شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)وصیت سے عاق کردیئے گئے بیٹے کا وراثت میں حق (۲)متبنیٰ کا وراثت میں استحقاق (۳)قعدۂ اخیرہ چھوٹ جائے تو نماز کا حکم(۴)دن، وقت یا آواز کو منحوس سمجھنا۔
EPAPER
Updated: December 27, 2024, 12:36 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱)وصیت سے عاق کردیئے گئے بیٹے کا وراثت میں حق (۲)متبنیٰ کا وراثت میں استحقاق (۳)قعدۂ اخیرہ چھوٹ جائے تو نماز کا حکم(۴)دن، وقت یا آواز کو منحوس سمجھنا۔
وصیت سے عاق کردیئے گئے بیٹے کا وراثت میں حق
زید کے وارث اس کے دولڑکے اور دولڑکیاں ہیں۔ لڑکے دونوں باپ کے فرماں بردار ہیں، بظاہر ناراضگی کی کو ئی خاص وجہ بھی نہیں تھی تاہم زید نے آخری وقت میں جو وصیت لکھائی اسے پڑھاگیا تو پتہ چلا کہ مرحوم نے ایک بیٹے کو عاق کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا یہ لڑکا شرعاً جائداد سے محروم ہوجائےگا؟ یہ وصیت مرنے سے چند روز قبل لکھائی گئی تھی۔ اس میں جن گواہوں کے دستخط ہیں وہ اس بات کی تو گواہی دے رہے ہیں کہ تحریر ان کے سامنے وکیل نے لکھی تھی اور دستخط بھی ان لوگوں کے ہیں لیکن عاق کرنے کا نہ انہیں کوئی علم ہے نہ ہی اس وصیت میں اس کا کوئی تذکرہ ہے۔ اس صورت حال میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ جائیداد کاوارثوں کے درمیان کس طرح بٹوارہ کیا جائے گا؟عمر شریف، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: عاق کے لفظی معنی ہیں نافرمانی کرنے والا جبکہ عوام میں اس کا مفہوم جائیداد سے بے دخلی مشہور ہے جس کا شریعت میں کوئی اعتبار نہیں۔ کوئی شخص کسی وارث کو نافرمان قرار دے اس حد تک تو اعتبار ہوگا لیکن اسلامی قانون وراثت میں نہ اس کا کہیں کوئی تذکرہ ہے نہ اعتبار، شریعت نے وارثوں میں جس کا جو حصہ مقرر کیا ہے اس کا سبب ہے مورث سے رشتہ۔ شریعت کے اصولوں کے مطابق وارث نافرمان ہو تب بھی اسے وہ حصہ لازماً ملےگا جو اس کے لئے قرآن و حدیث سے ثابت اور ان کے حکم کے مطابق ہے لہٰذا صورت مسئولہ میں دیگر وارثوں کی طرح یہ لڑکا بھی جائیداد میں حقدار ہے۔ باپ کے عاق تحریر کرنے کے باوجود یہ وراثت سے محروم نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے حصے خود مقرر کئے ہیں، مورث کی وصیت وغیرہ پر نہ اسے موقوف کیا ہے نہ اسے کسی کو محروم کرنے کا کوئی اختیار دیا ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں اگر شرعی وارث صرف یہی دو لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں تو حقوق متقدمہ کے بعد جائیداد منقولہ غیر منقولہ سب کے چھ سہام (حصے) بناکر دونوں لڑکیوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک اور دونوں لڑکوں میں سے ہر ایک کو دو دو سہام ملیں گے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
متبنیٰ کا وراثت میں استحقاق
زید لاولد تھا۔ اس نے اپنے بھائی بکر کے ایک لڑکے خالد کو گود لے لیا۔ بکر کے دو لڑکے اوربھی ہیں ۔ تمام رشتے داروں کو اس بات کا علم تھا اورسبھی یہ سمجھ رہے تھے کہ خالد ہی زید کا وارث ہوگا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد زید کو بھی اللہ نے ایک بیٹے سے نواز دیا۔ دوسال بعد مزید ایک لڑکی بھی پیدا ہوگئی۔ زید نے خالد سمیت سب بچوں کو لکھایا پڑھایا، خالد کی شادی بھی اسی نے کی اور اس کے لئے یہ وصیت بھی کی کہ میری جائیداد میں یہ بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ کچھ عرصہ قبل یکے بعد دیگرے زید اور بکر دونوں بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے، اب مسئلہ وراثت کا ہے، اسی کے پیش نظر سوال ہے:
(۱)خالد زید کی جائیداد میں حصہ دار ہوگا یا نہیں اور اسے حصہ ملےگا تو کتنا؟ (۲) اس صورت حال میں کیا خالد، بکر کے ترکہ میں بھی وارث ہوگا؟ اور (۳)لے پالک کا شرعی حکم کیا ہے، کیا شریعت کسی دوسرے کی اولاد کو گود لینے کی اجازت دیتی ہے؟ جاوید احمد، نئی دہلی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: صورت مسئولہ میں (۱) خالد، زید کا شرعی وارث نہیں ہے بلکہ شرعی وارث وہ اپنے حقیقی باپ بکر کا ہے لیکن زید نے اس کے لئے جو وصیت کی ہے اس کی رو سے خالد کو زید کے ترکہ میں ایک تہائی کا استحقاق ہوگا۔ (۲) بکر کا وہ حقیقی وارث ہے اس لئے سہام شرعیہ کے مطابق اسے بکر کے ترکہ سے بھی حصہ ملےگا۔ (۳)لے پالک کو اسلام نے شرعی وارث نہیں مانا ہے اس لئے ولدیت کے خانے میں گود لینے والے کا نام نہیں آئےگا، جو حقیقی باپ ہے ولدیت میں اسی کا نام رہےگا البتہ کوئی دوسرےکی اولاد کی پرورش کرے اس میں کوئی حرج نہیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
قعدۂ اخیرہ چھوٹ جائے تو نماز کا حکم
ایک شخص نے مغرب کی نماز شروع کی۔ دورکعت کے بعد (قعدۂ اولیٰ میں )تو بیٹھا مگر تیسری رکعت میں بیٹھنے کے بجائے بھول کر کھڑا ہو گیا، بعد میں یاد آنے پر واپس نہ بیٹھتے ہوئے مزید دورکعتیں پڑھ کر قعدۂ اخیرہ کے لئے بیٹھا اور سجدہ ٔ سہو کے بعد سلام پھیردیا۔ اس نے اپنے طور پر یہ قیاس کیا کہ تین رکعتیں مغرب کے فرض کی اور باقی دو رکعتیں نفل ہوجائیں گی۔ نماز کے بعد پوچھنے پرکسی نے کہا نماز ہوگئی اور کسی نے کہا کہ نہیں ہوئی۔ کیا اسے نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی یا نہیں ؟ عابد الرحمٰن، کلکتہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: تین یا چار رکعت والی نمازوں میں دو رکعت پر (التحیات کے لئے)بیٹھنا قعدہ ٔاولی کہلاتا ہے جبکہ آخری رکعت پر بیٹھنے کو قعدۂ اخیرہ کہا جاتا ہے۔ قعدۂ اولیٰ واجب ہے سجدۂ سہو سے جس کی تلافی ممکن ہے لیکن قعدہ اخیرہ فرض ہے۔ اگر یہ چھوٹ جائے تو نماز ہی نہیں ہوتی۔ صورت مسئولہ میں اس شخص کے لئے تیسری رکعت پر بیٹھنا ضروری تھا جبکہ یہ تیسری رکعت پر بیٹھا ہی نہیں، اس صورت حال میں چونکہ فرض ادا نہیں ہوا اس لئے نماز نہیں ہوئی لہٰذا نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
دن، وقت یا آواز کو منحوس سمجھنا
اگر رات میں کسی کے یہاں بلی اس طرح روئے جس طرح چھوٹا بچہ روتا ہے تو کیا کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں اس گھر میں یا اس گھر کے لوگوں پر اترتی ہیں ؟.بچپن میں اور اب بھی یہ بات سننے کو ملتی تھی، اب بھی سنائی دیتی ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔ نور الاسلام، کلکتہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اسلامی تعلیمات کے مطابق قادر مطلق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اسباب اور واقعات سب اس کے قبضۂ قدرت میں ہیں، انسان کے ساتھ اچھا برا جو بھی ہوتا ہے اس میں اسباب کا کوئی نہ دخل ہوتاہے نہ ایسا کو ئی عقیدہ رکھنا جائز ہے لہٰذا کسی دن وقت یا واقعے کو منحوس سمجھنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسی کا نام بد شگونی اور بدفالی ہے، جیسے سفر کے لئے روانہ ہونے کے وقت مثلاً بلی یا کوئی خاص شخص سامنے آجائے تو اسے منحوس سمجھ کر سفر کو ملتوی کرنا۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی رو سے یہ جاہلیت کاعقیدہ ہے لہٰذا بلی کی آوازکو سن کر یہ سمجھنا کہ اس گھر یا گھر والوں پر بلائیں نازل ہونگی اسکی کوئی حقیقت نہیں۔ ایسا سمجھنا قضا و قدر پر ایمان کے منافی اور اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم