آج کلنٹ کی لا ش سا نتا کروز پہنچ چکی ہو گی اور اس کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہوںگی۔۱۶۰؍ کلو وزنی لاش کا تابوت اٹھائے، رشتہ دار کراہ رہے ہوں گے۔ کلنٹ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہوگا۔
EPAPER
Updated: December 18, 2023, 2:19 PM IST | Raghib Ahmed | Navi Mumbai
آج کلنٹ کی لا ش سا نتا کروز پہنچ چکی ہو گی اور اس کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہوںگی۔۱۶۰؍ کلو وزنی لاش کا تابوت اٹھائے، رشتہ دار کراہ رہے ہوں گے۔ کلنٹ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہوگا۔
آج کلنٹ کی لا ش سا نتا کروز پہنچ چکی ہو گی اور اس کی آخری رسومات ادا کی جارہی ہوںگی۔۱۶۰؍ کلو وزنی لاش کا تابوت اٹھائے، رشتہ دار کراہ رہے ہوں گے۔ کلنٹ ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہا ہوگا۔ ’’دیکھا بھڑو ،تیل نکال دیا ناں‘‘، ماں،بیوی بیٹیاں سوگوار بیٹھی ہوں گی اور وہ دل ہی دل میں فقرے کس رہا ہوگا ’’چلو ان سب سے پیچھا چھوٹا۔‘‘کلنٹ سے پہلی ملاقات بھی ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔ اکتوبر۱۹۸۲ء کی گلف ایئر کی فلائٹ سے مجھے بمبئی سے بحرین اور پھر دمشق جانا تھا۔ یہ میری زندگی کا پہلا ہوائی سفر تھا۔ تیل کے کنووں پر کام کرنے کیلئے مجھے ملک شام بلایا گیا تھا۔ پہلی بار گھر سے دور اتنا طویل سفر کرنا تھا۔ طبیعت پُرملال تھی۔ اکنامک کلاس میں سیٹیں ویسے بھی چھوٹی ہوتی ہیں۔ ایک لحیم شحیم شخص کو دیکھا کہ سوٹ میں ملبوس سیٹ میں پھنسا پھنسا بیٹھا سگریٹ کے مرغولے چھوڑے جارہا ہے۔ تمام ایئر ہوسٹس اس کے انگریزی بولنے کے انداز سے مرعوب دکھائی دیں۔ اس کی خدمت کے لئے دوڑتی پھرتی نظر آئیں۔ جانے اس نے کیا جادو کر دیاکہ اسے فرسٹ کلاس میں شفٹ کر دیا گیا۔ بحرین ایئرپورٹ پر ۴؍گھنٹے ٹرانسٹ تھا اور پھر دمشق کی فلائٹ پکڑنی تھی۔ میں ڈیوٹی فری میں گھوم رہا تھا۔ وہی فلائٹ والا، لحیم شحیم شخص نظر آیا۔میں بھی اس سے کافی مرعوب ہوچکا تھا۔ اس نے خود اپنا تعارف کروایا ’’اپن کا نام کلنٹ مارٹن ہے ،دماش کش جانے کو مانگتا۔‘‘ پھر بحرین سے دمشق، اور دمشق سے فیلڈ کا سفر جیسے منٹوں میں تمام ہو گیا۔ ہم دونوں کو ایک ہی جگہ ، عمر فیلڈ پر کام کرنا تھا اور یہ بھی اتفاق کہ ہم دونوں روم پارٹنر بن گئے۔ یہ سلسلہ سات سال بعد کلنٹ کی موت پر ختم ہوا۔
کلنٹ جاپانی سومو کی طرح لحیم شحیم تھا۔۱۶۰؍ کلو کا بھاری بھرکم جسم،بھرا چہرہ، گوری رنگت،۶؍ فٹ کا نکلتا قد۔ بستر پر سوتا کم کشتی کھیلتا زیادہ نظر آتا۔ کمرہ اسکے خراٹوں کی آواز سے گونجتا رہتا۔ کمرے میں ہمیشہ ایک بے تریتبی چھائی رہتی۔ لباس کرسی پر، بدبودار جرابیں ٹیبل لیمپ پر،بیت الخلا میں اژدہے کی طرح پھنکارتا۔ خود کلامی کرتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں سے بطخ کی چال چلتا۔ خوراک بھی ۱۶۰؍کلو وزنی جسم کے متناسب۔ کھانے بیٹھتا تو دیو مالائی راکشسوں کی یاد تازہ کر دیتا۔ مجھے لگتا کھانے کے لئے جی رہا ہو۔ اس کےکردار کی خوبی تھی مزاج میں بچپنا۔ ہم ۲۰۰؍ہندوستانیوں کے بیچ بے حد مقبول تھا۔ ۱۲؍گھنٹے مسلسل ڈیوٹی ہوتی تھی۔ کبھی چلچلاتی دھوپ تو کبھی برفباری تو کبھی غبار بھرا طوفاں۔ اس پر گھر سے دوری۔ چاروں جانب بیابان اور ریگستان لیکن کلنٹ کے ہوتے ہوئے ہر محفل قہقہہ زار۔ ڈیوٹی سے لوٹنے کے بعد تمام لوگ اپنے اپنے کمروں میں بند ہوجاتے لیکن کلنٹ کہاں چھوڑنے والا تھا، کبھی چلا پکار کر، کبھی دروازوں پر ٹھوکریں مار کر لوگوں کو کمروں سے نکلوا کر اکٹھا کرتا۔ سال میں ۴؍مرتبہ اپنی سالگرہ کا جشن دھوم دھام سے مناتا۔ لذیذ کھانے بنانے میں ماہر کلنٹ کبھی سیخ کباب تو کبھی مرغ تو کبھی بریانی بناتا۔ کبھی کبھی کرکٹ ،فٹ بال کے مقابلے منعقد کرواتا۔ خود کبھی امپائر بنتا کبھی جوکروں کی طرح نیکر پہنے فیلڈنگ کرتا۔ کبھی اس مزے دار انداز میں کمنٹری کرتا کہ ہنستے ہنستے ہم لوگوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے۔ ساتھیوں کے مسائل حل کرنے میں اسے بڑا لطف آتاتھا۔
فرصت کے اوقات میں اکژ روم میں پرانے وقتوں کے قصے چھیڑ دیتا۔۲۰؍ سال پرانی بات ہے جب وہ ایک بہترین ایتھلیٹ ہوا کرتا تھا۔ پہاڑ جیسے جسم کو دیکھ کر کون یقین کرتا۔ پرانے اخبار کے تراشے اس نے جمع کر رکھے تھے اس لئےدیکھ کر یقین کرنا پڑتا۔چھریرے بدن کا کلنٹ وکٹری اسٹینڈ پر کپ اٹھائے ہوئے۔ مائک پر تقریر کرتے ہوئے،ماڈلنگ کرتے ہوئے۔ کبھی اس کی ذہنی رَو بہک جاتی۔ شراب کے تین چار جام پینے کے بعد ماریہ کی یاد تازہ ہو جاتی تو چنگھاڑنے لگتا ’’میری ماں...... ہے یار، میں آخر تک اس پہیلی کو حل نہیں کر پایا لیکن وہ چھٹی پر جاتے وقت ماریہ اور اس کے بچوں کیلئے بیش قیمت تحائف ڈیوٹی فری سے ضرور خریدتا۔
جس طرح اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی کلنٹ کا کردار بھی پیچدہ تھا۔ دمشق آنے کے بعد اس نے کنیڈین شہرت اختیار کرلی۔کہنے لگا’’ماریہ کی بے چارگی نہیں دیکھی جاتی یار‘‘، چھٹیوں میں زیادہ تر وقت کنیڈا میں بتاتا۔ ایک سال کے اندر اندر ہی اس نے ایک عمر رسیدہ مطلقہ سے شادی بھی رچالی جو کسی کمپنی میں سیکریٹری تھی۔ وہ جہیز میں اپنے ساتھ دو جوان بیٹیاں بھی لے آئی۔ بقول کلنٹ اس کی زندگی میں ’۳؍ بچس‘ (کتیوں ) کا اظافہ ہو گیا ہے لیکن شان سے کہتا آلپس (سوئزرلینڈ) کی پہاڑیوں میں ہنی مون منا کر آیا ہوں۔ بیوی ہندوستان میں رہتی ہے، یہ کنیڈا میں کیوں؟ کوئی پوچھتا تو اس کی شامت آجاتی۔ گالی گلوچ پر اتر آتا۔
فیلڈ پربھٹ نامی ٹیکنیشین کی موت، وہ بھی حرکت قلب بند ہونے سے، نے ہم سب ساتھیوں کو بے حد اداس کر دیاتھا۔ ہر کوئی اپنی صحت کے تعلق سے فکر مند ہوگیا۔ کلینک میں باقاعدگی سے بلڈ پریشر اورشوگر چیک کی جانے لگی۔ جم میں رش بڑھ گیا۔ لوگ باقاعدہ سوئمنگ پول بھی آنے لگے۔ کلنٹ بھی باقاعدگی سے صبح کی سیر کو جانے لگا۔ ہانپتے کانپتے ۳؍کلو میٹر کا فاصلہ چیونٹی کی رفتار سے طے کرتا لیکن اس کا بلڈ پریشر یکایک بڑھنے لگا اورخون میں شکر بھی بڑھ گئی۔ دسمبر کے مہینہ ویسے بھی سیریا (شام) میں سورج کبھی کبھی نظر آتا ہے۔ ابر آلود اداس دن تھا۔ کلنٹ ہانپتے کانپتے لوٹا۔ کینٹین میں داخل ہوا تو چند گورے سپروائزر اسے دیکھ کر ہنس پڑے۔ اس کا پارہ آسمان پرپہنچ گیا۔ ۲۰۰؍ ڈالر جیب میں پڑے تھے۔ میز پر پٹخ د ئیے’’میں کرسمس تک زندہ رہوں گا۔ کیا تم اپنی زندگی کی گارنٹی دے سکتے ہو؟‘‘انگریز سپروائزرس کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ میں کانپ گیا۔ کلنٹ کی جیت کے لئے دعا مانگنے لگا۔
کرسمس کے ایک دن پہلے کلنٹ حسب معمول رات کی پارٹی کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ دوپہر کو لنچ کرکے قیلولہ کرنے ہم روم پر لوٹے۔ ۵؍منٹ بعد دیکھا کلنٹ بے چین تھا۔ اسے سانس لینے میں تکلیف ہو رہی تھی۔ ایمبولنس منگوائی لیکن ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے ہی حرکت قلب بند ہوگئی۔ اس کی موت واقع ہو گئی۔ کرسمس کی رات کا جشن کلنٹ کا انتظار کرتا رہا۔ ہم سب تمام رات لاش کے قریب سوگوار بیٹھے رہے۔ پہلی بار گوروں کو شرط جیت کر ملول و مغموم دیکھا۔ کلنٹ کی شرارت بھری آواز کانوں میں گونجتی محسوس ہوئی’’گاڈ اَپن کو ایک دن کی زندگی مل گئی ہوتی تو تیرا کیا بگڑتا۔ بھڑو، گوروں سے شرط تو جیت جاتا۔‘‘