Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتاوے: ایک وقت میں دو نمازیں، شوال کے چھ اور ایام بیض کے روزے، قرأت میں غلطی

Updated: April 11, 2025, 12:45 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) ایک وقت میں دو نمازیں (۲)شوال کے چھ روزے اور ایام بیض کے روزے (۳)قرأت میں غلطی۔

Pilgrims pray Zuhr and Asr together in Arafat and Maghrib and Isha together in Muzdalifah. Photo: INN.
حجاج کرام عرفات میں ظہر اور عصر اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ ادا کرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

ایک وقت میں دو نمازیں 
ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک وقت میں دو نمازوں کو ایک ساتھ کسی موقع پڑھا ہے ؟مظفر عالم، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ہر نماز کا ایک وقت مقرر ہے۔ قرآن کریم میں ہے : مومنو، پر مقررہ وقت پر نماز فرض ہے۔ حضورﷺ کے معمولات میں تواتر کے ساتھ یہ ملتا ہے کہ آپؐ ہر وقت کی نماز مقررہ وقت پر ادا فرماتے تھے ؛ یہی معمول حضرات صحابہ کرام ؓ کا بھی تھا۔ عہد رسالت میں بھی اور اس کے بعد بھی۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے وقت سے ہٹ کر نماز پڑھی اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا۔ حضرت ابو قتادہؓ کی ایک روایت کا بھی یہی مفہوم ہے۔ آنحضرتﷺ سے یقینی طور پر عرفات میں ظہر اور عصر اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھنا ثابت ہے اس کے علاوہ بغیر کسی عذر کے بے وقت نمازیں کبھی نہیں پڑھیں۔ ان اعذار میں بارش اور سفر کا ذکر ملتا ہے جبکہ کچھ نے شدت حر یعنی سخت گرمی کو ان میں شمار کیا ہے لیکن حضرت انسؓ اور حضرت عبداللہ ابن عمرؓ سے منقول ہے کہ آپؐ سفر وغیرہ کی صورت میں بوقت ضرورت ظہر کو مؤخر کرکے عصر سے پہلے ظہر آخری وقت میں اس کے بعد عصر اس کے اول وقت میں ادا فرماتے تھے۔ اسی طرح مغرب کو مؤخر کرکے اس کے اخیر وقت میں، پھر عشاء کو اول وقت میں ادا کرلیتے تھے۔ اسی پر حضرات خلفائے راشدین کا بھی عمل تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو تحریری ہدایت دی تھی کہ لوگوں کو بتا دیں کہ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کریں۔ اس مسئلے میں دوسرے فقہاء اور مجتہدین کی آراء بھی ملتی ہیں اور ہمارے نزدیک تمام اکابر اور آراء بھی محترم ہیں لیکن احناف کاراجح مسلک وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے تاہم نہ ہمیں کسی کو غلط کہنے کا حق ہے اور نہ ایسے اختلافی یا مجتہد فیہ مسائل میں کسی بحث و مباحثہ کی ضرورت یا گنجائش ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
شوال کے چھ روزے اور ایام بیض کے روزے
(۱)عید کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے جاتے ہیں۔ کیا ان روزوں کا کسی حدیث میں بھی ذکر ہے اور یہ روزے عید کے بعد فوراً یعنی دوسرے ہی دن سے رکھنا چاہئیں یا پورے ماہ شوال میں کبھی بھی رکھ سکتے ہیں اور ایک ساتھ رکھے جائیں یا متفرق طور پر بھی رکھ سکتے ہیں ؟
(۲)  ماہ شوال کے چھ روزوں کے علاوہ ہرقمری مہینے کی تیرہ چودہ پندرہ کو ایام بیض کے روزوں کا بھی حدیث میں ذکر ہے تو کیا شوال کے روزوں میں ایام بیض کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے؟ عبید جمال، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: رمضان کے بعد شوال کے چھ روزوں کا ثبوت حدیث نبویﷺ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اس نے (گویا) پورے سال کے روزے رکھے۔ یہ روزے عید کے بعد پورے ماہ شوال میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں نیز ان کا مسلسل رکھنا بھی ضروری نہیں بلکہ متفرق طور پر بھی رکھ سکتے ہیں۔ 
(۲)احادیث کی رو سےایام بیض کے روزے الگ ہیں اور شوال کے روزے الگ ؛ شوال کے روزوں کا تعلق صرف ماہ شوال سے ہے جبکہ ایام بیض پورے سال کے لئے ہیں اس لئے اصولاً دونوں کو الگ الگ ہی رکھنا بہتر ہے لیکن ایام بیض کے روزے نہ تو فرض ہیں نہ ہی واجب صرف مسنون یا مستحب ہیں اس لئے اگر انہیں شوال کے روزوں میں شامل کرلیا تو چنداں حرج نہیں البتہ جو شخص پابندی سے ایام بیض کے روزے رکھتا ہو اس کے لئے بہتر ہے کہ دونوں کو الگ الگ رکھے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
قرأت میں غلطی
زید نے دو رکعت کی نیت کی۔ پہلی رکعت میں سورہ فلق کی دو آیت تلاوت کی اور تیسری آیت چھوٹ گئی اور چوتھی آیت پڑھ کر سورہ مکمل کی، تو کیا نماز ہو جائے گی یا نہیں ؟ محمد صادق، لکھنؤ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: کوئی شخص تنہا نماز ادا کرے یا امام بن کر دوسروں کو نماز پڑھائے اصولاً اس کے اندر اتنی یکسوئی اور استحضار ہونا چاہئےکہ کسی قسم کی غلطی کا امکان کم سے کم پایا جائے لیکن بندہ بندہ ہے سہو ونسیان کا امکان بہرحال ہوتا ہے جبکہ شریعت نے اسے عام طور سے نظر انداز کیا ہے۔ امام کولقمہ دینے اور سجدۂ سہووغیرہ کے احکام اسی قبیل سے ہیں۔ آپ نے جو صورت تحریر کی ہے اس میں ایسی غلطی بھی نہیں پائی جاتی جو سجدۂ سہو کی موجب ہو یہاں نماز کے فساد کاتو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، سورہ فلق کی دوآیت کےبعد بھول کر تیسری آیت چھوڑکر چوتھی آیت پڑھ کر سورہ مکمل کی تو نہ معنی میں کوئی خرابی پیدا ہوئی نہ ہی الفاظ میں کسی نوع کی تبدیلی ہوئی لہٰذا صورت مسئولہ میں نماز ہوگئی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK