• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پلوامہ سے کاسٹ مردم شماری تک انتخابی مہم

Updated: April 25, 2023, 10:29 AM IST | Hasan Kamal | Mumbai

راہل گاندھی نے کہا کہ ایک بار سارے ملک میں او بی سی کی مردم شماری کرا لی جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ ریزرویشن کے حقوق تمام او بی سی میں یکساں طور پر بٹ رہے ہیں یانہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کرناٹک میں راہل گاندھی نے کانگریس کی انتخابی مہم کا آغاز اسی کولار میدان سے کیاجہاں دو سال پہلے مودیوں کے بارے میں ان کے ایک جملہ نے ان کو سزا دلوائی تھی۔ انہوں نے اس دن اور اس کے ایک دن بعد بھی جن باتوں اور مسائل کا ذکرکیا وہ سب بہت اہم تھیںاور جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ شایدآئندہ انتخابی مہمات میں ایجنڈا بن کر انتخاب کا رخ بھی پھیر سکیںلیکن ہمیں بہت حیرت ہوئی کہ انہوں نے شروع کی ان ریلیوں میں پلوامہ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس وقت تک ایک سوشل میڈیا ڈی بی لائیوکے روی کانت اور ایک انگریزی چینل وائر پر کرن تھاپر کے ساتھ پلوامہ حادثہ کے وقت ریاست جموںکشمیر کے سابق گورنر جنرل ستیہ پال ملک کے ان انٹر ویوز کی دھوم مچ چکی تھی۔ اس انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ بدنصیب حادثہ مرکزی وزیر داخلہ، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال  اور اس وقت کے ملٹری کمانڈر کی طرف سے انتظامی امور کے بارے میں غلط فہمی یا بھول کا نتیجہ تھا۔ ہمیں امید تھی کہ راہل گاندھی اس کا ذکر اس وجہ سے بھی کریں گے کہ یہ الزامات کانگریس نے نہیں بلکہ اس وقت تک بی جے پی کے گورنر جنرل نے لگائے تھے، جو اپنے عہدے کی وجہ سے حالات کا بخوبی علم رکھتے تھے۔ سچ پوچھئے تو پلوامہ کے بارے میں ستیہ پال ملک کے الزامات میں کتنی سچائی ہے، اس کا پتہ ہمیں اس وقت ہوا جب پاکستان نے ان الزامات پر بات کرنا شروع کردی۔
 راہل کی ریلی کے بعد کانگریس نے کئی صحافتی کانفرنسوں میں پلوامہ کی باتیں کیں اور بتایا کہ اس وقت بھی راہل نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اس بھول یا غلطی کی جانچ کی جائے اور حقیقت سامنے لائی جائے کہ قومی سلامتی کے اس معاملہ میں یہ سب کس نے کیا تھا اور کیوں کیا تھا لیکن اس وقت مودی جی نے دہشت گردی اور فوج کی بے مثال جانبازی جتانے کی ایسی ایسی کہانیاں کہی تھیں کہ ان کے خلاف کوئی بھی تنقیددیش سے غداری کے الزم کا شکار ہوجاتی تھی لیکن وقت گزرنے کے بعد ان باتوں کا ذکر ہوتا رہا، پھر بھی کانگریس نے ابھی تک کوئی ایسی پریس کانفرنس نہیں کی جس میں ملک کے سابق وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور ایسے اہم لیڈروںکا ذکر نہیں کیا جو ماضی میں ایسے معاملات میں ہوا کرتا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ کانگریسی لیڈر یہ بات ضرورکہیں گے کہ اس معاملہ میں نریندر مودی کی چپ ان کے الزامات سے بچنے کا راستہ نہیں بلکہ ان الزامات کے درست ہونے اوراس کے تصدیق کی حیثیت رکھتا ہے۔کم سے کم وزیر داخلہ ہی سے یہ تو پوچھاجا سکتا تھا کہ کیا ستیہ پال ملک نے ان کو فون کرکے سارا حال بتایا تھا اور انہوں نے فوجیوں کی بحفاظت منتقلی کے لئےہیلی کاپٹر یا جہاز دینے سے انکار کردیا تھا۔اگر یہ درست نہیںتو انہیں بتانا چاہئے کہ کیا ستیہ پال ملک کا یہ کہنا درست ہے کہ جب انہوں ڈوبھال سے کہا تو ڈوبھال نے انہیں اس معاملہ میں چپ ہو جانے کو کہا تھا۔ اگرایسا نہیں تھا تو ڈوبھال کو اس کی تردید بھی کرنا پڑے گی۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔کیا امیت شاہ اور ڈوبھال یہ جانتے تھے کہ اس معاملے کو الیکشن کا ایجنڈا بننا تھا؟
 پلوامہ سے قطع نظر راہل گاندھی نے اس انتخابی مہم میں ایک بہت اہم مسئلہ کا ذکیا۔ انہوں نے او بی سی اور ان کی مردم شماری کامعاملہ اٹھایا ۔ کاسٹ مردم شماری ہندوستان کی ایک بہت اہم اور گراں حقیقت ہے ۔ یہ وہ کھیل ہے جسے کانگریس نے کبھی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی یا انہیں اس کی گرانیت کی وجہ سے ادھر جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ بی جے پی نے اسے سمجھا اور اپنے انتخابی ایجنڈوں میں اس کا جی بھر کے استعمال کیا اورفائدہ اٹھایا۔ کاسٹ جسے ہندی میں ’جاتی‘ اوراردو میں ’ذات‘ (حالانکہ ذات کا مطلب کچھ اور ہی ہوتا ہے )کہا جاتا ہے، اس ملک کی صدیوں پرانی ضرورت اور حقیقت رہی ہے۔ سناتن دھرم میں چار کاسٹ ہوتے ہیں۔ برہمن،کشتری ، ویشیھ اورشودر۔ شودروں کے علاوہ یہ سب مل ملا کر سناتن دھرمیوں کی صرف پندرہ فیصد بنتی ہے۔ باقی سب دلت ہوتے ہیں۔ ان میں بھی اونچی نیچی پرتیں ہوتی ہیں ۔ بالکل نیچے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب تو اپر کاسٹ کی خدمت کے لئے ہوتے ہیں۔ ان میں جو معاشی اعتبار سے بہتر ہوتے ہیں انہیں ادر بیک وورڈ کلاسیس یا او بی سی کہا جاتا ہے۔ ہندوستان کے سماجی اور معاشی نظام میں ان کا اہم حصہ ہوتا ہے۔  انہیں اپنی طاقت کا بھی علم ہے، ان کی کبھی مردم شماری نہیں ہوئی۔ برسوں سے یہ او بی سی اپنی مردم شماری کے لئے مطالبہ کررہے تھے۔ ان کی پہلی مردم شماری ۱۹۱۱ء میں انگریزوں کے دور حکومت میں ہوئی تھی۔ اس مردم شماری نے اس وقت بھی ملک کے سماجی نظام میں ہنگامہ پیدا کر دیا تھا۔ ان کالموں کے پڑھنے والوں کو معلوم ہوگا کی ان میں کئی بار کہا گیا یہ مردم شماری ہوئی تو ہندوستان کے سماجی نظام میں زبر دست اتھل پتھل مچ جائے گی۔ راہل گاندھی شاید کانگریس کے واحد لیڈر ہیں جنہوں نے اس حقیقت کو سمجھا ہے۔ انہیں او بی سی کی اہمیت معلوم ہے۔مودی جی خود تو کاسٹ کے بنیا ہیں، لیکن انہوں نے گجرات کے چیف منسٹر بننے کے بعدایک سرکاری حکم نامہ کے ذریعہ مودی برادری کو او بی سی قرار دے دیا اورپھر خود او بی سی کے ووٹ لیتے رہے ۔راہل گاندھی نے کہا کہ ایک بار سارے ملک میں او بی سی کی مردم شماری کرا لی جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ ریزرویشن کے حقوق تمام او بی سی میں یکساں طور پر بٹ رہے ہیں یانہیں۔ یہ بہت اہم مطالبہ تھا ۔اگرایک بار کاسٹ مردم شماری ہو جائے تو ملک کے ہر شعبے میں اپر کاسٹ کے غلبہ پر اثر پڑے گا۔ اس طرح یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ نریندرمودی کے نقش قدم پر چل کر جو لوگ او بی سی ہوئے ہیں وہ کون لوگ ہیں اور ان کا پردہ بھی کھل جائے گا۔راہل گاندھی نے یہ بھی بتایا کہ یو پی اے گورنمنٹ نے ۲۰۱۱ء  میں اوبی سی کی مردم شماری یعنی پہلی مردم شماری کے سو سال بعد ایک ایسی ہی شماری کرائی تھی اور اس کے سارے شمارمودی سرکار کے پاس موجود ہیں۔ اگر انہیں منظر عام پر لے آئیںتو ملک کی سیاست پر اس سے بڑا اثر پڑے گا ۔ کاسٹ کا سب سے زیادہ اثر شمالی ہندوستان میں ہے، اپر کاسٹ سے زیادہ اوبی سی اس ریاست میںہیں اور سیاست پر بھی اس کا اثرہے ، اسی لئے کاسٹ مردم شماری کی سب سے زیادہ مخالفت ہو رہی ہے ۔ یوپی اور بہار میں یہ اثر سب سے زیادہ نظر آتا ہے۔بہار میںتو مردم شماری ہو بھی رہی ہے، لیکن یو پی میں کوئی ایسی سیاسی شخصیت نہیں ہے جو اس مسئلہ کو اٹھا سکے۔پلوامہ سے کاسٹ مردم شماری کا جو نعرہ اٹھا ہے وہ ایک بڑا ایجنڈہ بن جائے گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK