• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہر دور میں بچوں کیلئے عید الفطر کا مطلب عیدی رہا ہے

Updated: April 11, 2024, 1:52 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

پانچ دس پیسوں اور چند آنوں کی عیدی اب ۵۰۰؍ روپوں تک پہنچ گئی ہے۔ پہلے کسی کو دن بھر میں دو روپے عیدی مل جاتی تو وہ خود کو امیر سمجھنے لگتا تھا۔ اگرچہ غربت کا دور تھا لیکن اشیاء سستی ہونے کی وجہ سے جو عیدی ملتی تھی اس سے بچے کافی مزے کرلیتے تھے۔

In ancient times, Eid fairs were held on a very small scale. Photo: INN
پرانے وقتوں میں عید کے میلے انتہائی چھوٹے پیمانے پر لگتے تھے۔ تصویر : آئی این این

شہاب انصاری
shahab.ansari@mid-day.com
کا نام سنتے ہی جن چیزوں کا خیال فوری طور پر ذہن میں آتا ہے وہ ہیں خوشیاں اور نئے کپڑوں کے ساتھ عیدی۔ گزرتے دور اور بدلتے حالات کے اعتبار سے عیدی کی قیمت اور خرچ کرنے کے طریقوں میں فرق آتاچلا گیا لیکن عیدی ملنے کی خوشی اب بھی ویسی ہی ہے جیسی ہمارے آباء واجداد کو ان کے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ 
 تقریباً ۷۰؍ برس قبل کی عیدی کی بات کریں تو اس زمانے میں روپے کی قیمت زیادہ تھی اور اشیاء سستی ملتی تھیں اس لئے عید کے روز دن بھر میں تھوڑا تھوڑا کرکے اگر کسی بچے کے پاس ایک یا سوا روپیہ بھی جمع ہوجاتا تو وہ پھولے نہ سماتا جیسا بہت مالدار ہوگیا ہو اور اگر کوئی بچہ کفایت شعاری سے کام لیتا تو مہینے بھر بھی عیدی سے مزے کرلیتا تھا۔ 
 اُس دور میں عام طور پر لوگ ’جوائنٹ فیملی‘ میں رہتے تھے اور غربت عام تھی۔ ایک ہی گھر میں چچا زاد بھائیوں یا اور دیگر رشتہ دار بہن بھائی ساتھ رہتے تھے۔ ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے تمام بچوں کو ہر کوئی تھوڑی تھوڑی عیدی دیتا تھا۔ اس دور میں عید ملنے رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر جانا بھی عام روایت تھی اور کئی لوگوں سے عیدی ملنے کے باوجود ایک یا سوا روپیہ جمع ہوپاتا تھا لیکن اس وقت اتنی رقم جمع ہونا بھی بڑی بات تھی۔ بچے ایک دوسرے کو اپنی جمع عیدی کے تعلق سے بتاتے اور ایک سے سوا یا دیڑھ روپے تک عیدی جمع کرنے کا مقابلہ ہوا کرتا تھا لیکن اگر کسی بچے کے پاس دو روپے دن بھر میں جمع ہوجاتے تو وہ خود کو راجا سمجھنے لگتا تھا۔ 
 اس نمائندہ نے ایک بزرگ سے اُس دور کے حالات بالخصوص عیدی کے رواج کی بابت جاننے کی کوشش کی تو وہ بتانے لگے کہ جو عیدی ملتی تھی اس کا زیادہ حصہ عید اور باسی عید کو ہی خرچ ہوتا تھا لیکن جسے مَیں زیادہ کہہ رہا ہوں وہ آج کے مقابلے میں کافی کم ہوتا تھا، ایک دن میں ایک آنا یا ۷؍ پیسہ خرچ ہوتا تھا۔ وہ یہ بھی بتانے لگے کہ اس وقت ممبئی سینٹرل سے حاجی علی تک جانے کیلئے ٹرام کی ٹکٹ پر۲؍ پیسہ خرچ ہوتا تھا تو ناگپاڑہ اور آس پاس کے اکثر بچے ٹرام سے حاجی علی گھومنے چلے جاتے تھے اور وہاں کھانے پینے پر کچھ پیسے خرچ کرتے تھے۔ اُس وقت آج کے دور کی طرح عید پر چھوٹے موٹے میلوں کا چلن بھی نہیں تھا اسلئے جو کچھ خرچ ہوتا وہ عام طور پر سفر اور کھانے پینے کی اشیاء پر خرچ ہوتا تھا۔ 
 گرگائوں چوپاٹی کے تعلق سے اُنہوں نے بتایا کہ ٹرام اوپیرا ہائوس تک جاتی تھی اسلئے وہاں جانے کیلئے لوگ بس کو ترجیح دیتے تھے۔ ۱۹۵۱ء تا ۱۹۵۵ء ایک سے دو پیسے میں ’کون والی آئس کریم‘ مل جاتی تھی تو بچے وہی لے کر شوق سے کھاتے تھے۔ اتنے میں اُن کی عید ہوجاتی تھی۔ 
 اگرچہ غربت کا دور تھا لیکن اشیاء سستی ہونے کی وجہ سے جو عیدی ملتی تھی اس سے بچے کافی مزے کرلیتے تھے۔ ایک اور بزرگ سے جاننے کی کوشش کی گئی تو اُن کا کہنا تھا کہ۶۰ء کی دہائی میں مہنگائی میں اضافہ ہونے لگا تھا اور جب عمر بڑھنے کی وجہ سے عیدی ملنا بند ہوئی تب تک بچوں کو ۵؍ سے ۱۰ ؍ روپے یا کسی کسی کو ۱۲؍ روپے تک عیدی ملنے لگی تھی، بس اس سے زیادہ نہیں۔ 
 کوئی بھی دَور ہو، بچوں کو عیدی کی رقم کتنی ملتی ہے یہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ ان کے گھریلو حالات کیسے ہیں۔ ۱۹۵۷ء میں پیدا ہونے والے معروف اداکار سچن پِلگائونکر نے اسی سال فروری میں ڈونگری میں اردو مرکز کے ایک پروگرام میں بتایا تھا کہ ان کے مجروح سلطان پوری سے قریبی تعلقات تھے اور وہ مجروح سلطان پوری کو ابو کہہ کر بلایا کرتے تھے۔ اپنے بچپن کی ایک عید کا تذکرہ کرتے ہوئے اُنہوں نے بتایا تھا کہ مجروح صاحب اُس دَور میں ہر بچے کو ۱۰؍ روپے عیدی دیا کرتے تھے۔ ان کی رہائش جوہو علاقہ میں تھی اور بچے گھر کے قریب جاکر آئس کریم کھاتے تھے۔ جس وقت مجروح سلطان پوری اکیلے ایک ایک بچے کو ۱۰؍ روپے عیدی دیتے تھے اس وقت عام بچوں کو مجموعی طور پر ۱۰؍ روپے عیدی ملتی ہوگی۔ 
 ممبئی خوابوں کا شہر ہے اور بڑی تعداد میں لوگ مختلف ریاستوں سے یہاں آکر بس گئے ہیں۔ اسی نسبت سے ایک صاحب نے بتایا کہ ۷۰ء کی دہائی میں ان کے بچپن میں ان کا کوئی رشتہ دار ممبئی میں مقیم نہیں تھا۔ والد صاحب روزگار کےسلسلے میں ممبئی آگئے تھے اس لئے عام طور پر عید میں صرف والدین کی طرف سے عیدی ملتی تھی جو چار آنے یا آٹھ آنے ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ہم وطن پڑوسیوں کو سیوئیاں دینے جاتے تو وہ بھی کچھ عیدی دے دیتے تھے۔ ایسے افراد جن کے رشتہ دار ممبئی میں نہیں  تھے انہیں دیگر بچوں کے مقابلے کم عیدی ملتی تھی۔ لیکن عام طور پر ۵؍ سے ۱۰؍ پیسوں میں بہت کچھ مل جاتا تھا اس لئے چار سے آٹھ آنے کی عیدی سے بھی بچوں کی خوشیاں دیدنی ہوتی تھیں۔ اس کے بعد ۸۰ء کی دہائی میں بھی لوگ گلی محلوں میں کافی حد تک جوائنٹ فیملی میں ہی رہتے تھے۔ اس دور میں بھی عید اور دیگر تہواروں پر ایک دوسرے کے گھروں پر آنا جانا زیادہ ہوتا تھا اس لئے حیثیت کے اعتبار سے بچوں کے پاس ۵۰؍ روپے سے ۱۰۰؍ روپے تک عیدی جمع ہونے لگی تھی۔ عیدی ملنے پر تھوڑی بڑی عمر کے لڑکے گروہ کی شکل میں سیر سپاٹے کیلئے ممبئی کے مشہور گرگائوں چوپاٹی، حاجی علی، گیٹ وے آف انڈیا جیسے مقامات پر جانے کو ترجیح دیتے تھے اور اب تک ان سب مقامات پر عید میں بے انتہا بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ البتہ اس کے بعد کے وقت میں آہستہ آہستہ بچوں کے پاس عیدی ملنے سے ہزار روپے تک جمع ہونے لگے لیکن عام طور پر متوسط طبقہ کے آج کے بچے بھی ایک ایک رشتہ دار سے فی فرد ۵۰۰؍ روپے عیدی کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK