شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)نئی مسجد میں قیام جمعہ(۲)مہر، آبی جانور اور سلام پھیرنے کے بعد کچھ یاد آنے پر۔
EPAPER
Updated: November 01, 2024, 12:35 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai
شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)نئی مسجد میں قیام جمعہ(۲)مہر، آبی جانور اور سلام پھیرنے کے بعد کچھ یاد آنے پر۔
نئی مسجد میں قیام جمعہ
ہمارے گاؤں میں تین مسجدیں الگ الگ محلوں میں موجود ہیں جن میں ایک جامع مسجد ہے اور اس میں زمانۂ قدیم سے نماز جمعہ ہوتی چلی آئی ہے۔ گاؤں میں ایک مدرسہ بھی ہے جس میں مسجد نہیں تھی۔ مسجد کے لئے مدرسہ کے اندر ایک زمین خریدی گئی اوراُسی زمین پرایک بہت بڑی مسجد بنائی گئی۔ گاؤں کی جامع مسجدجس میں صدیوں سے نمازجمعہ ہوتی چلی آئی ہے اس میں جگہ کم پڑ رہی ہے توکیا اس صورت میں مدرسہ والی نئی بڑی مسجد میں پورے گاؤں کے لوگ مل کر ایک ساتھ نمازجمعہ ادا کرسکتے ہیں یانہیں ؟ برائے کرم اس مسئلہ کی وضاحت فرمادیں ۔ سعید الرحمٰن، راجستھان
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: جمعہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ اس سلسلے میں قرونِ اولیٰ سے یہ اہتمام رہا ہے کہ بستی کے تمام لوگ ایک ہی جگہ جمعہ کی نماز ادا کریں لیکن جب آبادی بڑھنے لگی تو ایک سے زیادہ جگہوں پر جمعہ کی اجازت دی گئی۔ حضرات شوافع کا تو اب بھی یہی عمل ہے کہ جہاں سب لوگ ایک جگہ جمع ہوسکتے ہیں وہاں ایک ہی مقام پر جمعہ کی نماز ادا کی جائے جبکہ متاخرین احناف کے نزدیک تعدد جمعہ کی گنجائش ہے لیکن بہتر اب بھی یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ایک ہی مسجد میں سب لوگ ایک ساتھ جمعہ پڑھیں۔ صورت مسئولہ کے مطابق گاؤں کی تین مسجدوں میں سے ایک مسجد جامع ہے جہاں عرصۂ دراز سے جمعہ کی نماز ہوتی ہے لیکن غالباََ آبادی کے بڑھ جانے کی وجہ سے جامع مسجد میں جگہ کم پڑ رہی ہے جبکہ مدرسہ کے لئے جو مسجد بنائی گئی ہے وہاں سب لوگ ایک ساتھ جمعہ پڑھ سکتے ہیں۔ اس صورت حال میں بہتر صورت تو یہ ہوگی کہ قدیم مسجد جامع کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ اب بھی وہاں حسب سابق بفراغت ایک ساتھ جمعہ پڑھا جاتا رہے۔ البتہ اگر آس پاس کوئی جگہ توسیع کے لئے دستیاب نہیں اور جگہ واقعی کم پڑرہی ہے تو اس صورت میں مدرسہ کی مذکورہ مسجد میں بھی جمعہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مدرسہ والے اور جو مدرسہ کے قریب کے رہنے والے ہیں وہ مدرسہ میں جمعہ پڑھ لیا کریں اور جو قدیم جامع مسجد کے اطراف میں رہتے ہیں وہ حسب سابق وہیں پڑھتے رہیں لیکن اگر شوافع کی بستی ہے تو فقہ شافعی کے مطابق ایک ہی جگہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
مہر، آبی جانور اور سلام پھیرنے کے بعد کچھ یاد آنے پر
(۱) والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس سے قبل ان کی بیوی یعنی ماں کا انتقال ہوا ہے۔ بیٹیاں بھائی کے پاس سے مہر مانگ رہی ہیں، کیا کیا جائے؟
(۲) سمندر سے دستیاب ہونے والی چیزیں ماکول، سیپ اور کیکڑا کھانا کیسا ہے؟
(۳) فرض نماز ہو یا سنت، دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد اگر یاد آ جائے کہ میں نے صرف دو رکعت یا تین رکعت ہی ادا کی ہیں تو کیا چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہونا چاہئے یا دوبارہ نماز ادا کرنا چاہئے؟ اشفاق کوپے، گوہا گر
باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: (۱) ماں کی وفات کے وقت ان کے شوہر (یعنی آپ کے والد) زندہ تھے تو مہر کی ادائیگی ان کے ذمے تھی لیکن اس میں ایک چوتھائی ان کا حصہ تھا۔ اگر مرحومہ کے والدین فوت ہوچکے تھے توباقی تین چوتھائی لڑکوں لڑکیوں کا حق تھا، ایک حصہ ہر لڑکی کا اور دو حصے ہر لڑکے کا ہوتا تھا۔ اگر والد صاحب نے بچوں کو مہر میں ان کا حصہ نہیں دیا تھا تو اب ان کے ترکہ سے ادا کیا جائےگا۔ والد کا جو ایک چوتھائی حصہ تھا وہ بھی ان کے ترکہ میں شامل ہو کر مرحوم کے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ واللہ اعلم
(۲) احناف کے نزدیک دریائی جانوروں میں صرف مچھلی حلال ہے جبکہ حضرات شوافع کے نزدیک مینڈک اور کیکڑے کے علاوہ دوسرے سمندری جانور، سیپ وغیرہ کا کھانا جائز ہے۔ ماکول بھی ان کے یہاں حلال ہے۔ بعض معتبر شوافع کے مطابق یہ بھی ایک قسم کی مچھلی ہے لیکن میں اس کی کما حقہ تحقیق نہیں کرسکا۔ احناف تحقیق کے بعد ہی اس کے مطابق عمل کریں۔ و اللہ اعلم
(۳) نماز میں قعدۂ اخیرہ فرض ہے۔ دو رکعت والی نماز میں قعدۂ اخیرہ دو رکعت پر اور تین رکعت والی نماز میں تیسری رکعت پوری ہونے کے بعد قعدۂ اخیرہ ہے لیکن چار رکعت میں قعدۂ اخیرہ چوتھی رکعت کے بعد ہے لہٰذا تیسری رکعت پر بیٹھنا سجدۂ سہو کا موجب ہے لہٰذااگر تیسری رکعت پر بیٹھ کر سلام پھرنے کے بعد یاد آیا کہ یہ تیسری رکعت تھی تو اگر سلام پھیرنے کے بعد کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو نماز کے منافی ہو تو کھڑے ہوکر چوتھی رکعت پوری کرنے کے بعد آخر میں سجدہ سہو کرلے۔ نماز ہوجائےگی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم