• Mon, 27 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

بینک لون لے کر مکان خریدنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے

Updated: January 25, 2025, 11:25 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

اس وقت مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، خاص طور پر ممبئی شہر میں مکانوں کی قیمت اور مکان خریدنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایسی صورت میں اگر دور دراز کے علاقوں میں سستا مکان مل سکتا ہے

It is important to consult a local authoritative scholar before taking out a loan. Photo: INN
لون لینے سے قبل کسی مقامی مستند عالم سے مل کر مشورہ کرنا ضروری ہوگا ۔ تصویر: آئی این این

اس وقت مہنگائی آسمان چھو رہی ہے، خاص طور پر ممبئی شہر میں مکانوں کی قیمت اور مکان خریدنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایسی صورت میں اگر دور دراز کے علاقوں میں سستا مکان مل سکتا ہے تو آمدورفت میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ انسان کو اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کیلئے وقت ملنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر جہاں ملازمت ہے وہاں کے قریبی علاقوں میں مکان لیا جائے تو کرایہ اتنا زیادہ ہوتا ہے اس کی ادائیگی بمشکل ہو پاتی ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی صورت میں کرایہ نہ دے کر نئی بلڈنگ میں فلیٹ بک کرا لے اور اس کی قسط بینک کو ادا کرتا رہے، یعنی جو رقم کی مقدار وہ کرائے میں دے گا اگر وہ بینک کو ماہانہ ادا کرتا رہے تو چند برس بعد ایک فلیٹ کا مالک بن سکتا ہے۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس شخص کے لئے بینک سے مکان خریدنا درست ہو سکتا ہے یا نہیں ؟ 
عبد الحکیم، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اسلام نے سوداور سودی لین دین کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ حدیث پاک کے مطابق سود لینا تو حرام ہے ہی سود دینا بھی منع ہے بلکہ ایک روایت میں سودی دستاویزات لکھنے اور سودی معاملات کے گواہوں کو بھی برابر کا شریک جرم اور لعنت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ تو یقینی امر ہے کہ جو لوگ بذات ِخود صاحب حیثیت ہیں ان کے لئے بینک لون کی کوئی گنجائش نہ ہے نہ ہو سکتی ہے تاہم یہ بھی یقینی طور سے ثابت ہے کہ سودی کاروبار کرنے اور سودی قرض دینے کی کسی صورت میں بھی گنجائش نہیں لیکن بعض مرتبہ انسان سودی قرض لینے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ اگر انتہائی درجے کی سخت مجبوری ہے کہ یہ قرض نہ لیا تو زندگی دشوار ہوجائے گی، اس صورت میں سودی قرض لے کر مجبور انسان اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ لیکن اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ سود لینا جائز ہوگیا بلکہ ایک شرعی اصول ہے الضرورات تبیح المحظورات جس کا مفہوم یہ ہے کہ شرعی ضرورت کے ممنوع کے ارتکاب کی گنجائش ہوسکتی ہے لہٰذا یہ صورت حال ہو تو بینک لون کی بھی گنجائش ہوگی، اسی اصول کے تحت قانونی ضرورت کی صورت میں بقدر ضرورت لون کی علماء نے اجازت دی ہے لیکن ان صورتوں میں بھی پہلے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ کوئی جائز صورت نکل آئے جیسے کسی سے غیر سودی قرض لینے کی کوشش کرے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کسی سے بقدر ضرورت مثلاً نصف یا کم زیادہ رقم لے کر اس کو فلیٹ میں ساجھیدار بنا لیں پھر ہر ماہ اس کے حصے کے تناسب سے اسے کرایہ دیتے رہیں (اگر وہ کچھ کم کرایہ لینے پر رضامند ہوجائے تو اور آسان ہوسکتا ہے مگر اس کیلئے اسے مجبور نہیں کرسکتے) پھر ہر ماہ کرائے کے بدلے کچھ زائد رقم اسے دی جاتی رہے اس طرح ممکن ہے فلیٹ پر قبضہ ملنے تک اس کی رقم بھی ادا ہوجائے کیونکہ جیسے جیسے اصل رقم کم ہوگی تو کرایہ بھی کم ہوتا جائیگا چنانچہ آدھی رقم کی ادائیگی کے بعد اس کا حصہ اور اس کا کرایہ بھی کم ہوتا جائےگا۔ اس طرح کی کوئی صورت ممکن نہ ہوسکے تو بدرجہ اشد مجبوری لون کی گنجائش ممکن ہوگی، لیکن لون لینے سے قبل کسی مقامی مستند عالم سے مل کر مشورہ ضرور کیجئے۔ آپ انہیں اپنی مجبوری، ضرورت اور حقیقی آمدنی بتاکر شرعی رہنمائی طلب کریں ۔ اگر آپ واقعی مجبور اور ضرورت مند ہوئے تو وہ مفید شرعی حل کی طرف رہنمائی ضرور کرینگے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
 سفر میں قصر کی حد
  سفر میں قصر کتنے کلومیٹر پر ہے اور ایک میل کتنے کلومیٹر کا ہوتا ہے اور سفر کے بیان میں منزل کا کیا مطلب ہے؟ عمار ساجد، نیو دہلی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق : سفر کی مسافت فقہاء نے تین دن کے سفر کو قرار دیا ہے۔ ایک دن میں معتدل رفتار سے مسافر جتنی مسافت بآ سانی سے چل سکے اسے ایک منزل کہا گیا ہے۔ منزل کی شناخت کا ایک پیمانہ فرسخ ہے لیکن فرسخ کی تعیین میں بھی کئی قول ہیں، اس کے علاوہ آسان پیمانہ میل ہے۔ میل سے کون سا میل مراد ہے اور ایک میل کتنے کلو میٹر ہوتا ہے اصل اس پر توجہ دی جائے تو یہ بہتر ہوگا۔ ویسے ایک قول ۷۲؍کلو میٹر بھی ہے لیکن دو قول زیادہ راجح اور مشہور ہیں ، ۴۸؍میل انگریزی مراد لیا جائے اس صورت میں مسافت سفر تقریباً ۸۲؍کلو میٹر ہوگی لیکن میل شرعی مراد لیں تو مسافت سفر تقریباً ۷۸؍ کلومیٹر ہوتی ہے۔ دونوں طرف علماء اور ان کی تحقیقات ہیں۔ بندے کو جس پر اعتماد ہو اس کے فتوے پر عمل کر سکتا ہے البتہ راقم الحروف کی تر جیح ۸۲؍کلو میٹر ہے واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK