے سینوں سے سلب کرلیا جائے اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ان کا رشتہ منقطع کر دیاجائے تو یہ خس وخاشاک کی مانند بے وقعت ہوکر رہ جائینگے۔ 
  افسوس صد افسوس! غیروں کی سازش بہت حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ ذات مصطفیٰ ؐ اور ان کی محبت سے سینے ویران ہونے کے سبب مسلمان محلہ ٹولہ کی سطح سے لے کر شہر، صوبہ اور ملک اور عالمی سطح تک تباہ ہوکر رہ گیاہے۔ لیکن ہمیں ایسے حالات میں بھی مایوس نہیں ہونا ہے اور نہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا ہے، ہمیں اپنے سینوں کو اور نئی نسلوں کے سینوں کو ذات رسول عربی ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت سے آباد کرناہے۔ 
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے
 قرآن کریم جو اللہ کا کلام ہے، اللہ نے اپنے اس کلام کے ذریعہ بندوں کو کامیابی کے سلسلے میں جو ہدایتیں دیں ان میں حب ِ رسول ؐ، تعظیم رسولؐ اور اطاعت رسولؐ کا بطور خاص ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیں کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارا کنبہ، تمہارا کمایا ہوا مال، تمہاری وہ تجارت جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے، اور تمہاری پسندیدہ عمارتیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوں تو تم اللہ کے حکم (عذاب) کا انتظار کرو۔ (سورہ توبہ :۲۴)
 انسان کے اندر فطری طور پر ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچے، دوست احباب، گھر مکان اور کاروبار اور زمین و جائداد سے محبت ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اہل ایمان کو ان سب سے بڑھ کر اللہ و رسول سے محبت کرنی چاہیے، یہی ایمان کی جان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک میری محبت اس کے دل میں ماں باپ، بیوی بچوں اور دوسرے تمام لوگوں سے بڑھ کر نہ ہو۔ ‘‘ (صحیح البخاری)
  معلوم ہوا کہ عشق و محبت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی مسلمانوں کا کل سرمایۂ حیات اور جانِ ایمان ہے۔ 
 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’ اے میرے بیٹے! اگرتم یہ کر سکو کہ تمہاری صبح وشام کسی سے بغض وکدورت سے پاک ہو تو اس پر عمل کرو، راوی فرماتے ہیں کہ حضورؐ نے مجھ سے فرمایا: جس نے میری سنت کو زندہ رکھا اس نے مجھ سے محبت کی اور مجھ سے محبت رکھنے والا میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ ‘‘ (سنن الترمذی )
 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا:میری جان کے علاوہ آپ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہیں۔ یہ سن کر حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں ، یہ سن کر حضرت عمر فاروق نے کہا : اگر ایسا ہے تو قسم ہے! اس ذات پاک کی جس نے آپ کو حق و صداقت کے ساتھ کتاب ہدایت دے کر مبعوث فرمایاہے، آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ، یہ سن کر حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا: اے عمر! اب تمہارا ایمان مکمل ہوا ہے۔ (صحیح البخاری )
 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا: اتفاقاً اسی زمانے میں میرے پاس کچھ مال موجودتھا، میں نے کہا: آج اتفاق سے میرے پاس مال موجود ہے، اگر میں ابوبکر سے کبھی بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ یہ سوچ کر میں خوشی خوشی گھر گیا اور جو کچھ گھر میں تھا، اس میں سے آدھا لے آیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا کچھ چھوڑ آیا ہوں، حضور ؐ نے پھر دریافت فرمایا:آخر کیا چھوڑا؟ میں نے عرض کیا: آدھا مال چھوڑآیاہوں۔ اس کے برخلاف، حضرت ابوبکرؓ، گھر میں جو کچھ تھا سب لے آئے۔ آپؐ نے پوچھا: ابوبکر گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا؟انہوں نے عرض کیا : گھروں والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑا آیاہوں۔ 
  حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے مان لینا پڑا کہ میں حضرت ابوبکرؓ سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ 
 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا :آپ کو حضور سے کتنی محبت ہے ؟ آپ نے فرمایا :حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان، مال، ماں، باپ، آل اولاد سب سے زیادہ محبوب وعزیز ہیں، یا اس کو اس طرح سمجھو کہ پیاسے آدمی کو شدید پیاس میں جس طرح ٹھنڈا پانی مطلوب اور محبوب ہوتا ہے مجھے حضور اس سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ (کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ جلد دوم، ص:۶۲)
 اگر آج کے مسلمانوں میں بھی یہ صفت پیدا ہوجائے تو ان شاء اللہ حالات یکسر بدل سکتے ہیں ۔ امت تنزلی و زبوں حالی کی جگہ عروج و ارتقاء اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔ اور ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہےبشرطیکہ ہم حضورؐ سے ویسی ہی محبت کریں جس کی چند مثالیں بالائی سطور میں بیان کی گئی۔ محبت ہوگی تو سیرت نبویؐ سے لگاؤ پیدا ہوگا اور جب لگاؤ ہوگا تو سنتوں پر عمل آسان ہوجائیگا اور سنتوں پر عمل ہوگا تو زندگی میں انقلاب برپا ہوجائیگا، ان شاء اللہ، وما توفیقی الا باللہ تعالیٰ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK