• Fri, 18 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: زوال کا وقت بہت قلیل ہوتا ہے،عمرہ سے متعلق ایک مسئلہ،ایک طرف سے ڈبل دلالی لینا

Updated: October 18, 2024, 5:34 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱) زوال کا وقت بہت قلیل ہوتا ہے (۲) عمرہ سے متعلق ایک مسئلہ (۳) ایک طرف سے ڈبل دلالی لینا  (۴) سیلاب زدگان کی مدد، تنخواہ اور زکوٰۃ۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این


زوال کا وقت بہت قلیل ہوتا ہے
 زوال کسے کہتے ہیں، کیا زوال کے وقت نماز پڑھ سکتے ہیں اور یہ کتنی دیر رہتا ہے؟ عبد الجلیل، میرا روڈ
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: اصطلاح شرع میں ایک لفظ ہے نصف النہار پھر نصف النہار کی دو قسمیں ہیں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کا نصف اسے نصف النہار شرعی کہاجاتا ہے اور طلوع آفتاب سے غروب تک کا نصف اسے نصف النہار عرفی کہتے ہیں، اسی کو زوال بھی کہتے ہیں۔ زوال کا وقت اتنا قلیل ہوتا ہے کہ اتنے وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھی جاسکتی تاہم بچند وجوہ علماء نے لکھا ہے کہ جنتری میں اس دن کے زوال کا جو وقت لکھا ہو احتیاطاً اس سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد کوئی نماز نہ پڑھیں ۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
عمرہ سے متعلق ایک مسئلہ
 اگر آفاقی عمرہ کے بعد جدہ جائیں، پھر جدہ سے زمینی سفر کرتے ہوئے طائف اور پھر ریاض جائیں تو کیا واپسی کے اس سفر میں انہیں پھر عمرہ کرنا ہوگا؟ فراز احمد، دہلی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: مکہ مکرمہ میں داخل ہونے والے کیلئے ضروری ہے کہ یہاں آنے کا قصد ہے تو اپنی یا کسی دوسرے قریبی میقات سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر ہی داخل ہو۔ صورت مسئولہ میں یہ آفاقی شخص جدہ کے بعد ریاض اور طائف ہوکر دوبارہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوگا، اس صورت میں اس کو طائف کے میقات سے حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر آنا ہوگا۔ حج کا موسم گزرچکا ہے تو واپسی میں اسے بہر حال عمرہ کرنا ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
ایک طرف سے ڈبل دلالی لینا 
 میں دکان اور مکان کیلئے بروکری کا کام کرتا ہوں۔ مکان مالک مکان میرے حوالے کر دیتا ہے اور میں اسے کرائے پر چڑھا دیتا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں مکان مالک سے بروکری نہ لے کر کرایہ دار سے ساری بروکری لے لیتا ہوں۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟ اس صورت میں کرائے دار کا استحصال تو نہیں ہو رہا ہے؟ محمد افضل، ممبئی 
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: بروکری جسے ہمارے یہاں (یعنی بر صغیر میں ) علماء کی اصطلاح میں دلالی کہا جاتا ہے بر بنائے ضرورت اس کے جواز کا فتویٰ دیا گیا ہے مگر اس کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ بروکر نے بایع اور مشتری کے درمیان سودا کرانے میں کما حقہ محنت کی ہو۔ دلالی کی اجرت کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ اجرت پہلے سے طے کرلی جائے یا تاجروں کے عرف میں رائج اور معروف ہو۔ اگر اجرت طے نہیں کی گئی تو جو معروف ہے المعروف کالمشروط کے اصول کے مطابق اسی کو متعین تسلیم کیا جائیگا۔ رہا یہ سوال کہ بروکری مالک مکان سے لے یا کرائے دار سے یا پھر دونوں سے، اس سلسلے میں جو عرف ہوگا حکم اسی کے مطابق ہوگا۔ علماء نے لکھا ہے کہ جو بھی ہو پہلے سے طے شدہ ہو اور کسی طرح کا دھوکا اور فریب نہ پایا جاتا ہو۔ آپ کے مسئلے میں اگر دونوں سے آدھا آدھا لینا معروف تھا یعنی طے تھا تو دونوں سے لینا چاہئے تھا۔ آپ نے صرف کرایہ دار سے لیا، اگر اس سے اتنا ہی لیا ہو جو معروف تھا پھر اگر مالک مکان سے کچھ نہیں لیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن جو مالک مکان سے لینا چاہئے تھا وہ بھی کرایہ دار ہی سے وصول کر لیا ہو تو یہ اس کے ساتھ ظلم اور استحصالِ شمار ہوگا۔ اس صورت میں اس سے جو عرف سے زائد لیا ہو اسے واپس کردینا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
سیلاب زدگان کی مدد، تنخواہ اور زکوٰۃ
 ایک شخص آئی ٹی کمپنی میں کام کرتا ہے اور اس کی کمپنی نے اپنے ورکرز سے کہا کہ تمام لوگوں کو اپنی ایک مہینے کی تنخواہ میں سے آدھی تنخواہ سیلاب والے علاقوں پر خرچ کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں اب کمپنی نے سب سے جمع کرنا شروع کیا اور اس میں مسلمان غیر مسلمان دونوں کام کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی مسلمان اپنی تنخواہ کے حساب سے اس میں جو رقم دیتا ہے، اگر اس میں زکوٰۃ کی رقم دے تو کیا اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی ؟ محمد علی، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ جسے زکوٰۃ دی جائے وہ مسلمان اور مستحق ہو۔ غیر مسلم یا غیر مستحق کو زکوٰۃ دینے کی صورت میں زکوٰۃ ادا نہ ہوگی، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ مستحق کو مالک بنا دیا جائے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس رقم سےمستحقین کی ضرورت کا سامان خرید کر انہیں مالک بناکریہ سامان ان کو دے دیا جائے۔ کوئی شخص خود سیلاب زدگان میں تقسیم کرے اور مستحقین تک پہنچنا اس کیلئے ممکن ہو تو وہ اپنی زکوٰۃ مستحقین میں تقسیم کرے تو کوئی حرج نہیں ۔ کوئی امدادی تنظیم تقسیم کاری کی ذمے داری نبھا رہی ہو اور اس پر اعتماد بھی ہو تو اس کو یہ بتاکر کہ یہ مال زکوًۃ ہے، تب بھی زکوٰۃ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن آپ کا مسئلہ الگ نوعیت رکھتا ہے۔ کمپنی اپنے طور پر تقسیم کرےگی جس میں اس کی ضمانت نہیں ہے کہ شرعی احکام کی رعایت کی جائیگی اس لئے جس طرح دوسرے حضرات اپنی آدھی سیلری دے رہے ہیں آپ بھی سیلری ہی میں سے دیں۔ آپ کے پاس زکوٰۃ کی رقم ہو تو خود مستحقین کو پہنچانے کی کوشش کریں۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتمn

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK