شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) ادھار میں نفع کا تناسب (۲) زیورات میں وراثت (۳) پیشگی کرایہ وصولی (۴) دلالی کی رقم سے عمرہ
EPAPER
Updated: April 19, 2024, 5:06 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) ادھار میں نفع کا تناسب (۲) زیورات میں وراثت (۳) پیشگی کرایہ وصولی (۴) دلالی کی رقم سے عمرہ
ادھار میں نفع کا تناسب
ہم تاجر لوگ ادھار خرید و فروخت کرتے ہیں تو ادھار خرید و فروخت میں کتنے فیصد منافع وصول کیا جا سکتا ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی اس تعلق سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟ عبداللہ حسین، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: سوال واضح نہیں ہے لیکن مارکیٹ میں رائج صورت کے مطابق جب خریدار نقد قیمت دے کر خریدتا ہے تو اسے مارکیٹ کی قیمت کے حساب سے مال ملتا ہے مگر جب ادھار لیتا ہے تو تاجر ہفتہ مہینہ دومہینہ کی رعایت سے ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کردیتا ہے۔ یہ صورت شرعاً درست نہیں، البتہ خریدار نقد لے گا یا ادھار یہ طے ہونے کے بعد قیمت بھی اس طرح طے ہو جائے کہ بعد میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو شرعاً اس کی گنجائش ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
زیورات میں وراثت
زید کی دو بیویاں تھیں، دونوں کا انتقال ہوچکا ہے۔ زید کا انتقال پہلے ہوچکا تھا۔ زید نے اپنی حیات میں اپنی دوسری بیوی کو کچھ سونے کے زیورات بنوا کر دیئے تھے۔ وجہ تنازع یہی زیورات ہیں۔ کیا پہلی بیوی کے بچے بھی دوسری بیوی کے زیورات میں حصے دار ہوں گے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب مطلوب ہے۔ محمد سراج، ممبئی
یہ بھی پڑھئے: اخلاقی انحطاط کے تدارک میں ’ذکر الٰہی‘ کا کردار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:صورت مسئولہ کی رو سے زید نے اپنی زندگی میں (غالباً پہلی بیوی کے انتقال کے بعد)دوسری بیوی کو کچھ زیورات بنواکر دیئے تھے۔ اصولی طور پر اگر صرف پہننے کے لئے بنواکر دیئے جبکہ مالک زید ہی تھا تو دونوں کے بچے حقدار ہوں گے لیکن زیورات بنواکر اسے مالک بھی بنادیا تھا تو پہلی بیوی کے بچے حقدار نہ ہوں گے۔ زید کی نیت کیاتھی یہ توزید ہی بتاسکتاتھا یاپھر اس نے کوئی صراحت کی ہو اور اس کے گواہ موجود ہوں۔ بظاہر صورت مالک بناکر دینے کی نظر آتی ہے۔ واللہ أعلم وعلمہ اتم
پیشگی کرایہ وصولی
میری جائیداد کمرشل ایریا میں ہے، جس پر میں نے دکان اور مکان بنائے ہیں اور انہیں کرایہ پر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کرایہ دار کو جب مکان یا دکان کرایہ پر دیتے ہیں تو کرایہ دار سے دوقسم کی ایڈوانس رقم لیتے ہیں۔ اول یہ کہ کرایہ دار کچھ رقم بطورِ سیکورٹی ہمارے پاس رکھتا ہے پھر جب کرایہ دار دکان یا مکان چھوڑ دیتا ہے تومالک مکان یا دکان سیکورٹی کی رقم واپس کردیتا ہے۔ کیا یہ رقم لینا اور اس کو اپنے استعمال میں لانا یا اس رقم کو اپنے کاروبار میں لگانا جائزہے؟دوسرا یہ کہ ہم کرایہ دار سے کچھ رقم بطورِ ایڈوانس کرایہ لیتے ہیں اور اُس وقت تک کرایہ دار پر کرایہ نہیں بڑھاتے تاوقتیکہ ایڈوانس کرایہ کا کل رقم ماہانہ کرایہ میں ادا نہ ہو جائے۔ کیا اس طرح کا ایڈوانس لینا جائزہے؟اور آخری سوال یہ کہ ہم جو ماہانہ کرایہ لیتے ہیں جس سے ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ کاروبار میں بھی لگاتے ہیں کیا اس پر زکوٰۃ آتی ہے؟ فہیم الدین، اورنگ آباد
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کرایہ دارسے بطور ضمانت یعنی سیکورٹی کے نام پر جو رقم لی جاتی ہے اس میں شرعاً حرج نہیں، استعمال کے متعلق بیشتر کرایہ دار کو یہ علم بھی ہوتا ہے کہ مالک مکان اسے استعمال بھی کرسکتا ہے اور مالک مکان بھی اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں کرتا لہٰذا بطورِ عرف یہ اجازت شمار ہوگی البتہ یہ ضمان میں داخل ہو جائیگی، امانت نہ رہےگی۔ دوسری صورت یعنی ایڈوانس بطور کرایہ رقم لینے کی صورت میں مالک مکان اپنے معاہدے کی رو سے اس امر کا پابند ہے کہ جب تک یہ رقم باقی ہے کوئی اضافہ نہ کرے۔ زکوٰۃ ہر مہینہ کے کرائے پر واجب نہیں ہوتی بلکہ نصاب کا سال پورا ہونے پر اس میں سے جو باقی ہوگی وہ بھی نصاب کا حصہ بن جائیگی اور سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
دلالی کی رقم سے عمرہ
کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص علاقے میں محنت کر کے عمرہ کے لئے آدمی تیار کرتا ہے اور پاسپورٹ وغیرہ بنوانے کے لیے ان کے ساتھ جاتا ہے، اور آگے ایجنٹ کے ساتھ اس کی بات ہوتی ہے کہ دس آدمی تم لے آؤ میں تم کو فری لے جاؤں گا، کیا اس طرح جانا جائز ہے؟ عبدالرحمٰن، بھیونڈی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں جبکہ یہ پاسپورٹ وغیرہ بنوانے میں بھی محنت کرتا ہے اور اپنی ضمانت پر لوگوں کو عمرہ کے لئے آمادہ کرکے ٹور والوں کے حوالے کرتاہے، اگر اس معاملے میں مزید کوئی ایسی شرط نہ ہو جو کسی تنازعے کا سبب بن سکے تو اس کے ٹور والوں کے ساتھ جانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جو آدمی اس نے اپنی ضمانت پر دیئے ہیں ایک طرح اس کا ان کے ساتھ ہونا ضروری بھی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم