عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ اکثر لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
EPAPER
Updated: April 01, 2025, 2:42 PM IST | Dr. Yusuf Al-Qaradawi | Mumbai
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ اکثر لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
اہلِ اسلام کی دو عیدیں ہیں: عیدالفطر اور عیدالاضحی، اور ہر عید کسی بڑی عبادت یا کسی بڑے فرض کے بعد آتی ہے۔ عیدالاضحی فریضۂ حج اور عیدالفطر ماہِ رمضان کے بعد آتی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ان فرائض و عبادات کی ادائیگی کے بعد تم اللہ کی عظمت بیان کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں اس ادائیگی کی توفیق و رہنمائی عنایت فرمائی۔
عیدالفطر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کی توفیق و عنایت پر اس کا شکر ادا کرنے کا ایک اظہار یہ ہے کہ بندگان خدا عید کی اس خوشی سے تنہا محظوظ نہ ہو، بلکہ فقیروں اور مسکینوں کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان کی زکوٰۃ، ’فطرانہ‘ اسی لیے فرض کیا گیا ہے۔ مسلمان یہ زکوٰۃ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی طرف سے ادا کرتا ہے۔ یہ ایک معمولی سی مقدار ہے جو ہر اس شخص پر واجب ہے جو عید کے دن اوررات کے کھانے کے علاوہ کچھ اپنے پاس رکھتا ہو۔ جمہور علما کے نزدیک اس شخص کی ملکیت کا نصاب کو پہنچنا ضروری نہیں۔ دراصل اسلام مسلمان کو خوشی غمی کے ہرموقع پر انفاق کا عادی بنانا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صدقۂ فطر کی ادائیگی کرتا ہے خواہ وہ فقیر ہی ہو۔ اگر وہ فقیر ہو تو ایک طرف وہ خود صدقہ ادا کرتا ہے اور دوسری طرف اسے دوسروں سے موصول ہو رہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: اس روز انہیں (فقراء و مساکین کو) کوچہ و بازار میں نکل کر مانگنے سے بے نیاز کردو۔
برادرانِ اسلام! عید کا دن وعید کے دن سے مشابہت رکھتا ہے۔ قرآن حکیم کے الفاظ میں، ترجمہ: ’’کچھ چہرے اُس روز دمک رہے ہوں گے، ہشاش بشاش اور خوش و خرم ہوں گے اور کچھ چہروں پر اس روز خاک اُڑ رہی ہوگی اور کلونس چھائی ہوئی ہوگی۔‘‘ (سورہ عبس ۸۰: ۳۸-۴۱)
تروتازہ اور خوش باش چہروں والے ہی تو ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے صیام و قیام کی نعمت مکمل فرمائی۔ لہٰذا آج کے دن وہ خوش ہوں گے اور یقینا اُن کا حق ہے کہ وہ خوش ہوں۔ دوسری طرف وہ چہرے جن پر کلونس چھائی ہوگی، یہی وہ چہرے ہوں گے جنہوں نے اللہ کی نعمت کی قدر نہ کی اور قیام و صیام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پروا نہ کی۔ ان کے لیے عید کا دن وعید کی حیثیت رکھتا ہے۔
برادرانِ اسلام! ہماری عید کا یہ روز بے ہودگی، بے مقصدیت اور شہوت پرستی کیلئے آزاد ہوجانے کا دن نہیں ہے، جیساکہ بعض قوموں اور ملکوں کا وتیرا ہے کہ اُن کی عید شہوت، اباحیت اور لذت پرستی کا نام ہے۔ مسلمانوں کی عید اللہ کی کبریائی کے اقرار و اظہار اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق استوار کرنا ہے۔ اس دن کا پہلا عمل اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور دوسرا اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا ہے۔
اللہ کی کبریائی تکبیر، ہم مسلمانوں کی عیدوں کی شان ہے۔ یہ تکبیر اللہ اکبر، مسلمانوں کا شعار ہے۔ مسلمان روزانہ پانچ وقت اپنی نماز میں اسی عظیم کلمے کے ساتھ داخل ہوتا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز کیلئے کیا جانے ولا اعلان ’اذان‘ اسی کلمے سے شروع ہوتی ہے۔ نماز کی اقامت کا آغاز اسی کلمے سے ہوتا ہے۔ جانور کو ذبح کرتے وقت مسلمان اسی کلمے کو ادا کرتا ہے۔ یہ بہت عظیم کلمہ ہے۔ اللہ اکبر! ’اللہ اکبر‘ ہر موقع پر مسلمانوں کا شعار ہوتا ہے۔ اللہ اکبر عید کی شان ہے۔ اسی لیے یہ تکبیر پڑھتے ہوئے عیدگاہ کی طرف جائو: اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الٰہ الا اللّٰہ..... الخ
برادرانِ اسلام! رمضان متقیین کا موسم ہے، صالحین کا بازار ہے اور بازار میں کاروبار کرنے والا تاجر خاص موسم میں اپنی سرگرمیوں کو تیز کرتا ہے، لیکن وہ دکان کو اس خاص موسم کے بعد بند نہیں کردیتا۔ رمضان وہ موسم ہے جس میں ہم اپنے دلوں کو تقویٰ و ایمان کے مفہوم و معانی سے بھر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دلوں کو اُس چیز کے حصول کی ترغیب دلاتے ہیں جو اللہ کے پاس ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور نعمتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ رمضان کی عبادتوں کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ انسان رمضان کے بعد بھی اللہ کی رسّی کو تھامے رکھے۔ وہ اپنے رب کے ساتھ استوار ہوئے تعلق کو ٹوٹنے نہ دے۔ بعض اسلاف تو یہ کہتے ہیں کہ بہت بُرے ہیں وہ لوگ جو اللہ کو صرف رمضان ہی میں پہچانتے ہیں۔ لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ مسلمانو! ربانی بنو، رمضانی نہ بنو۔ ایسے موسمی نہ بنو جو اللہ تعالیٰ کو سال میں صرف ایک مہینے کیلئے پہچانتے ہیں۔ پھر اِس کے بعد اُس کی عبادت و اطاعت کا سلسلہ توڑ دیتے ہیں۔
عید کے معنی ہر پابندی سے آزاد ہونا نہیں ہے۔ عید اللہ کے ساتھ جڑے تعلق کو توڑ دینے کا نام نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کا رویہ بن گیا ہے کہ رمضان ختم ہوا تو مسجد کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوگیا۔ عبادت اور اطاعت کے کاموں سے بھی ہاتھ روک لیا۔ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص رمضان کو معبود مان کر روزہ رکھتا اور عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہو کہ رمضان ختم ہوگیا، اور جو اللہ کو معبود مان کر اس کی عبادت کرتا تھا تو اللہ زندہ و جاوید ہے، اُسے فنا نہیں!
جس شخص کے روزے اور اس کا قیام اللہ کی بارگاہ میں قبولیت پا چکے ہوں، اس کی بھی تو کوئی علامت ہوگی! اس کی علامت یہ ہے کہ اس صیام و قیام کے اثرات ہم اس شخص کی زندگی میں رمضان کے بعد بھی دیکھ سکیں گے، ترجمہ:
’’اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ہے، اللہ ان کو اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور انہیں ان کے حصے کا تقویٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘ نیکی قبول ہوجانے کی علامت اس کے بعد بھی نیکی کا جاری رہنا ہے، اور برائی کی سزا کی علامت اس کے بعد بھی برائی کرتے رہنا ہے۔ لہٰذا میرے مسلمان بھائیو! اللہ کے ساتھ دائمی تعلق استوار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اطاعت ہمیشہ کیلئے فرض کی ہے، وہ نافرمانی کو بھی ہمیشہ کیلئے ناپسند کرتا ہے۔ اگر رمضان کا رب وہ ہے تو شوال، ذوالقعدہ اور دیگر مہینوں کا رب بھی وہی ہے۔ اللہ کی معیت میں چلنا ہے تو دائمی چلو، اس سے ہر جگہ ڈرو، خواہ کسی بھی زمانہ میں اور کسی بھی حال میں ہو۔ رسولؐ اللہ کا فرمان ہے: ’’تم جہاں بھی ہو، اللہ سے ڈرتے رہو‘‘۔
برادرانِ اسلام! ہر اُمت کا ایک امتیاز ہوتا ہے اور ہر امتیاز کی ایک کلید ہوتی ہے۔ جب آپ کسی قفل کو کلید کے بغیر کھولیں گے تو وہ ہرگز نہیں کھلے گا۔ اسی طرح اس اُمت کا بھی ایک امتیاز ہے، اور اس امتیاز کی کلید ’ایمان‘ ہے۔ اسے ’ایمان‘ کے ذریعے متحرک کیجیے، حرکت میں آجائیگی۔ ایمان کے ذریعے قیادت کیجیے، یہ پیچھے چلنے کیلئے تیار ہوجائیگی۔ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان کے جذبات کے ذریعے حرکت دی جائے تو ایک بہترین اُمت تیار ہوسکتی ہے۔ یہ بڑی بڑی رکاوٹوں کو عبور کرلیتی ہے۔ یہ خالد بن ولید، طارق بن زیاد اور صلاح الدین ایوبی کا دور واپس لاسکتی ہے۔
یہی وہ چیز ہے جس سے اس اُمت کے دشمن خائف ہیں۔ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ اُمت اسلام کی بنیاد پر متحرک نہ ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک کے بعد دوسری رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ اسلامی تحریکوں کا چہرہ مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان سے دنیا کو ڈراتے ہیں۔ ان کی دعوت سے متنفر کرتے ہیں۔ اُن کے بارے میں افواہوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ان تحریکوں سے زیادہ صاف و شفاف کوئی تحریک نہیں۔ اپنے اسلوب، طریق کار، قیادت و کارکنان کے اعتبار سے یہ مثالی تحریکیں ہیں۔ یہاں ہرچیز شفاف اور ہرعمل میں اخلاص ہے۔ ہر کام میں ایمانی جھلک موجود ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر اہلِ ایمان فرحت محسوس کرتے ہیں۔
برادرانِ اسلام! آج ہم ایک ایسے دور میں زندہ ہیں جو فتنوں کا دَور ہے، آزمایشوں کا دور ہے۔ نبی کریمؐ نے ہمیں اس دور سے ڈرایا ہے جس میں فتنے سمندر کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں ماریں گے، جن کی وجہ سے لوگ اپنے عقائد سے گمراہ ہوجائیں گے۔ رسولؐ اللہ فرماتے ہیں: لوگ ان فتنوں کے کاموں کی طرف اس طرح بڑھیں گے جیسے سخت اندھیری رات چھا جاتی ہے۔ آدمی ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر ہوگا، شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہوگا۔ آدمی دنیا کی بہت تھوڑی قیمت پر اپنے دین کو بیچ دے گا۔ سرکار دو عالمؐ کی احادیث میں جن فتنوں سے ڈرایا گیا ہے اُن میں عورتوں کا سرکش ہوجانا، جوانوں کا فسق میں مبتلا ہوجانا، جہاد کا ترک کر دیا جانا، امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل نہ ہونا، بلکہ اُن پیمانوں ہی کا بدل جانا، یعنی لوگوں کا اچھائی کو بُرائی اور بُرائی کو اچھائی سمجھنے لگنا بھی شامل ہیں۔
برادرانِ اسلام! اس اُمت کیلئے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ قرآن ہی ہے۔ ہمارے اُوپر یہ فرض ہے کہ ہم اس کی طرف واپس آئیں اور اس کی ہدایت پر چلیں۔ ہم نے اُوپر رمضان اور قرآن کی بات کی، تو یہ حقیقت ہے کہ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور قرآن کی برکت، اس کی پیروی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں ہے۔ قرآن تمام انسانیت کیلئے ہرقسم کی گمراہی سے بچنے کیلئے آڑ ہے۔ قرآن اس لئے نازل ہوا ہے کہ انسانوں کے معاملات کا فیصلہ کرے۔ اس کی آیات کو سمجھیں، اس کے فہم میں گہرائی پیدا کریں، اور اسے اپنا اخلاق بنا لیں، جیساکہ نبی کریمؐ کے اوصاف میں بیان کیا گیا ہے کہ قرآن آپؐ کا اخلاق تھا۔ قرآن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔(صٓ ۳۸:۲۹)
برادرانِ اسلام!ہم پوری اُمت کو رجوع الی الاسلام کی دعوت دیں، قرآن کی طرف بلائیں، دین کی طرف بلائیں آج مسلمانوں کو نہ معاشی آسودگی میسر آسکی، نہ سیاسی استحکام نصیب ہوا نہ معاشرتی تعلقات میں بہتری آسکی اور نہ اخلاقی ترقی ہوئی نہ روحانی رفعت حاصل ہوسکی۔ ہمارے پاس اسلامی اصول، ربانی شریعت، محمدی طریق ہائے کار اور عظیم ورثہ موجود ہے۔ ہمیں انہی کی طرف پلٹنا چاہیے۔ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی کتاب اور رسولؐ اللہ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں۔ اسی طرح مسلمان ہوجائیں جیسے کبھی ہوا کرتے تھے، یعنی حقیقی مسلمان، نہ کہ نام کے مسلمان، یا موروثی مسلمان۔ مسلمانوں کو مستعد و متحرک ہونا چاہیے کہ وہ اپنے دین کے راستے میں اپنا سب کچھ نچھاور کرسکیں، اس دین کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ لہٰذا ملت کا ہر فرد اور مسالک کے تمام ذمہ دار اپنے دین کے لیے قربانی دیں۔ کیا ہم اسلام کی راہ میں قربانی نہیں دے سکتے؟