• Sun, 10 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: بیت المال کی ذمے داری سنبھالنے والے کا امین اور دیانتدار ہونا ضروری ہے

Updated: August 16, 2024, 3:35 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) بیت المال کی ذمے داری سنبھالنے والے کا امین اور دیانتدار ہونا ضروری ہے (۲) بچوں کی پرورش کا ایک مسئلہ (۳) قبل الوقت پیدائش اور تحنیک۔  

Mother has the first right to raise children. Photo: INN
بچوں کی پرورش کا پہلا حق ماں کا ہے۔ تصویر : آئی این این

بیت المال کی ذمے داری سنبھالنے والے کا امین اور دیانتدار ہونا ضروری ہے
 ایک شخص کے پاس مسجد کا بیت المال جمع ہو اور وہ شخص بیت المال سے بغیر اجازت کچھ رقم لے لے تو کیا حکم ہے؟ اب وہ شخص ان پیسوں کو واپس دے رہا ہے لیکن اُسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اُس نے ان میں سے کتنے پیسے لئے تھے، تو ایسی صورت میں اسے کیا کرنا چاہئے؟ رئیس الدین، میوات 
باسمہ تعالیٰ :ھوالموفق: بیت المال قومی امانت ہے اور یہ جس کی تحویل میں ہو وہ امین اور ذمہ دار ہے، اس کے لئے آمد وخرچ کا مکمل حساب رکھنا ضروری ہے۔ خود وہ اس میں سے کچھ نہیں لے سکتا۔ اسی لئے علماء نے لکھا ہے کہ جسے یہ ذ مےداری دی جائے اس کا امین اور دیانت دار ہونا ضروری ہے جو اس قومی امانت میں ناحق اورکسی قسم کے بیجا تصرف کے قریب بھی نہ جائے۔ اگر اس کام میں اس کا بیشتر وقت صرف ہوتا ہو تو اس کی مناسب تنخواہ بھی مقرر کی جا سکتی ہے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ اپنی ذ مے داری نبھاتا رہے۔ جس شخص میں امانت ودیانت کی صفات نہ ہوں وہ اس ذمے داری کا اہل ہی نہیں لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر ناواقفیت کی بناء پر اس نے غیر استحقاقی طور پر کوئی رقم خرچ کرلی ہے تو پہلی فرصت میں اس کی واپسی ضروری ہے۔ اگر اسے لی ہوئی رقم کا صحیح علم نہیں تو حسابات کی جانچ پڑتال کرے، یہ بھی یاد کرنے کی کوشش کرے کہ اس نے کب کب کتنی رقم لی، پھر جس نتیجے پر پہنچے احتیاطا مزید کچھ اضافہ کے ساتھ تخمینی رقم بیت المال میں جمع کرا دے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
بچوں کی پرورش کا ایک مسئلہ
 ایک بیوہ عورت ہے جس کے دو بچے ہیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد وہ اپنے والدین کے یہاں رہ رہی ہے۔ شوہر کے گھر والے بچوں کی پرورش کے اخراجات سے کوئی مطلب نہیں رکھتے ہاں عید بقرعید کچھ دے دلا دیا وہی ہے بس، بچے اب بڑے ہورہے ہیں ایک دس سال کا ہے اور ایک سات سال کا۔ شوہر کے گھر والے بچے واپس لینا چاہتے ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ماں سے الگ ہوکر بچوں میں بگاڑ کا اندیشہ ہے کیونکہ شوہر کے بڑے بھائی کی بیوی بھی قابل اعتبار عورت نہیں ہے، یہ بیوہ عورت بچوں کی وجہ سے شادی بھی نہیں کرنا چاہتی تو کیا بچوں کی دینی تربیت وغیرہ کے لیے یہ عورت بچوں کو شرعاً اپنے پاس رکھ سکتی ہے؟ شرعی اعتبار سے جو مناسب صورت ہو اس کی طرف رہنمائی فرمائیں۔ 
 عبد الرحمٰن، ممبرا تھانہ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: شرعا ً بچوں اور بچیوں کی پرورش کا پہلا حق (جسے حق حضانت کہتے ہیں ) ماں کا ہے۔ لڑکا ہے تو سات سال کی عمر تک اور لڑکی ہے تو شرعی بلوغ تک (جبکہ ایک قول نوسال کا بھی ہے)۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت کے لئے باپ دادا کو یہ حق ملتا ہے کہ بچے اور بچی کو اپنی تحویل میں لیں ۔ تاہم مزید تفصیل میں جائیں توپتہ چلتا ہے کہ شریعت نے بچوں کی مصلحت کو بھی پیش نظر رکھا ہے چنانچہ اگر ماں کے مزاج یا کردار سے یہ ظاہر ہو رہا ہو کہ بچوں کی صحیح طور سے دیکھ بھال نہ کرسکےگی تو اس کا حق حضانت ساقط ہوجاتا ہے، اسی طرح اگر وہ کسی ایسے شخص سے شادی کرلے جو بچے کا ذی رحم رشتہ دار نہ ہو تو اس صورت میں بھی اس کا یہ حق ساقط ہوجاتاہے، اسی طرح اگر کسی وجہ سے باپ پر اعتماد نہ کیا جا سکتا ہو تو اس کا حق بھی ساقط ہو سکتا ہے۔ باپ دادا کے بعد یہ حق چچا وغیرہ کو بھی منتقل ہو تا ہے لیکن اوپر درج تفصیل کے مطابق اگر حالات کے پیش نظر ان پر اعتماد نہ کیا جا سکتا ہو تو بچوں کو ان کی تحویل میں بھی نہیں دیا جاسکتا۔ ان حالات میں کیا صورت اختیار کی جائے یہ فیصلہ قاضی یعنی اسلامی عدالت کا جج کرےگا اور وہ نہ ہو تو قریبی رشتہ دار یا بستی کے مخلص معززین کریں گے، اور ماں شادی نہ کرے تو اس صورت حال میں بچے ماں کی تحویل میں بھی دیئے جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
قبل الوقت پیدائش اور تحنیک 
کیا ایسا بچہ جو وقت سے پہلے پیدا ہو گیا ہو مثلاً چھ مہینے یا سات مہینے پر، اس کی تحنیک کرنا چاہئے؟ ایسے بچوں کو خاص بکسوں میں رکھا جاتا ہے تقریباً دو مہینے تین مہینے تک۔ عبید اللہ، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: چھ، سات ماہ کے بچے پہلے بھی پیدا ہو تے رہے ہیں اور رب کریم انہیں ان بکسوں میں رکھے بغیر زندگی اور تندرستی بھی دیتا رہا ہے۔ یہ بکس جدید دور کی ایجاد اور جدید طریقہ علاج کی دین ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ ہر بچے کو ان میں رکھا جائے، اس کے علاوہ تحنیک بھی فرض یا واجب نہیں بلکہ ایک مسنون عمل ہے لہٰذا جیسی ضرورت ہو اس کے مطابق عمل کیا جائیگا۔ بچہ تندرست ہے تو حسب معمول اور بلا تاخیر تحنیک کر دی جائیگی، ولادت کے معاً بعد بکس میں رکھنا ضروری ہے تو بکس سے نکالنے کے بعد تحنیک کی جائے گی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK