بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ایسی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف صریحاً امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
EPAPER
Updated: February 19, 2024, 1:25 PM IST | ram puniyani | Mumbai
بی جے پی کی ریاستی حکومتیں ایسی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف صریحاً امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔ ایک جمہوری ملک میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
عام انتخابات کا موسم قریب ہے۔ کچھ لوگ، مسلمانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ بی جے پی کے متعلق اپنی رائے پر دوبارہ غور کریں (’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ مورخہ یکم فروری ۲۰۲۴ء میں طارق منصور کا مضمون ملاحظہ فرمائیں )۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہورہی ہے۔ ایسے دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی پسماندہ اور صوفی روایات پر یقین رکھنے والے مسلمانوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، مسلمانوں کی بڑی تعداد بی جے پی کی سماجی بہبود کی اسکیموں سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور نل کنکشن، راشن، مکان اور گیس سلنڈر حاصل کررہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۴ء کے بعد کوئی بڑا فساد نہیں ہوا ہے۔
اس قسم کی اپیلیں نصف حقیقت پر مبنی ہیں اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جن سے ہر مسلمان نبرد آزما ہے۔ طبقہ ٔ اشرافیہ بھلے ہی ان مسائل سے پریشان نہ ہو مگر اس طبقے کے لوگ عام مسلمانوں کے مسائل مثلاً عدم تحفظ، الگ تھلگ پڑ جانے اور مخصوص علاقوں میں محصور ہو جانے کی حقیقت پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ ۲۰۱۴ء کے بعد کوئی بڑا فرقہ وارانہ فسادنہ ہونے کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔ ۲۰۲۰ء میں دہلی کے ہولناک فساد کو کون بھول سکتا ہے جس میں ۵۱؍ افراد نے جان گنوائی جن میں ۳۷؍ مسلمان تھے۔ اس موقع پر بی جے پی لیڈران نے مسلمان مظاہرین کو گولی مارنے کی دھمکیاں دی تھیں ۔
پچھلے کچھ مہینوں سے ہر دن کسی نہ کسی بہانہ سے مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے۔ بی جے پی حکومت والی ریاستیں ، اس معاملہ میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں ۔ دہلی ہائی کورٹ کے سبکدوش چیف جسٹس اے پی شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجرمانہ سرگرمیوں میں صرف مبینہ شرکت کو بنیاد بنا کر کسی کی املاک کو برباد نہیں کیا جاسکتا۔ مویشیوں پر سیاست کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ جانوروں کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کے باعث سڑک حادثات اور تیار فصلوں پر مویشیوں کے حملوں میں اِضافہ ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ، کھلے عام ہجومی قتل کی وارداتیں بھی رونما ہوئی ہیں جس کا پہلا شکار محمد اخلاق کو بنایا گیا تھا۔ اب مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ دو مسلم نوجوانوں ناصر اور جنید کے بہیمانہ قتل کی خوفناک یادیں اب بھی تازہ ہیں ۔ ہرش مندر جنہوں نے مقتولین کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی، لکھتے ہیں کہ میں نے قتل کے ملزم مونو مانیسر کا سوشل میڈیا کھنگالنے کی کوشش کی تو میرے ہوش اُڑ گئے۔ مونو اپنے ساتھیوں سمیت کھلے عام آتشیں اسلحہ لائیو اِسٹریم کرتا تھا، پولیس جیپ کی طرح سائرن بجاتا تھا اور گاڑیوں پر گولی چلاتا تھا۔ یہ گروہ مردوں کو پکڑکر بے دردی سے مارتا تھا۔ نام نہاد گئو رکشکوں کے تشدد کے صحیح اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں مگر ان واقعات سے مسلمانوں میں خوف پیدا ہوا بالخصوص میوات میں ، ڈیری کاروبار سے وابستہ مسلمان مشکل دور سے گزرتے رہے۔
لوَ جہاد کے نام پر بھی ڈر اورخوف کا ماحول بنایا گیا اور جہاد کی نئی اقسام مثلاً یوپی ایس سی اور زمین جہاد کا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ ان میں کورونا جہاد متحیرکن تھا جس کے تحت میڈیا نے تبلیغی جماعت کے اجتماع کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں مسلم سبزی فروشوں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔
اسلاموفوبیا میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں ملک کے مسلمان شہری الگ تھلگ ہوتے جارہے ہیں ۔ ملک کے کئی شہروں میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں اُنہیں فلیٹ نہیں دیا جاتا۔ اچھی سہولیات نہ ملنے سے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالت دگرگوں ہے۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۱۹ء میں معاشی بدحالی کا شکار مسلمانوں کی تعداد ۴۵؍ فیصد ہوگئی جو ۲۰۱۸ء میں ۲۵؍ فیصد تھی۔ مولانا آزاد اسکالرشپ کو ختم کردیا گیا جس سے مسلم طلبہ فائدہ اُٹھا رہے تھے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے۔
قومی شہری رجسٹر، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس اور شہریت ترمیمی قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ آسام سے ملے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ جن ۱۹؍ لاکھ لوگوں کے پاس صحیح کاغذات نہیں تھے، اُن کی اکثریت ہندوؤں پر مشتمل تھی۔ ہندوؤں کیلئے سی اے اے کی حفاظتی شق موجود ہے جبکہ مسلمانوں کیلئے حراستی مراکز تیار کئے جارہے ہیں ۔
بی جے پی کا پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی ظاہر کرنا محض دکھاوا ہے۔ اکثریتی سیاست سے متاثر اور تشدد کا شکار بیشتر افراد پسماندہ مسلمان ہی ہیں ۔ طبقہ ٔ اشرافیہ کو پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے لیکن مجموعی طور پر مسلم سماج کے دونوں طبقات کیلئے سب سے بڑا مسئلہ عدم تحفظ ہے۔ مسلمانوں میں تبدیلی کی توقع غلط نہیں مگر جب سماج اپنے وجود اور اپنے اراکین کی شہریت کیلئے خطرہ محسوس کرے تو ترجیحات کی فہرست میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت نظر انداز کردی جاتی ہے۔
بی جے پی کی ریاستی حکومتیں اب ایسی چیزوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں جو مسلمانوں کے خلاف صریحاً امتیازی سلوک پر مبنی ہیں ۔ رام مندر کے افتتاح کے ساتھ، آر ایس ایس اور بی جے پی کے اکثریت نواز رجحان کو مزید مضبوطی ملی ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمان پہلے ہی کم تھے، اب سیاسی نمائندگی بھی کم ہورہی ہے۔ حکمراں جماعت کا ایک بھی مسلم ایم پی نہیں ہے۔ماضی کی حکومتیں بھی مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکیں ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی، مسلمان مرکوز پالیسیوں کی مخالفت کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں ۔ سچر کمیٹی رپورٹ گواہ ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی فلاح کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں ۔ سچر رپورٹ کے بعد سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ قومی وسائل پر محروم اور پسماندہ طبقات کا پہلا حق ہے۔ اس بیان کو مسخ کرکے یہ تاثر دیا گیا جیسے منموہن سنگھ نے پہلا حق مسلمانوں کا بتایا ہو۔ نتیجتاً حکومت نے مسلمانوں کی فلاح کے اقدامات سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ سماج کے ہر طبقہ میں مفت راشن بانٹ رہی ہے لیکن ایسی اسکیموں اور ریوڑیوں کا تصور حقوق پر مبنی جمہوری نقطہ نظر کے خلاف ہے۔ بی جے پی کا مسلم سماج کو لبھانا اور لالچ دینا اس کی کھوکھلی حکمت عملی کا مظہر ہے۔ درحقیقت، انتخابات کے موقع پر تمام برادریوں کو اپنی پسند و ناپسند پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔