• Fri, 15 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: طلاق کا ایک مسئلہ، سودی معاملات سے بچنے ہی میں عافیت ہے!

Updated: November 15, 2024, 4:54 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے: (۱) طلاق کا ایک مسئلہ (۲) سودی معاملات سے بچنے ہی میں عافیت ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

 ایک صاحب کے پاس بینک میں فراڈ افسر کی ملازمت کا موقع آیا ہے، جس کا تعلق بینکنگ کے عمل سے ہے۔ اس میں ان کا کردار یہ ہے کہ وہ مصنوعات کی بنیاد پر مختلف پلیٹ فارمز پر دھوکہ دہی کی سرگرمیوں کو پہچانیں اور کسٹمر اور کمپنی کو تحفظ فراہم کریں۔ اس میں انہیں ان کسٹمرز سے بات کرنی ہوگی جن کے ساتھ دھوکہ دہی ہو چکی ہے یا ہو سکتی ہے۔ چونکہ یہ بینکنگ کی ملازمت ہے، اس میں جاننا یہ ہے کہ اس ملازمت کی تنخواہ یا آمدنی حلال ہے یا نہیں ؟ کیا وہ اس بینکنگ کے عمل میں ملازمت کر سکتے ہیں ؟ واضح رہے کہ سودی معاملات میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ عبد اللہ، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق:اتنی بات تو ہر ایک جانتا ہے کہ بینکنگ سودی نظام معیشت کا ایک ایسا حصہ ہے جس نے پوری دنیائے انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور جس کی بنیاد ہی سودی لین دین پر قائم ہے۔ اس کے برعکس اسلامی نظام معیشت میں سود کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ احادیث مبارکہ کے ذخیرے میں سودی لین دین کے متعلق بے شمار وعیدیں موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق سود لینے والے، دینے والے، سودی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہ سب پر اللہ کی لعنت ہے اور یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ مگر کیا کیا جائے کہ عالمی ادارے مسلسل سودی نظام معیشت کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ حد یہ ہے کہ مسلمان کہے جانے والے ممالك بھی اس سلسلے میں غفلت کے مرتکب ہیں۔ کہیں کہیں غیر سودی اسلامی نظام معیشت کے لئے جزوی طور پر کچھ کوششیں جاری ہیں مگر ضرورت اس سے زیادہ وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ہے۔ ویسے تو علماء نے سودی نظام کا حصہ بننے کو کبھی پسند نہیں کیا مگر کاروباری ضرورتیں بھی ہوتی ہیں جن کی بناء پر بعض معاملات میں کچھ گنجائشیں بھی دی جاتی ہیں۔ بینکنگ خدمات کا ایک حصہ تو یہ ہے کہ ملازم سود کے لین دین اور ان کی لکھا پڑھی میں ملوث ہو۔ ایسی ملازمت کی کسی نے اجازت نہیں دی۔ جو لوگ اس میں مبتلا ہیں ان کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر وہ ضرورت مند ہیں تو جتنی جلدی ممکن ہو اس سے پیچھا چھڑاکر کوئی دوسرا کام تلاش کریں اور معاشی طور سے اتنے مجبور نہیں ہیں تو یکلخت اسے ترک کر دیں۔ دوسرا مسئلہ ہے بینک کی تنخواہ کا۔ یہ بھی اہم اور توجہ طلب امر ہے۔ کئی علماء نے بینک میں چوکیدار، ڈرائیور اور سیکوریٹی گارڈ وغیرہ کی ملازمت کی اس بناء پر اجازت دی ہے کہ ان کاموں میں براہ راست ملازم سودی لین دین میں ملوث نہیں ہوتا۔ رہی تنخواہ تو اس سلسلے میں بھی بعض حضرات نے اس پہلو سے گفتگو کی ہے کہ آج کل بینکوں کی آمدنی کچھ جائز خدمات سے بھی حاصل ہوتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ تنخواہ سود ہی سے ملتی ہو۔ آپ نے جس ملازمت کے متعلق سوال کیا ہے اس میں بظاہر براہ راست سود کا تعاون نہیں اس لئے گنجائش تو ممکن ہے لیکن اگر آپ اتنے مجبور محض نہیں ہیں تو اس خیال کو ترک کردیں اور دوسری جائز ملازمت یا چھوٹے موٹے کاروبار کے لئے کوشش کریں، آمدنی کم لیکن شک و شبہ سے پاک ہو اسی میں من جانب اللہ برکت بھی ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
طلاق کا ایک مسئلہ
  زید نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر اب تو میری کوئی خدمت کرے گی تو تجھے ایک طلاق ہے۔ اب اس کی وضاحت فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہو گئی اور طلاق واقع ہوئی تو کون سی طلاق رجعی یا طلاق بائن اور پھر ایک ساتھ رہنے کی کیا صورت ہوگی؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی بھی وضاحت فرما دیں۔ صادق آمین، کلکتہ
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رہے کہ طلاق سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس سے رحمان کا عرش ہل جاتا ہے۔ قرآن کریم نے کسی اختلاف کی صورت میں یہ ہدایت دی ہے کہ دونوں طرف کے ذمہ دار نیک نیتی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی حل نکا لنے کی کوشش کریں تو اللہ نباہ کی صورت پیدا فرما دےگا۔ طلاق ایک ہو یا زیادہ، بہرصورت ناپسندیدہ امر ہے۔ اس مسئلے میں پھر بھی گنجائش ہے ورنہ جہالت اور بے احتیاطی بسااوقات رشتے ہی کو ختم کردیتی ہے۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے اگر خدمت پر ایک طلاق کو معلق کیا ہے تو صریح لفظ ہونے کی وجہ سے ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور شوہر کو دوران عدت رجوع کا حق حاصل رہےگا۔ 
 عدت گزرگئی اور رجوع نہیں کیا تو عدت کے بعد یہ بائن بن جائےگی۔ اس صورت میں زوجین راضی ہوں تو جب چاہیں دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکیں گے مگر یہ ایک طلاق شمار میں رہےگی۔ رجوع اور نکاح ثانی سے رشتہ تو دوبارہ جڑ جائےگا لیکن آئندہ کبھی مزید دو طلاقیں دےدیں تو تین پوری ہو جائیں گی، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK