• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: موزے پر مسح کا حکم، مکان کی بنیاد اور ایک نیا رواج، طلب معاش کیلئے سفر

Updated: November 01, 2024, 12:47 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)موزے پر مسح کا حکم(۲)مکان کی بنیاد اور ایک نیا رواج(۳)طلب معاش کیلئے سفر(۴)ڈیوٹی کے دوران نماز کی ادائیگی۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

موزے پر مسح کا حکم
وضو میں صرف سر کے مسح کا حکم ہے لیکن اگر کوئی شخص موزہ پہنے ہوئے ہو تو اس کے لئے پیروں کو دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کی اجازت ہے۔  سوال یہ ہے کہ موزوں سے کون سے موزے مراد ہیں کپڑے کے موزے جو عام طور سے لوگ پہنتے کیا ان پر مسح کیا جاسکتا ہے یا صرف چمڑے کے موزوں کا ہی یہ حکم ہے ؟ اس مسئلے کی کیا تفصیلات ہیں براہ کرم تحریر فرمائیں۔  عبد العلیم ،ممبئی
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق: اصل حکم تو پیروں کو دھونے کا ہے۔ موزوں پر مسح کی  اجازت ضرور ہے مگر یہ حکم چمڑے کے موزوں کا ہے، کپڑے کے موزوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ چمڑے کے موزوں کے علاوہ جن موزوں پر مسح کی اجازت ہے ان کے لئے یہ شرط ہے کہ اتنے مضبوط ہوں کہ انہیں پہن کر تین میل تک جانے پر یہ نہ پھٹیں،  نہ اتنے باریک ہوں کہ اوپر پانی پڑے تو کھال تک اثر پہنچے۔  چمڑے کے علاوہ اس طرح کے مضبوط موزے چمڑے کے موزوں کے متبادل اور قائم مقام مانے گئے ہیں اگر چہ وہ چمڑے کے نہ ہوں۔ یہ ذہن  میں رہے کہ موزوں پر مسح کے لئے بھی ایک مدت مقرر ہے ۔ مسافر ہے تو وہ تین دن تک مسح کرسکتا ہے جبکہ مقیم کے لئے صرف ایک دن رات تک مسح کی مدت ہے ۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم
مکان کی بنیاد اور ایک نیا رواج
آج کل ایک رواج یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب کوئی شخص مکان تعمیر کرتاہے تو بکرا ذبح کرکے اس کی بنیادوں میں بکرے کا خون ڈالتا ہے۔ شریعت میں اس کا کیا حکم ہے اور کیا اسے چڑھاوا کا حکم دیا جائےگا؟ عابد علی، کلکتہ 
باسمہ تعالیٰ ۔ھوالموفق: قرآن وحدیث اور کتب شرع میں اس کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں اس لئے اس کو کم ازکم بے اصل ضرور کہا جائےگا۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ غیر خدا کی پرستش کرنے والوں کا شعار ہے اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے، شرعاً اس کی قطعاً گنجائش نہیں۔  رہا سوال چڑھاوا ہونےنہ ہونے کا سو غیروں کے یہاں جو تصورات ہیں ان کے مطابق بہت ممکن ہے وہ چڑھاوا سمجھتے ہوں لیکن ایک مسلمان جو اسلام سے ادنیٰ تعلق بھی رکھتا ہے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا اس لئے جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ وہ بھی اسی رنگ میں رنگا ہے اس وقت تک چڑھاوا کہنا دشوار ہے۔ مسلمان کے متعلق جہاں تک ممکن ہو حسن ظن کا حکم ہے لہٰذا اسکے اس عمل کو جہالت پر مبنی قرار دیا جاسکتا ہے اور کچھ نہ کہا جائے تو بہتر۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
طلب معاش کے لئے سفر     
ایک شخص جو بےروزگار ہے اپنے شہر میں رہتے ہوئے ملازمت یا روزگار کا کوئی ذریعہ ممکن نہیں ہورہا ہے یا کوئی صورت ممکن بھی ہے تو قلیل آمدنی والے دوسرے شہر جائے تو وہاں بہتر ذرائع پیدا ہوسکتے ہیں، اس لئے والدین اور بیوی کی اجازت کے بغیر یا ان کی اجازت سے بغرض حصول روزگار دوسری جگہ کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں؟  توفیق عالم ،بہار
باسمہ تعالیٰ۔ ھو الموفق: والدین اور بچوں کی دیکھ بھال بنیادی ضرورت ہے۔ اگر ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں ہے تو اپنے شہر میں رہتے ہوئے روزگار تلاش کرنے کی کوشش کرے تاہم اگر ایسا کوئی انتظام نہیں  ہوسکتا  تو اپنی عدم موجودگی میں ان کی دیکھ بھال اور اخراجات کا معقول انتظام کر کے دوسری جگہ جاکر قسمت آزمائی کر سکتا ہے لیکن اگر سفر ایسا ہو جس میں خطرات ہوں یا جلد واپسی دشوار ہو تو اس صورت میں دیکھ بھال اور معقول انتظام کے علاوہ اجازت بھی ضروری ہوگی ۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم
ڈیوٹی کے دوران نماز کی ادائیگی
ایک ادارہ جس کے زیادہ تر ملازمین مسلمان ہیں، اور جس میں پورے دن بھر میں الگ الگ شفٹ میں آٹھ گھنٹے کام کے اوقات ہیں، اس ادارہ کے مینجمنٹ نے ملازمین کو کام کے اوقات میں مسجد میں باجماعت نماز کے لئے بھی اجازت دے رکھی ہے، جس میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کے اوقات شامل ہے۔ اگر ملازم ہر نماز کے لئے جائیں اور فرض، سنت اور نفل نمازوں کے ساتھ ساتھ اپنا وقت دعا، ذکر اور تسبیحات میں بھی صرف کریں اور اس طرح کل ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں نماز کے علاواہ دعا، ذکر اور تسبیحات میں اچھا خاصا وقت صرف کریں جس سے ادارہ کے دن بھر کے  کام کاج پر فرق پڑسکتا ہے تو کیا یہ مناسب ہے؟ کیا مینجمنٹ کو دین کے اعتبار سے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ ملازمین کو مسجد میں صرف باجماعت نماز کی اجازت دیں اور دعا، ذکر اور تسبیحات کی نہیں۔ یا پھر نمازوں کے اوقات کی حد طے کریں، کیا ایسا کرنے پر منیجمنٹ گناہ کا مرتکب قرار دیا جائے گا؟ عبداللہ ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔  ھوالموفق: کسی کمپنی میں ملازمت کرنے والا اجیر خاص ہوتا ہے۔ اجیر خاص شرعاً پورے مقررہ وقت تک حاضری کا پابند ہوتا  ہے۔ اگر کسی وجہ سے کمپنی میں کام نہ ہو تب بھی اسے کام کی جگہ پر حاضر  رہنا ہوگا ۔اجیر خاص کام پر حاضر ہونے کے بعد اگر تمام وقت موجود رہا تواجرت کا مستحق ہوجاتا ہے بھلے ہی مستاجر یا کمپنی کے پاس اس دن کام نہ ہو۔ نماز مسلمان ملازم کا شرعی حق ہے ۔ بہتر یہ ہے کہ آغاز ملازمت ہی میں سب کچھ طے کرلیا جائے۔ بصورت دیگر حکم یہ ہے کہ مسجد قریب ہے تو نماز کا وقت آنے کے بعد وضو وغیرہ کی ضرورت ہو تو اتنا پہلے جائے کہ وضو کے بعد سنت موکدہ سے فارغ ہوکر تکبیر اولیٰ کے ساتھ فرض میں شریک ہوسکے پھر اگر بعد میں سنت موکدہ ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد اپنے کام پر حاضر ہوجائے، دعا ،ذکر اور تسبیحات وغیرہ یلئے سنت موکدہ کے بعد مزید نہ رکے۔ تسبیحات وغیرہ راستے میں پوری کرلے یا پھر فرصت کے اوقات کے لئے موخر کردے ۔اگر کمپنی وقت مقرر کردے تو بہتر ہے مگر ملازمین صرف وضو، استنجا فرض اور سنت موکدہ کا مطالبہ کرسکتے ہیں دعا اور تسبیحات وغیرہ کے وقت کا نہیں۔ البتہ کمپنی از خود مزید وقت دے دے تو کوئی حرج بھی نہیں ۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK