جمہوریت کا چوتھا ستون اگر خستہ اور شکستہ ہوگیا تو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے گا۔ اس چوتھے ستون کی ذمہ داری اُس تعلق کو برقرار رکھنے کی ہے جو واقعہ اور خبر کے درمیان ہے۔ یہ تعلق بالکل آئینے اور عکس جیسا ہے
EPAPER
Updated: December 10, 2020, 1:09 PM IST
|
Editorial
جمہوریت کا چوتھا ستون اگر خستہ اور شکستہ ہوگیا تو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے گا۔ اس چوتھے ستون کی ذمہ داری اُس تعلق کو برقرار رکھنے کی ہے جو واقعہ اور خبر کے درمیان ہے۔ یہ تعلق بالکل آئینے اور عکس جیسا ہے جمہوریت کا چوتھا ستون اگر خستہ اور شکستہ ہوگیا تو جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے گا۔ اس چوتھے ستون کی ذمہ داری اُس تعلق کو برقرار رکھنے کی ہے جو واقعہ اور خبر کے درمیان ہے۔ یہ تعلق بالکل آئینے اور عکس جیسا ہے۔ چوتھا ستون خبر کے ذریعہ واقعہ کو من و عن بیان کرکے نیز قاری اور سامع کی صحیح رہنمائی کرکے اپنی ساکھ بناتا ہے۔ جب کبھی وہ اپنے اس فرض کو فراموش کردیتا ہے تو دُہرا نقصان کرتا ہے۔ ایک نقصان اپنی ساکھ کو کمزور کرنے کا اور دوسرا قاری یا سامع کو گمراہ کرنے کا۔جن مقاصد کے تحت ایسا کیا جاتا ہے اُن میں سے ایک ٹی آر پی ہے جس پر حالیہ مہینوں میں کافی لے دے ہوچکی ہے۔ اس دوران یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ ٹی آر پی کس طرح خریدی جاتی ہے۔
ذرائع ابلاغ میں بالخصوص نیوز چینلس نے اپنے لئے جو راہ متعین کی ہے اُس کے خلاف بے چینی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دہلی کے قریب کسانوں کے جاری احتجاج کے دوران مظاہرین نے جہاں بھی ممکن ہوسکا یہ لکھ کر کہ ’’گودی میڈیا یہاں نہ آئے‘‘ اپنی اسی بے چینی کا اظہار کیا ہے جسے برہمی کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ ہے۔ میڈیا کے ان نام نہاد حلقوں نے مظاہرہ گاہوں کی روزمرہ کی خبریں دینے کے بجائے اتنے بڑے آندولن کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ کسی نے کہا اَنّ داتا کا آکروش، کس کا دوش؟ تو کسی نے یہ سوال اُٹھایا کہ پنجاب ہی کے کسان کیوں احتجاج کررہے ہیں؟ کسی نے دریافت کیا کہ یہ ہنگامہ کسانوں کا ہے یا راج نیتی کا تو کسی نے تبصرہ فرمایا کہ کسانوں کا ذہن بدل دیا گیا ہے (برین واش)۔ ان سرخیوں کے ذریعہ خبر وں کو خبروں کی طرح پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے کوشش یہ کی گئی کہ احتجاج کے اثر کو زائل کیا جائے، اسے سیاسی نوعیت کا باور کرایا جائے اور ملک بھر کے شہریوں کا ذہن بھٹکایا جائے تاکہ ان میں کسانوں کے تئیں ہمدردی نہ پیدا ہو۔
تحریکوں اور آندولنوں کا مقصد صرف اور صرف سیاسی ہو تو تحریک تحریک بن پاتی ہے نہ ہی آندولن کو آندولن جیسے تیور میسر آتے ہیں۔ کسان تحریک یا کسان آندولن کے ارباب حل و عقد نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اگر اس آندولن کو سیاسی پشت پناہی حاصل ہوتی تو کیا مظاہرین اتنی زحمتیں اُٹھاتے جتنی کہ اُنہوں نے اُٹھائیں اور انتظامیہ کی کھڑی کی ہوئی زبردست رکاوٹوں کو عبور کیا؟ کیا غیر معمولی حوصلہ شکنی کے باوجود اتنا جم غفیر جمع ہوتا؟ کیا چھ ماہ کے راشن کے ساتھ مظاہرہ میں شریک ہونے کی تیاری کی جاتی؟ اگر سیاسی ہوتا تو کیا برسراقتدار جماعتوں کی سیاسی طاقت کے سامنے اپوزیشن کی سیاسی طاقت خود کو منوا پاتی؟ مظاہرہ سیاسی ہوتا تو کیا معمر، جوان، مرد، خواتین، گویا سارے مظاہرین کھلے آسمان کے نیچے وہ بھی اتنی ٹھنڈ میں غیر معینہ مدت کیلئے ٹھہرنے کی جرأت کرتے؟ کیا اُنہیں اپنی معاشی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے؟ کام کاج چھوڑ کر کون آئیگا غیر معینہ مدت کے مظاہرہ کیلئے؟
مگر میڈیا کے نام نہاد صحافتی حلقوں نے اس آندولن کو بدنام کرنے کی کوشش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی چنانچہ ہم نے دیکھا کہ آندولن کو خالصتان سے جوڑنے کی بھی کوشش کی گئی۔ کیا اس طرح یہ صحافتی حلقے اپنی ساکھ کو شدید نقصان پہنچانے کے علاوہ ملک کی مایہ ناز صحافتی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ نہیں کررہے ہیں؟