• Mon, 30 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا جبکہ عورت کیلئےمطالبہ خلع وفسخ کا متبادل موجود ہے

Updated: October 11, 2024, 4:46 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) ہیوی ڈپازٹ اور کرایہ (۲) طلاق کے دو گواہ۔

The presence of witnesses in marriage is a Shariah order. Photo: INN
نکاح میں گواہوں کی موجودگی شرعی حکم ہے۔ تصویر : آئی این این

ہیوی ڈپازٹ اور کرایہ
میں ملازمت پیشہ آدمی ہوں۔ آمدنی زیادہ نہیں ہے اور ممبئی شہر میں کرائے کا مکان لے کر رہتا ہوں، اب کرایہ دوں یا خرچ چلاؤں، یہ پریشانی ہے۔ اگر کوئی صاحب خیر مجھے کچھ رقم دے دیتا ہے اور میں اسے ہیوی ڈپازٹ کے طور پر کسی کو دے دوں تو کیا میں وہ رقم بطور ہیوی ڈپازٹ دے کر بغیر کرائے کے رہ سکتا ہوں ؟ شریعت اس سلسلے میں کیا کہتی ہے؟ فیاض احمد، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ہیوی ڈپازٹ کا مسئلہ جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی عام بھی ہوچلا ہے۔ شرعی اصولوں کے مطابق اس کی نوعیت رہن کی ہے۔ رہن اصلاً قرض کی ضمانت ہے بایں طور کہ اگر قرض دار قرض لی ہوئی رقم واپس نہ کرسکے تو قرض دہندہ رہن رکھی ہوئی چیز کو فروخت کرکے اپنی دی ہوئی رقم وصول کرسکے، لیکن اس سے نفع حاصل کرنا درست نہیں۔ اس حکم کی رو سے ہیوی ڈپازٹ پر لئے ہوئے مکان میں مفت رہنا صحیح نہیں، خود رہے تو کرایہ دے کر رہنا ہوگا۔ آج کل اس کا جس طرح عام رواج ہورہا ہے اس کے پیش نظر علماء نے جو بحث کی وہ طویل ہے، جن حضرات نے کچھ ڈھیل دی ہے وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ کم کرایہ بھی ہو تو اسے بھی معقول ہونا چاہئے۔ میرا موقف یہ ہے کہ جو حضرات خوش حال ہیں ان کے لئے کسی صورت بھی نفع اٹھانا صحیح نہیں۔ لیکن ایک قاعدہ ہے الضرورات تبیح المحذورات یعنی ضرورت شرعی کی صورت میں ضرورتمند کو بعض اوقات شریعت رعایت بھی دیتی ہے لہٰذا جو واقعی ضرورتمند ہو اس کے لئے قدرے گنجائش ممکن ہے۔ آپ نے اپنی جو حالت تحریر کی ہے کہ اپنی موجودہ آمدنی میں آپ کرایہ بھی دیں اور گھر کا خرچ بھی چلائیں یہ ممکن نہیں اور رقم بھی آپ کو دوسرا کوئی دے رہا ہے اس صورت میں بر بنانے ضرورت شرعی آپ کے لئے گنجائش ہوسکتی ہے تاہم کچھ کرایہ بھی طے کرلیں، باقی مالک کی طرف سے رعایت متصور ہوگی۔ واضح رہے کہ یہ رعایت الضرورت تبیح المحظورات کے مطابق ہے ورنہ ہیوی ڈپازٹ سے انتفاع متمول حضرات کے لئے کسی طرح درست نہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
طلاق کے دو گواہ
 نکاح کے صحيح ہونے کی شرط میں دوگواہ لازمی ہیں جبکہ طلاق کے واقع ہونے میں گواہ وغیرہ کی شرط نہیں ہے، یہ ہم نے پڑھا اور سنا ہے۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شوہر طلاق دے کر مکر جاتاہے کہ میں نے طلاق دی ہی نہیں ہے اور بیوی قسم کھاتی ہے کہ تین طلاق دےچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں کیسے معلوم ہو کہ سچائی کیا ہے جبکہ دونوں فریق قسم کھارہے ہیں ؟مسئلہ کو سلجھانے کیلئے پنچایت ہوتی ہے تو کبھی حضرات جن میں علماء کرام کی بھی شمولیت ہوتی ہے عورت کی بات نظر انداز کر تے ہوئے شوہرکی بات تسلیم کر لیتے ہیں کہ طلاق نہیں دی ہے اور سمجھا بجھا کر صلح کراکے مسئلہ کوحل کراتے ہوئے رخصتی کرادیتے ہیں۔ خلاصہ کلام مطلوب یہ ہے کہ ایسی صورت میں جبکہ شوہر طلاق کا انکار کررہا ہے اور بیوی قسم کھا رہی ہے کہ تین طلاق دیئے گئے ہیں، حق و باطل کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ جواد احمد، بہار 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: حدیث شریف میں ہے الطلاق لمن اخذ الساق من اخذ الساق۔ ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ طلاق کا حق صرف شوہر کو ہے البتہ عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے لیکن اگر شوہر خلع پر رضامند نہ ہو اور حالات ایسے ہیں کہ عورت کے لئے زندگی دشوار ہے تو اسلامی عدالت سے وجوہ فسخ بتاکر نکاح فسخ کراسکتی ہے۔ آپ کا جو اشکال ہے اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ ایجاب وقبول شرعاً نکاح کے رکن ہیں، ایک طرف سے ایجاب ہوگا اور دوسری جانب سے قبول اور اس کے لئے دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ یہاں گواہوں کی ضرورت اس لئے ہے کہ بعد میں دونوں میں سے کوئی نکاح یا نکاح پر رضامندی سے انکار نہ کرسکے لیکن شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے جبکہ عورت کے لئے مطالبہ خلع وفسخ کا متبادل موجود ہے۔ یہاں اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ قرآن وسنت سے احکام ثابت ہیں۔ یہ احکام عہد بعہد قرون اولیٰ سے ہم تک پہنچے ہیں جو خیر کے غلبے کا زمانہ تھا۔ وہاں امانت ودیانت کا یہ عالم تھا کہ اس وقت یہ تصور ہی نہیں تھا کہ کوئی فریق قصداً حق سے انحراف والی بات کرےگا اور اگر قسم کا موقع ہو تو جھوٹی قسم کوئی کھائےگا یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، مگر آج جو حالت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کے علاوہ طلاق کے متعلق جو احکام ہیں ہم ان سے قطعاً غافل ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے سامنے اس طرح کے سوالات اکثر آتے رہتے ہیں۔ مسلمان شوہر ہو یا بیوی اگر ہم سچے مسلمان ہوں تو یہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ کوئی فریق غلط بیانی کرے۔ اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ شریعت نے شوہر کو جو حق دیا ہے اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی لیکن ایسے مواقع پر شریعت کا اصول یہ ہے کہ جو مدعی ہو ثبوت اس کے ذمے ہے لیکن ثبوت اور گواہ نہ ہونے کی صورت میں مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔ اگر وہ قسم سے انکار کردے تو دعویٰ ثابت مان کر طلاق کے وقوع کا حکم ہوگا تاہم ہمارا جو معاشرہ ہے اس میں جھوٹی قسم کا بھی امکان قوی ہے اس لئے علماء نے ایسے مواقع کے لئے ایک صورت یہ لکھی ہے کہ دونوں طرف سے ایک ایک معاملہ فہم اور دیانت دار شخص کو حکم بناکر ان کے سامنے یہ معاملہ پیش کردیا جائے، پھر تحقیق وتفتیش کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچیں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس کو ماننے کے دونوں پابند ہوں گے۔ اشکال کا اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اگر فیصلہ طلاق کے واقع نہ ہونے کا ہوگیا جبکہ شوہر نے واقعتاً طلاق دے دی تھی تو بدکاری کا ذمے دار کون ہوگا، ایک بات یہ بھی ذہن میں رہے کہ شوہر ہی غلط کہہ رہا ہے یہ حتمی نہیں، عورت بھی شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے جھوٹا دعویٰ کر سکتی ہے (راقم الحروف کے علم میں بعض ایسے واقعات بھی ہیں ) تاہم علماء لکھتے ہیں کہ اگر عورت نے اپنے کانوں سے سنا ہے لیکن گواہ نہ ہونے کی وجہ سے شوہر منکر ہے تو اس صورت میں عورت خود قاضی کی طرح ہے اس لئے اسے چاہئے کہ اس شوہر سے دور رہے اور جس طرح بھی ممکن ہو اس سے چھٹکارا حاصل کرلے۔ اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ اگر شرعی عدالت کا قاضی، حکم یا پنچایت شوہر کے حق میں فیصلہ دے دیں اور عورت کے لئے گلوخلاصی کی کوئی صورت ممکن نہ ہو سکے تو بدکاری کا گنہگار صرف شوہر ہوگا عنداللہ عورت سے نہ کوئی مواخذہ ہوگا نہ ہی شرعاً وہ جوابدہ ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK