راجستھان میں وزیراعلیٰ کا انتخاب اور نام کا اعلان ہوچکا ہے۔ حقیقتاً یہ انتخاب نہیں نامزدگی ہے کیونکہ قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کرنے کا جو جمہوری طریقہ برسوں سے رائج ہے، اُس پر عمل نہیں ہوا۔ ایسا ہی چھتیس گڑھ میں بھی ہوا ہے اور مدھیہ پردیش (ایم پی) میں بھی۔
راجستھان کے نئے وزیراعلیٰ بھجن لال شرما راجناتھ سنگھ اور وسندھرا راجے کے ساتھ ۔ تصویر:آئی این این
راجستھان میں وزیراعلیٰ کا انتخاب اور نام کا اعلان ہوچکا ہے۔ حقیقتاً یہ انتخاب نہیں نامزدگی ہے کیونکہ قانون ساز پارٹی کا لیڈر منتخب کرنے کا جو جمہوری طریقہ برسوں سے رائج ہے، اُس پر عمل نہیں ہوا۔ ایسا ہی چھتیس گڑھ میں بھی ہوا ہے اور مدھیہ پردیش (ایم پی) میں بھی۔۲۰۱۴ء سے لے کر اب تک کی انتخابی فتوحات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جس بی جے پی کو نوازنے اور شاندار کامیابی سے ہمکنار کرنے میں رائے دہندگان نے بخل نہیں کیا، اُس بی جے پی کو ہر سطح پر جمہوریت کو مستحکم کرنے میں بخل نہیں کرنا چاہئے۔ مگر ایسا نہیں ہورہا ہے۔
البتہ، ایک نئی چیز یہ دیکھنے میں آئی کہ وزیر اعلیٰ کے نام کی چٹھی سابق وزیر اعلیٰ نے پڑھی اور اعلان کیا کہ فلاں رُکن اسمبلی وزیر اعلیٰ ہوگا۔ چھتیس گڑھ میں نئے وزیر اعلیٰ (وشنو دیو سائے) کا نام سابق وزیر اعلیٰ رمن کمار نے، ایم پی کے نئے وزیر اعلیٰ (موہن یادو) کا نام سابق وزیراعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے اور گزشتہ روز راجستھان کے نئے وزیر اعلیٰ (بھجن لال شرما) کا نام سابق وزیر اعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا نے پڑھ کر سنایا۔ یہ طریقہ شاید اس لئے اختیار کیا گیا کہ جن لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے اُن سے اختلاف نہ کیا جاسکے۔
راجستھان میں سمجھا جارہا تھا کہ وسندھرا راجے سندھیا خود وزیر اعلیٰ بننا چاہتی ہیں ، جن کے بارے میں ایسی خبریں بھی عام تھیں کہ اُنہیں اسپیکر کا عہدہ دینے کی پیشکش ہوئی مگر اُنہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ ہی بنیں گی خواہ ایک سال کیلئے بنایا جائے۔ وہ کیسے مان گئیں اور اُن کے وہ تمام حامی جو نتائج ظاہر ہونے سے لے کر کل تک اُن کی رہائش گاہ پر موجود تھے کس طرح رضامند ہوگئے اس کی تفصیل ملنے میں شاید وقت لگے مگر وہی وسندھرا جن کے تیور کل تک باغیانہ دکھائی دے رہے تھے، اُن کا اتنی آسانی سے مان جانا باعث حیرت ہے۔ بی جے پی جمہوریت کو بالائے طاق رکھ کر بالائی فیصلے نافذ کرنے کی روایت پر ۲۰۱۴ء ہی سے عامل ہے جس کی بہت بڑی مثال نوٹ بندی کے اعلان سے دی جاسکتی ہے کہ اتنے اہم (بلکہ سنگین) فیصلے سے وزیر اعظم مودی کی کابینہ کے وزراء تک ناواقف تھے۔ ہم نہیں جانتے کہ پارٹی کے سینئر لیڈر جمہوریت کے اس فقدان پر کیا سوچتے ہیں اور اگر کچھ سوچتے ہیں تو پارٹی میں اسے روبہ عمل لانے کی وکالت کیوں نہیں کرتے یا اُنہوں نے کبھی کوئی اعتراض کیوں نہیں کیا مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بی جے پی میں نہ تو کوئی اعتراض کیا جاتا ہے نہ کہیں سے کوئی آواز اُٹھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر پارٹیاں بھی داخلی جمہوریت سے خالی ہیں ، پارٹی صدر کے انتخاب میں بھی جمہوری عمل کوئی نہیں اپناتا ( کانگریس صدر کی حیثیت سے ملکارجن کھرگے کا الیکشن کافی عرصہ بعد ہوا) مگر فی الحال ملک ہی نہیں دُنیا کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر بی جے پی کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں ۔ اِس کے پاس اقتدار کے نام پر مرکزکے علاوہ ۲۹؍ میں سے ۱۲؍ ریاستیں ہیں جبکہ تین ریاستو ں میں اتحادیوں کے ساتھ حکومت ہے یعنی بی جے پی اس وقت سیاسی طاقت کے معاملے میں غیر معمولی پارٹی ہے، اگر وہ جمہوریت کو پارٹی کے داخلی نظام ہی میں نہیں ، ہر سطح پر نافذ کرے تو اس سے ملک میں جذبۂ جمہوریت فروغ پائے گا اور آنے والا دور نیز آئندہ نسل یہ کہہ سکے گی کہ بی جے پی نے جمہوریت سے صرف حاصل نہیں کیا، اسے بہت کچھ دیا بھی ہے۔