شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)لین دین کا معاملہ، ناراضگی اور ادائیگی سے انکار(۲)کسی بزرگ سے مکان کی بنیاد رکھوانا(۳)نماز جنازہ میں مسافر کی شرکت اور دعا (۴)نقلی ریشم کی مصنوعات کا حکم
EPAPER
Updated: November 08, 2024, 3:15 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)لین دین کا معاملہ، ناراضگی اور ادائیگی سے انکار(۲)کسی بزرگ سے مکان کی بنیاد رکھوانا(۳)نماز جنازہ میں مسافر کی شرکت اور دعا (۴)نقلی ریشم کی مصنوعات کا حکم
لین دین کا معاملہ، ناراضگی اور ادائیگی سے انکار
زید کا اپنے دوست خالد سے مستقل لین دین رہتا تھا۔ عرصہ دراز یہ معمول رہا کہ جسے جب ضرورت ہوئی دوسرے سے رقم منگوالی، بعد میں اسے ادا کردیا۔ لکھا پڑھی کچھ نہیں کی جاتی تھی۔ ایک دوسرے پر بھروسہ تھا اور معاملات حسن وخوبی کے ساتھ چل رہے تھے۔ اس دوران ان کے درمیان کچھ ذاتی مسائل کی بنیاد پر اختلافات ہوئے اور اس حد تک بڑھ گئے کہ تعلقات ہی ختم ہوگئے۔ زیدنے اسی دوران کچھ عرصہ قبل خالد سے ایک بڑی رقم ادھار لی تھی، جب اس حد تک اختلافات بڑھ گئے توخالد نے چند روز انتظار کے بعد رقم کے لئے قاصد بھیجا تو زیدنے سرے سے رقم ہی کا انکار کردیا۔ خالد نے دوستوں اور رشتہ داروں کی پنچایت بلائی وہاں بھی زید انکار ہی کرتا رہا جس پر خالد نے کہا کہ زید قسم کھالے تو میں آئندہ مطالبہ نہ کروں گا۔ زید کو اچھی طرح یاد تھا مگر ضد میں آکر اس نے جھوٹی قسم کھالی۔ اس کے بعد خالد نے بھی کوئی مطالبہ نہیں کیا مگر زید مسلسل پشیمان رہا۔ اب خالد کا انتقال ہوچکاہے اور زید کو احساس ہے کہ اس نے غلط کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں زید پر شرعاً مطالبہ ہے یا نہیں اورہے تو زید اس کی تلافی کس طرح کرے؟محمد سعید، کانپور
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: بنیادی غلطی دونوں سے یہ ہوئی کہ صرف اعتماد پر معاملہ کرتے رہے جبکہ شریعت کی تاکید ہے کہ معتبر گواہوں کی موجودگی میں لین دین کی تحریر لکھ لی جائے۔ نیز حدیث شریف میں واضح طور سے یہ ہدایت ہے کہ رہو بھائیوں کی طرح اور معاملات کرو اجنبیوں کی طرح۔ بہرحال، اس صورتِ حال میں عنداللہ اب بھی زید پر خالد کا مطالبہ باقی ہے اور اب یہ حق وارثوں کاہے لہٰذا زید کو چاہئے کہ کسی بھی عنوان سے وارثوں تک یہ رقم پہنچائے اور ایسی صورت اختیار کرے کہ کسی وارث کا حق ضائع نہ ہونے پائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
کسی بزرگ سے مکان کی بنیاد رکھوانا
عام طور سے ایک رواج یہ دیکھنے آتا ہے کہ بہت سے لوگ جب مکان کی تعمیر کا ارادہ کرتے ہیں تو کسی بزرگ سے بنیاد رکھواتے ہیں۔ اس کا کیا حکم ہے؟ توفیق عالم، بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: قرآن و حدیث میں نہ اس کا تذکرہ ہے اور نہ اسلاف کے یہاں اس کا تعامل ملتا ہے، پھر بھی اگر کوئی دین دار مسلمان جو آخرت کی فکر رکھتا ہے اور عملی کوتاہیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، اگر وہ حصول برکت کے لئے بغیر کسی اہتمام کے کسی بزرگ یا دیندار شخص سے مکان کی بنیاد رکھوائے تو اس کی گنجائش ہوگی بشرطیکہ غیر ضروری تکلفات سے احتراز کیا جائے لیکن اگر اس شخص کا نہ دین سے تعلق ہے اور نہ اعمال کی اصلاح کی فکر ہے تو ظاہر ہےکہ بعد میں اسی مکان میں معاصی کا ارتکاب بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں سنگ بنیاد کی یہ رسم محض رسمی خانہ پری ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ خود دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کرے اور حتی الوسع غرباء و مساکین پر صدقہ کرے، اس میں زیادہ برکت ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
نمازِ جنازہ میں مسافر کی شرکت اور دُعا
ایک مسافر آدمی قبرستان کے پاس سے گزررہا ہے۔ وہاں نماز جنازہ کی تیاری دیکھ کر اس نے بھی رک کر وضو کیا۔ اتنے میں جماعت شروع ہوگئی لہٰذا جماعت میں شامل ہوگیا مگراسے یہ نہیں معلوم کہ جنازہ مردکا ہے یا عورت یا کسی نابالغ بچے یابچی کاتو وہ دعا کون سی پڑھےگا؟محمد احمد، مراد آباد
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:مرد وعورت دونوں کے لئے ایک ہی دعا ہے ۔ جو دعا بالغ مرد کی نماز جنازہ میں پڑھی جاتی ہے وہی بالغ عورت کے لئے بھی ہے البتہ نابالغ بچے بچیوں کے لئے الگ الگ دعائیں منقول ہیں جن کی رعایت وہ تمام لوگ کریں گے جو میت سے واقف ہیں لیکن ایسا آدمی جسے یہ علم نہیں ہوسکا کہ جنازہ بچے کا ہے یا بالغ کا، وہ بالغ میت والی دعاپڑھ لے اس کے لئے یہی کافی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم
نقلی ریشم کی مصنوعات کا حکم
آج کل بعض کپڑے جو ریشمی کہلاتے ہیں، ان میں مصنوعی ریشم استعمال ہوتا ہے۔ یہ ریشم وہ ریشم نہیں ہوتا جو قدرتی طور سے ریشم کے کیڑے کے ذریعے وجود میں آتا ہے، بنانے والے کسی اور طرح سے بناتے اور بیچتے ہیں مگر یہ ریشم ہی کہلاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مَردوں کا ایسے کپڑے اور رومال وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں اور اگر یہ پتہ نہ چلے کہ یہ اصلی ہے یا مصنوعی تو اس صورت میں کیا کیا جائے؟ عبدالکریم، ممبرا
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: ریشم مَردوں کے لئے قطعاً حرام ہے مگر اس سے مراد اصلی ریشم ہے، مصنوعی ریشم کا یہ حکم نہیں ہے۔ لہٰذا جن کپڑوں کے متعلق یہ تحقیق ہو کہ مصنوعی ریشم کے ہیں ان کو بے تکلف استعمال کیا جاسکتا ہے، ان کے استعمال میں کوئی کراہت یا اشتباہ بھی نہیں ہے کہ احتیاط کا حکم ہو۔ البتہ جن کا اصل ریشم ہونا متحقّق ہو ان سے اجتناب یعنی بچنا ضروری ہے۔ جن کے متعلق شک ہے ان کی تحقیق کر لی جائے اور تحقیق کے بعد بھی کچھ واضح نہ ہوسکے تو ان سے بھی احتیاط کی جائے۔ واللہ اعلم