• Mon, 25 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: وارثوں کا حق مورث کی وفات کے بعد ہی متعین ہوجاتا ہے،زوال کا وقت، دوران نماز جسم سے خون نکلنا

Updated: November 25, 2024, 4:53 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) وارثوں کا حق مورث کی وفات کے بعد ہی متعین ہوجاتا ہے (۲) زوال کا وقت (۳) دوران نماز جسم سے خون نکلنا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

وارثوں کا حق مورث کی وفات کے بعد ہی متعین ہوجاتا ہے 
 ایک خاتون ہے جس کے والد کے انتقال کو ۳۵؍ سال ہوگئے ہیں لیکن وراثت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی جو اَب ہونے والی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اس عورت کو شوہر نے طلاق دے دی اور اس کے ۳؍ لڑکے ہیں۔ اس میں سے ایک لڑکے کا انتقال ہو گیا اور اس کے بھی بیوی بچے ہیں۔ اب اس عورت کا بھی انتقال ہو گیا، یعنی لڑکے کا پہلے اور ماں کا بعد میں۔ سوال یہ ہے کی جو وارثت اس عورت کے حصے میں آنے والی ہے اس میں عورت کے پوتا پوتی کا بھی حصہ ہوگا یا صرف دونوں لڑکے ہی وارث ہوں گے؟ 
شمیم احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ترکہ میں وارثوں کا حق مورث کی وفات کے بعد ہی متعین ہوجاتا ہے اس لئے تقسیم وراثت مورث کی وفات کے بعد ہی جتنی جلدی ممکن ہو کردینی چاہئے۔ ۳۵؍ سال کی تاخیر قطعاً مناسب نہ تھی۔ غیر منقسم ترکہ کی آمدنی میں بھی بہن بھائی سب حقدار تھے۔ اگر بھائی اس دوران بہن کو آمدنی اور منافع میں حصہ دیتے رہے ہوں تو مواخذہ سے محفوظ رہیں گے ورنہ حق تلفی کے مرتکب قرار پائیں گے۔ اس صورت میں گزشتہ سالوں کی آمدنی کا حساب بھی کیا جانا چاہئے۔ صحیح تخمینہ دشوار ہو تو جس قدر ہوسکے حساب کرکے بہن کو آمدنی میں سے اس کا حصہ دیاجانا چاہئے۔ بہت دشواری ہو تو مرحومہ کے وارثوں سے مفاہمت کرلی جائے۔ صورت مسئولہ میں شوہر طلاق دے چکا تھا تو متوفیہ کے ترکہ میں اس کا کوئی حق نہیں۔ ایک لڑکا جس کا انتقال ہوچکا ہے اگر ماں کے بعد اس کا انتقال ہوتا تو وہ بھی حصہ دار ہوتا اور اس کا حصہ اس کی اولاد اور بیوہ کو منتقل ہوجاتا لیکن ماں کی وفات سے پہلے انتقال ہوجانے کی صورت میں بحیثیت وارث، اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا تاہم مرحومہ نے مرحوم لڑکے کی اولاد کے لئے تحریری یا زبانی کوئی وصیت کی ہو تو انہیں اس کے حصے کا ایک تہائی تک مل سکتا ہے۔ اس مسئلے میں عرب کے کئی علماء نے بعض مشائخ کے اقوال کی بنا پر دادا اور دادی کے لئے وصیت کو لازم قرار دیا ہے اور مصر وشام وغیرہ میں یہ قانون بھی کہ وصیت نہ بھی کی ہو تب بھی وصیت اجباری کے قانون کی بنا پر یتیم پوتوں پوتیوں کو بھی قانون حق دلاتا ہے مگر اب تک ہمارے یہاں کسی نے یہ قول اختیار نہیں کیا اور کسی کا انفرادی قول معتبر بھی نہ ہوگا البتہ فقہ اکیڈمیوں کے سمینار میں جو وقتاً فوقتاً منعقد کئے جاتے ہیں، اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہئے تاکہ ایک اجتماعی رائے سامنے آسکے۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ ایک بات تھی لیکن یہ واضح رہے کہ اگر کوئی وصیت نہیں ہے اور بچے ضرورتمند ہیں تو مرحومہ کے جو باقی دو لڑکے ہیں ان پر بھتیجوں کی کفالت لازم ہوگی اور اگر وہ چاہیں تو ایک حصہ بچوں کو دے بھی سکتے ہیں، شرعا اس کی کوئی ممانعت بھی نہیں بلکہ یہی بہتر بھی ہے جبکہ صلہ رحمی کا تقاضا بھی یہی ہے جس کی قرآن وسنت میں بارہا تاکید کی گئی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
زوال کا وقت
 زوال کا وقت زوال کسے کہتے ہیں کیا زوال کے وقت نماز پڑھ سکتے ہیں اور یہ کتنی دیر رہتا ہے؟
 عبد الجلیل، میرا روڈ 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اصطلاح شرع میں ایک لفظ ہے نصف النہار، پھر نصف النہار کی دو قسمیں ہیں صبح صادق سے لےکر غروب آفتاب تک کے نصف کو نصف النہار شرعی کہاجاتا ہے اور طلوع آفتاب سے غروب تک کا نصف، نصف النہار عرفی کہلاتا ہے۔ اسی کو زوال بھی کہتے ہیں۔ زوال کا وقت اتنا قلیل ہوتا ہے کہ اتنے وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھی جاسکتی تاہم بچند وجوہ علماء نے لکھا ہے کہ جنتری میں اس دن کے زوال کا جو وقت لکھا ہو احتیاطا ً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد کوئی نماز نہ پڑھیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
دوران نماز جسم سے خون نکلنا 
 اگر کسی آدمی کے جسم پر پھوڑا پھنسی ہو اور اس میں سے خون نکلتا رہتا ہو تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ نمازکے درمیان میں بھی نکل جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ سعید الرحمن، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:وضو کے بعد اتفاقاً زخم سے خون نکل کر باہر آگیا، اس صورت میں وضو ٹوٹ جائےگا لیکن سوال کے مطابق یہاں جس صورت کے متعلق دریافت کیا گیا ہے وہ مسلسل خون بہتے رہنے والی صورت حال ہے۔ علماء لکھتے ہیں کہ اگر زخم سے مسلسل خون بہتا رہے اور زخمی کو اتنا وقت نہ ملے کہ وضو کے بعد فرض نماز پڑھ سکے تو یہ شخص معذور شمار ہوگا جس کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت آنے پر وضو کرنے کے بعد پورے وقت میں جتنی فرض اور نفل نمازیں پڑھتا رہے اس عذر کی وجہ سے اس کا وضو نہ ٹوٹےگا البتہ کوئی دوسرا ناقضِ وضو پیش آنے پر وضو جاتا رہےگا نیز مسلسل خون آنے کی صورت میں نماز کا وقت گزر جانے کی صورت میں اگلی نماز کے لئے دوبارہ وضو کرنا پڑےگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK