تعجب خیز امر یہ ہے کہ جن لوگوں کو خبریہ چینلوں سے شکایت ہے ان کیلئے خبروں کے حصول کا ذریعہ بھی یہی چینل ہیں اور خبر کے مضمرات تک پہنچنے کا ذریعہ بھی یہی۔ یہ لوگ نیوزچینلوں سے نالاں ہیں مگر انہی پر منحصر بھی ہیں۔
EPAPER
Updated: November 14, 2021, 7:49 AM IST | Aakar Patel | Mumbai
تعجب خیز امر یہ ہے کہ جن لوگوں کو خبریہ چینلوں سے شکایت ہے ان کیلئے خبروں کے حصول کا ذریعہ بھی یہی چینل ہیں اور خبر کے مضمرات تک پہنچنے کا ذریعہ بھی یہی۔ یہ لوگ نیوزچینلوں سے نالاں ہیں مگر انہی پر منحصر بھی ہیں۔
اس ہفتے کی سب سے بڑی خبر ایک اداکارہ سے متعلق ہے جس نے جدوجہد آزادی کو ہدف بنایا اور کہا کہ ہندوستان کو ۱۹۴۷ء میں جو آزادی ملی وہ ایک قسم کی بھیک تھی، اصل آزادی ۲۰۱۴ء میں ملی ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ تنازع کم و بیش چار دن کچھ اس طرح چھایا رہا کہ ان دو پلیٹ فارمس پر کوئی اور موضوع تھا ہی نہیں۔
اس سے قبل جس خبر نے ہم سب کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا، وہ ایک فلم اسٹار کے بیٹے کے بارے میں تھی جسے مرکزی حکومت کی ماتحتی میں کام کرنے والےمنشیات مخالف ادارے نے جیل پہنچا دیا تھا۔ یہ اور اس سے متعلقہ خبریں تین ہفتوں تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چھائی رہیں۔ اسے اتفاق ہی کہئے کہ اِن دنوں مَیں اپنی نئی کتاب کیلئے تحقیقی کاموں میں مصروف تھا اور بالخصوص دو بڑے انگریزی نیوز نیٹ ورکس کا جائزہ لے رہا تھا کہ خبروں کو پیش کرنے کا اُن کا انداز (پیٹرن) کیا ہے۔ اگست ۲۰۲۰ء میں ری پبلک ٹی وی نے جن ۴۵؍ مباحثوں اور خصوصی پیشکش کا اہتمام کیا اُن میں سے ۳۸؍ کا موضوع سوشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی تھا۔ ٹائمس ناؤ نے ۳۵؍ مباحثے یا خصوصی پروگرام سوشانت اور اُن کی دوست پر کئے۔
ایسا ہی ایک جائزہ وہانگ جملے اور کرسٹوفر جیفرلوٹ نے کیا تھا۔ ان کے جائزہ کے مطابق مئی ۲۰۱۷ء اور اپریل ۲۰۲۰ء کے درمیانی عرصے میں ری پبلک ٹی وی نے ۱۷۷۹؍ مباحثوں کا اہتمام کیا جن میں سے نصف تعداد اُن مباحثو ں کی تھی جن میں اپوزیشن کو ہدف بنایا گیا۔ ان میں ایک بھی پروگرام ایسا نہیں تھا جس میں حکومت کی کارکردگی کو آنکنے کی کوشش کی گئی ہو۔ یہاں مَیں حکومت کی طرف جھکاؤ کی کیفیت کو واضح نہیں کررہا ہوں بلکہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ملک کے بڑے صحافتی اداروں کے مشمولات کی نوعیت کیا ہے اور ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ مشمولات سطحی اور غیر اہم ہیں۔ اس کی تصدیق اس طرح ہوتی ہے کہ یہ ایک خبر کو پیش کرنے اور اس پر بحث و مباحثہ کروانے کے بعد آگے بڑھ جاتے ہیں اور پھر مُڑ کر نہیں دیکھتے کہ سابقہ خبر میں، جس پرکافی وقت صرف کیا گیا تھا، کوئی تبدیلی ہے یا نہیں۔ آپ ہی بتائیے ان اداروں نے بعد کے دنوں میں کتنی خبریں سوشانت سنگھ راجپوت کے ’قتل‘ یا ششی تھرور کی بیوی کے ’قتل‘ پر کی؟ ایک بھی نہیں۔ تازہ تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ آرین پر اتنا شوروغل جاری رہا مگر اب کیا ہے؟ اب میڈیا مزید آگے بڑھ گیا اور اب کنگنا رناوت کو موضوع بنائے ہوئے ہے۔ کل ان کے سامنے کوئی اور موضوع ہوگا۔یہ سب کچھ جانتے بوجھتے کیا جاتا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ انہیں صحافتی طور طریقے معلوم نہیں ہیں۔ وہ اپنے سامعین اور ناظرین کی پسند ناپسند کے اعتبار سے ترجیحات طے کرتے ہیں۔
بیرونی ملکوں میںجہاں لوگ طویل عمر پاتے ہیں، چھوٹے بچوں کی موت کے واقعات کم ہوتے ہیں، روزگار کے خاطرخواہ مواقع موجود ہیں، اُجرت اچھی خاصی ملتی ہے، تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم عام ہے، جرائم کی شرح بہت کم ہے، صنفی مساوات مسئلہ نہیں ہے، فرد کی آزادی کی ضمانت ہے اور عدلیہ فعال ہے، وہاں میڈیا اول جلول خبریںپیش کرے یا بے تکے پروگرام نشر کرے تو چل جاتا ہے کیونکہ عوامی زندگی بالخصوص کمزور اور غریب طبقات کی زندگی ان نشریات سے متاثر نہیں ہوتی مگر ہندوستان کے مسائل و معاملات مختلف ہیں۔عمر کے دورانیے کے معاملے میں ہم عراق اور نیپال سے پیچھے ۱۳۶؍ ویں نمبر پر ہیں اورکمسن بچوں کی موت کے معاملے میں مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں سوڈان اور یمن سے خراب منظرنامہ پیش کرتی ہیں۔ بے روزگاری کا جو حال ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ ۲۰۱۳ء کے مقابلے ۲۰۲۱ کے اواخر میں کام کرنے والے افراد کی تعداد ۵؍ کروڑ کم ہوگئی ہے۔ اس مدت میں ۱۳؍ کروڑ نئے افراد روزگار کے متلاشیوں میں شامل ہوئے ہیں مگر جن لوگوں کو روزگار ملتا ہے یا جن کے پاس روزگار ہے ان کی تعداد کافی کم ہوگئی ہے۔ دیگر جمہوریتیں کئی معاملات میں ہم سے کافی بہتر ہیں مگر ہم ہیں کہ دھیرے دھیرے پیچھے جارہے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو ان تمام مسائل و معاملات کااحاطہ کرنا چاہئے مگر آپ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ ناظرین اور سامعین بھی ایسی بامعنی خبروں اور بامقصد مباحثوں کی مانگ نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس کے جواب میں مَیں تو یہی کہوں گا کہ قصور میڈیا کا نہیں ہے۔ قصو ر ان لوگوں کا ہے جو بے معنی اور فضول مباحثوں کو دیکھتے ہیں اور خبروں کے غیر ضروری پہلوؤں کے اُجاگر کئے جانے کو برداشت کرتے ہیں۔ اگر سامعین اور ناظرین طے کرلیں کہ جو بھی غیر ضروری مشمولات ہوں گے ہم اُنہیں دیکھنا بند کردیں گے تو آپ بہت کم مدت میں میڈیا کا رویہ بدلتا ہوا محسوس کریں گے۔
وزراء کا کہنا ہے کہ ملک کے غریب خاندانوں میں چھ کلو اناج اور دال کی مفت تقسیم نومبر کے اواخر میں بند کردی جائے۔ یہ وہ امداد ہے جو گزشتہ سال جاری کی گئی تھی اور اس سے ۶۰؍ فیصد آبادی یعنی کم و بیش ۸۰؍ کروڑ عوام مستفید ہورہے تھے۔ حکومت ہی کا سروے کہتا ہے کہ تغذیہ کی کمی سے بچوں کے وزن اور جسم کی نشوونما میں نقائص کے واقعات بڑھ گئے ہیں مگر ان پر کسی کی توجہ نہیں ہے۔ یہ مسائل ہمیں پریشان نہیں کرتے چنانچہ ٹی وی چینلوں پر ان کا تجزیہ نہ ہونے کا ہمیں کوئی گلہ اور افسوس نہیں ہے۔
مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نعرہ تو حب الوطنی اور دیش بھکتی کا لگاتے ہیں مگر فی کس آمدنی اورجی ڈی پی کم ہونے پر ہمیں کوئی شکایت نہیں ہوتی۔ ہماری فی کس جی ڈی پی بنگلہ دیش سے بھی کم ہوگئی ہے۔ کسی کو ہے فکر؟ ہماری آبادی کے بڑے طبقے کو ان مسائل او ران کے حل سے دلچسپی نہیں ہے۔
کسی ملک کامستقبل کیا ہوتا ہے؟ بحیثیت قوم ہمارا مستقبل کیا ہے؟ ہم کہاں جارہے ہیں؟ اسی روش پر گامزن رہے تو کہاں پہنچیں گے؟ یہ سوال غیر اہم نہیں ہیں۔ خوش گمانی اچھی چیز ہے مگر یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ خوش گمانی کی بنیادیں کیا ہیں۔ معاف کیجئے بہت سے لوگوں کو یہی علم نہیں ہے کہ ہم کہاں آگئے ہیں۔ n