• Fri, 21 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

نوجوانو! ہر امتحان آزمائش ہے آپ کی خود اعتمادی، ذہنی یکسوئی اور حاضر دماغی کی

Updated: February 16, 2025, 2:36 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

ہمارے طلبہ مثبت فکر کے ساتھ اگر آ گے بڑھیں تو ہر امتحان میں ان کی نمایاں کامیابی یقینی ہے۔

No exam is difficult, you just need to prepare for it properly. Photo: INN.
کوئی بھی امتحان مشکل نہیں، بس ضرورت ہے کہ مناسب انداز میں اس کی تیاری کریں۔ تصویر: آئی این این۔

ملک بھر میں امتحان کا موسم ہے، ریاستی بورڈ کے امتحان کے فوراً بعد پروفیشنل کورسیز کے امتحان کا دَور شروع ہوجائے گا۔ نوجوانو!آپ جانتے ہیں کہ دسویں /بارہویں کے امتحانات اسکول اور جونیئر کالج کی سطح کے امتحانات ہوتے ہیں۔ اُن کی تیاری پر اسکول، جونیئر کالج کے ماحول، اساتذہ کا رویہ، ہوم ورک، یونیفارم، والدین کی سختی، شرارتیں اور لاپروائی وغیرہ کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ان امتحانات کے بعد جب طلبہ کر یئر سے براہِ راست وابستہ پروفیشنل کورسیز کے امتحانات کی تیاری کے مراحل سے گزرتے ہیں تب ان کے ساتھ برتاؤ میں اکثر طلبہ سے کو تا ہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ ان سے بچنے کیلئے آئیے ہم ان امتحانات کے دوران پیدا ہونے والے ذہنی تناؤ کے اسباب وعلاج کا جائزولیں :
ذہن کی تبدیلیاں :
اسکول کی سطح کے ایک طالبعلم کا ذہن بہت زیادہ کرپشن یا ملاوٹ کاشکار نہیں رہتا۔ اسکو ل کی ڈسپلن، والدین کی توجہ وغیرہ کی بنا پر اُس کا ذہن بھٹکنے سے بہت حد تک محفوظ رہتا ہے۔ پروفیشنل کورسیز تک پہنچنے پر کئی قسم کی ملاوٹیں اُس کے ذہن کو کرپٹ بلکہ آلودہ بناتی ہیں۔ وہ عناصر جو ذہنی انتشار کا سبب بنتے ہیں وہ ہیں : منتشر خیالی، بے اعتمادی، بے سمتی، مایوسی، آسان راستوں کی تلاش(بلکہ فراڈ)، بے روزگاری سے جوجھتے نوجوان، معاشی بدحالی وغیرہ۔ ظاہر ہے اس سے ذہنی یکسوئی اور زندگی میں پیش رفت میں کمی آجاتی ہے۔ 
بڑے امتحان، بڑے ذہنی تناؤ ؟
اسکول اور جونیئر کالج کی سطح کے امتحانات کی تیاری کے دوران ہی طلبہ کو امتحان نامی چیلنج کو قبول کرنے کی عادت ہو جانی چاہئے، ورنہ جب وہ پروفیشنل کورسیز کے امتحانات کا مقابلہ کرنے جاتے ہیں تب وہ بڑا امتحان یعنی بڑا ذہنی تناؤ، خودساختہ مرض کا شکارہو جاتے ہیں۔ اسلئے ان امتحانات کیلئےآپ کا نظریہ اور رویہ دُور اندیشی پرمبنی ہونا چاہئے۔ 
منصوبہ بندی کیسے ہو؟
زندگی کی سمت کا فیصلہ کرنے والے ان امتحانات کی تیاری کے دوران:
(۱)آپ اپنی فکر کو مکمل مثبت بنائے رکھیں۔ یہ کام آسان نہیں ہے کیوں کہ کبھی اپنے ہی کچھ رشتہ دار اور کبھی کچھ شر پسند طلبہ، سنجیدہ فکر اور کمٹمنٹ رکھنے والے طلبہ کو بہکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اسلئے منفی فکر کے حامل افراد کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہ دیں کیونکہ اُن کے پاس آپ کو اپنے مقصد سے بہکانے اور بھٹکانے کیلئے قصّے کہانیاں تیار رہتے ہیں۔ منطقی دلائل سے وہ آپ کو یقین دلانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں کہ زندگی و زمانے سے مقابلہ مشکل ہے، ایک ہی راستہ ہے کہ ہتھیار ڈال دو۔ بڑے خواب مت دیکھو و غیرو۔ زندگی سے ہار منوانے کیلئے اُن کی ایسی پُر اثر اِسکرپٹ تیار رہتی ہے کہ آپ کے مصمم ارادے بھی لرزنے لگتے ہیں۔ 
(۲) ایک عام طالب علم اپنے والدین، رشتے دار اور اساتذہ وغیرہ کی زبردستی سے پڑھائی اور اعلیٰ تعلیم پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ذہین طالب علم دوسروں کی باتوں اور ترغیبی لیکچرس وغیرہ سے تحریک پاتا ہے البتہ غیر معمولی طالب علم خود ہی ترغیب پاتا ہے۔ ہر انسان کے دل ودماغ میں اللہ تعالیٰ نے خود کو ترغیب دلانے کے بہت سارے عناصر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ اُن کو متحرک کرنا، ان غیر معمولی طلبہ کو سکھایا نہیں جاتا۔ غیر معمولی کا مطلب بے حد ذہین نہیں بلکہ بے حد سنجیدہ اور بے حد محنتی ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ جیت اُنہی کی ہوگی جو انتہائی نامساعد حالات اور مایوس کُن ماحول میں بھی اپنے ذہن کو متحرک اور اپنی نظر کو ہمیشہ اپنی منزل پر رکھیں۔ 
(۳) اعلیٰ تعلیم کے امتحانات کی تیاری کے دوران آپ ہمیشہ یہ یادر کھئے کہ ان امتحانات کے راستے آسان نہیں ہیں البتہ وہ مشکل بھی نہیں ہیں ، وہ صرف چیلنج بھرے ہیں اور نوجوانو! وہ زندگی ہی کیا جس میں چیلنج نہ ہوں، اسلئے اُن چیلنجز سے پَرے زندگی کا تصوّر اور ویژن آپ کے پاس ہوناہی چاہئے۔ ایک پُرانی کہاوت بھی سن لیجئے جو ہر دَور میں پوری پوری کھری اُترتی ہے اوروہ یہ ہے کہ ’’جس میں محنت زیادہ اس میں نعمت زیادہ۔ ‘‘
(۴) زندگی میں فیصلہ کن ثابت ہونے والے اِن امتحانات کیلئے مثبت ذہن سازی کے بعد اب آپ کواُس امتحان کے نصاب سےمتعلق مکمل جانکاری ہو۔ ماہر مصنفینکی کتابوں کا پورا علم ہو۔ بیک وقت درجنوں کتابیں پڑھنےکے بجائے آپ کو ہر موضوع پر ایک مصنف کی کتاب کو اوّل درجہ دینا ہے اور دیگر کتابوں کو ضمنی کتابوں کا۔ جو طلبہ اس سے قبل ان امتحانات میں شریک ہو چکے ہیں ان کے تجربات سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ اسکول کے زمانے میں آپ کی درسی کتاب ۲۰۰؍صفحات کی رہی ہوگی لیکن اب پروفیشنل کورسیز میں یہ کتاب ایک ہزار صفحات پر بھی مشتمل ہوتی ہے۔ امتحان کی رات صرف پانچ گھنٹے کی ہے۔ اب پانچ گھنٹے میں ایک ہزار صفحات کا مطالعہ ہو سکتا ہے؟ نا ممکن ہے لیکن آپ نے ان ایک ہزار صفحات پرپینسل سے جن کی نشاندہی کی ہے اُن پر آپ کی نظر میں پانچ گھنٹوں میں دوڑائی جاسکتی ہیں۔ یہی طریقہ ہے امتحان کے دِنوں میں ایک ہزار صفحات کے اعادہ کا اوروہ ممکن ہو پاتا ہے پینسل کے صحیح استعمال سے۔ 
(۵) الیکٹرانک میڈیا اب بھی کتابوں کا متبادل نہیں بنا ہے البتہ مختلف امتحانات کے تعلق سے وہا ں پر ترتیب و ترغیب دستیاب ہے۔ اُن میں سے بمشکل دس فیصد ہی کارآمد ہوتے ہیں، باقی سب پورٹل پیسہ کمانے کی دکانیں ہیں۔ آپ کو ان کی شناخت ممکن ہونی چاہئے۔ انٹرنیٹ پر آج ہزاروں کتابیں نہیں بلکہ ہزار لا ئبریریاں محفوظ ہیں، اُن سے استفادہ کیلئے محنت درکار ہے البتہ سارا اسٹڈی مٹیریل اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ (۶) پروفیشنل کورسیز کے امتحان کا نصاب کافی وسیع ہوتا ہے اسلئے پڑھائی کرتے وقت بوریت بھی محسوس ہوتی ہے، جو ایک فطری بات ہے، اس سے نمٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ (الف) ایک جیسے مضامین، موضوعات مسلسل نہ پڑھیں (ب) ہر دو گھنٹے کی پڑھائی کے بعد کم از کم ۱۵؍منٹ کا وقفہ لیں ( ج ) ان وقتوں میں الیکٹرانک میڈیا سے دُور رہیں (د) وقفہ میں آنکھیں بند کر کے ذہن کو آرام دیجئے (و) وقفے میں ہلکی پھلکی ورزش بھی ذہنی صحت کیلئے ضروری ہے۔ 
(۷)کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جنھیں کہا تو جاتا ہے ’امتحان گاہ کی غلطیاں ‘ البتہ ان کا براہِ راست تعلق ہماری سوچ اور رویے کے نشیب و فراز سے ہوتا ہے۔ ذہین بچّے امتحان گاہ ( اور زندگی ) میں بڑی بڑی غلطیاں کم کرتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ذہین بچّے مشکل (اور مشکل ترین ) سوالات بھی حل کر جاتے ہیں اور آسان سوالات میں غلطیاں کر جاتے ہیں۔ وجہ؟ بے جا خود اعتمادی، کسی سوال کو ڈھنگ سے نہ پڑھنا پھر بھی یہ سوچنا کہ وہ سوال بس وہی سمجھ پائے ہیں۔ جمع نفی جیسی معمولی غلطیاں ... علاج اس کا یہ ہے کہ (الف ) سوال کو سمجھنا (ب) حل کرنے کے بعد دوبارہ جانچنا (ج) گھڑی کے سیکنڈ کے کانٹے پر بھی برابر نظر رکھنا (و) اُلجھے رہنے کے بجائے آگے بڑھنا ( و )کسی پرچے میں پہلے ۲۵؍ سوالات بھی مشکل ہوں تب بھی یہ نہ سمجھنا کہ پورا پر چہ مشکل ہے۔ 
نوجوانو! ہر امتحان دراصل آپ کی خود اعتمادی، حاضر دماغی اور قوتِ فیصلہ کی آزمائش ہوتا ہے۔ مثبت فکر کے ساتھ آگے بڑھیں تو ہر امتحان میں نمایاں کامیابی یقینی ہے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK