• Wed, 26 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: احرام کا ایک مسئلہ، زائد رکعت اور سجدۂ سہو،ایام بیض کے روزے

Updated: February 25, 2025, 4:04 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) احرام کا ایک مسئلہ (۲) زائد رکعت اور سجدۂ سہو (۳) ایام بیض کے روزے (۴) دوسری جماعت کرنا۔

Before entering Makkah with the intention of Hajj or Umrah, it is necessary to wear Ihram from Miqat. Photo: INN
حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے قبل میقات سے احرام باندھنا ضروری ہے۔ تصویر: آئی این این

احرام کا ایک مسئلہ
 ایک صاحب مدینہ منورہ سے جدہ ہوکر عمرہ کے لئے جانا چاہتے ہیں تو ان کے لئے احرام کا کیا حکم ہے؟ مدینہ منورہ ہی سے احرام باندھ کر جائیں یا جدہ پہنچ کر وہاں سے احرام باندھیں ؟ محمد احمد، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: آفاقی جو کسی میقات کے پہلے رہتے ہیں ان کے لئے تو حکم ہے کہ اپنے میقات سے احرام باندھ کر جائیں تاہم کسی راستے میں دو میقات پڑیں تو وہ پہلے سے احرام نہ باندھ کر اگلے میقات سے احرام باندھ لیں، بغیر احرام کے میقات سے تجاوز پر دم لازم ہوتا ہے البتہ وہ شخص جو میقات سے بغیر احرام کے گزرگیا اگر وہ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد کسی قریبی میقات جیسے طائف وغیرہ کے میقات سے احرام باندھ کر آجائے تو دم ساقط ہوجائےگا۔ مکہ والے اور جو مکہ میں مقیم ہیں وہ حرم میں کہیں سے بھی احرام باندھ سکتے ہیں۔ میقات اور حدود حرم کا درمیانی علاقہ حل کہلاتا ہے۔ حل والے بھی احرام کے لئے میقات جانے کے پابند نہیں ہیں۔ جدہ درمیانی علاقہ ہے جو حل میں داخل ہے۔ مدینہ آنے والا اگر جدہ صرف اس کی گزرگاہ ہے تو اسے مدینہ منورہ ہی سے احرام باندھ کر آنا ہوگا البتہ اگر اس کا ارادہ جدہ میں قیام کا ہے تو اس کے لئے یہ گنجائش ہے کہ جب جدہ سے مکہ جانے کا ارادہ کرے تو وہیں سے احرام باندھ لے تاہم بہتر یہ ہے کہ ایک دو دن کی مشقت برداشت کرلے اور احرام مدینہ منورہ ہی سے باندھ کر آجائے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد کسی قریبی میقات تک جاکر وہاں سے احرام باندھ کر آجائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
زائد رکعت اور سجدۂ سہو 
 عصر میں چار رکعت پر قعدہ اخیرہ بھول کر پانچ رکعت پڑھ لی پھر مع سجدۂ سہو سلام پھیر لیا، نماز صحیح ہوئی یا نہیں ؟عبدالحق، گوونڈی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: چار رکعت والی نمازوں میں قعدۂ اولیٰ( یعنی دورکعت پر بیٹھنا)واجب اور قعدہ ٔاخیرہ (یعنی چار رکعت پر بیٹھنا)فرض ہے۔ واجب چھوٹ جانے تو سجدۂ سہو سے تلافی ہوجاتی ہے لیکن فرض کے ترک سے نماز ہی نہیں ہوتی لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر چوتھی رکعت پر بیٹھا ہی نہیں تھا تو نماز نہیں ہوئی، دوبارہ نماز عصر پڑھنی ہوگی البتہ اگر چوتھی رکعت میں قعدہ اخیرہ کے بعد پانچویں کے لئے بھول سے کھڑا ہوجانے تو صحیح طریقہ یہ ہے کو جب تک پانچویں کا رکوع سجدہ نہ کرلے تو یاد آنے پر واپس بیٹھ جائے اور سجدۂ سہو کرکے نماز پوری کر لے۔ تاہم اگر اس صورت میں پانچویں کے بعد سجدۂ سہو کرکےنمازپوری کی ہو تو فرض ادا ہوجائےگا، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہ رہےگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
ایام بیض کے روزے 
 گزشتہ کسی شمارے میں آپ نے ایام بیض کے روزوں کا ذکر کیا تھا۔ کیا یہ روزے صرف ۱۳، ۱۴ ؍ اور ۱۵؍ تاریخوں میں رکھے جاتے ہیں یا جب چاہیں تین دن مسلسل رکھ لیں نیز یہ فرض یا واجب ہیں یا سنت اور مستحب ؟ صرف شعبان میں رکھے جاتے ہیں یا سال کے ہر مہینے میں ؟ اگر ہر مہینے رکھنے ہیں تو رمضان المبارک میں کیا صورت ہوگی کیونکہ رمضان میں تو پورے ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں۔ عبد اللہ، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ایام بیض کے روزوں کی تاریخیں ہرماہ کی ۱۳، ۱۴؍ اور ۱۵؍ ہی ہیں۔ یہ صرف شعبان اور رجب نہیں ہر قمری مہینے میں رکھنے کی ہدایت ہے۔ یہ صحیح ہے کہ رمضان کا پورا مہینہ فرض روزوں کے لئے خاص ہے لیکن جو لوگ ہر مہینے پابندی سے یہ روزے رکھتے ہیں ان کو فرض روزوں کے ضمن میں ایام بیض کے روزوں کا ثواب بھی مل جاتا ہے۔ ایسا سوال ذی الحجہ کے متعلق بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ۱۳؍ذی الحجہ کا روزہ منع ہے اس کا جواب بھی واضح ہے کہ ۱۳؍کا روزہ من جانب اللہ منع ہے تو بندہ اس کے بعد صرف ۱۴؍ اور ۱۵؍ ذی الحجہ کو روزے رکھ لے۔ اس صورت میں اسے ایام بیض کا ثواب مل جائےگا۔ 
 یہ روزے نہ فرض ہیں نہ واجب لیکن حدیث پاک میں ان کی ترغیب دی گئی ہے۔ ابو ملحان قیسی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا جس نے ایام بیض کے روزے رکھے اسے پورے سال کے بقدر اجرملےگا۔ (سنن ابوداؤد) روایت میں آپ صلی اللہ علیہ سے ان روزوں کی ترغیب کا بھی ذکر موجود ہے علماء نے اس تر غیب کو استحباب پرمحمول کیا ہے لہٰذا فرض واجب یا سنت کے علاوہ انھیں مستحب کہنا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
دوسری جماعت کرنا 
  کیا مسجد میں دوسری نماز جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
انوار الاسلام، کولکاتہ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: حضرات صحابہ کرام کا معمول تھا کہ اگر کبھی اتفاقاً جماعت چھوٹ جاتی تو انفرادی طور سے اپنی نماز ادا کرلیتے تھے لیکن مسجد میں دوسری جماعت نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ خود حضورﷺ کسی مشغولیت کے سبب تاخیر سے پہنچے تو مسجد میں دوسری جماعت نہیں بلکہ حجرہ مبارکہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ یہی معمول عہد رسالت سے اب تک صلحائے امت کا ملتا ہے لہٰذا اگر کسی وجہ سے جماعت چھوٹ جائے تو فرد واحد ہے تو تنہا مسجد ہی میں پڑھ لے تاکہ کم ازکم مسجد کا ثواب مل جائے، زیادہ لوگ ہوں تو حدود مسجد کے باہر کسی مناسب جگہ پر جماعت کریں لیکن جہاں ایسی کوئی جگہ نہ ہو وہاں تنہا تنہا پڑھ لیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK