حالیہ الیکشن میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار محض اس لئے کھڑے کئے گئے تھے کہ وہ ووٹ کاٹ سکیں۔ پیسوں کی ریل پیل دیکھی گئی، مذہبی کارڈ بھی کھیلا گیا۔ ’ووٹ جہاد‘ اور ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا شوشہ چھوڑ کر دھرم یدھ کی بات کی گئی۔
EPAPER
Updated: November 28, 2024, 10:35 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
حالیہ الیکشن میں بڑی تعداد میں آزاد امیدوار محض اس لئے کھڑے کئے گئے تھے کہ وہ ووٹ کاٹ سکیں۔ پیسوں کی ریل پیل دیکھی گئی، مذہبی کارڈ بھی کھیلا گیا۔ ’ووٹ جہاد‘ اور ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا شوشہ چھوڑ کر دھرم یدھ کی بات کی گئی۔
۲۳؍ نومبر کو جو نتائج ظاہر ہوئے ان سے لگتا ہے کہ جہاں جو پارٹی اقتدار میں تھی وہاں اس کے امیدوار جیتے ہیں مثلاً جھارکھنڈ میں انڈیا اتحاد کی، بنگال میں ترنمول کانگریس کی، وائناڈ میں پرینکا گاندھی کی، یوپی میں بی جے پی کی (۷؍ میں سے ۵) اور پنجاب میں آپ (۴؍ میں سے ۳) کی جیت ہوئی ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی، اجیت پوار کی این سی پی اور ایکناتھ شندے کی شیوسینا اقتدار میں تھی لہٰذا اس کے امیدواروں کا زیادہ تعداد میں جیتنا حیرت کی بات نہیں ہے مگر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایک عام تاثر یہ تھا کہ یہی الیکشن مہاراشٹر میں شندے حکومت کے چل چلاؤ کا باعث بنے گا مگر ہوا یہ کہ
l اگرچہ کانگریس اور شیوسینا (شندے) کو ملنے والے ووٹوں کا فیصد برابر رہا مگر کانگریس کو ۱۶؍ اور شیوسینا (شندے) کو ۵۷؍ سیٹیں حاصل ہوئیں۔ حکمراں محاذ یا اتحاد میں تین اہم پارٹیاں تھیں جن میں بی جے پی کو ۲۶ء۷۷، شیوسینا (شندے) کو ۱۲ء۳۸؍ اور این سی پی (اجیت پوار) کو ۹ء۰۱؍ فیصد ووٹ حاصل ہوئے جبکہ کانگریس کو ۱۲ء۴۲، شیوسینا (ادھو) کو ۹ء۹۶؍ اور این سی پی (شردپوار) کو ۱۱ء۲۸؍ فیصد ووٹ حاصل ہوئے مگر کانگریس، شیوسینا (ادھو) اور این سی پی (شردپوار) کو نسبتاً کم سیٹیں حاصل ہوئیں۔ سماجوادی پارٹی نے ۰ء۳۸؍ فیصد ووٹ پا کر دو سیٹیں جیتیں اور مجلس اتحاد المسلمین نے ۰ء۸۵؍ فیصد ووٹ پا کر محض ایک سیٹ پر ۱۶۲؍ ووٹوں کی معمولی اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔
ایسا کئی حلقوں میں ہوا اور شاید اسلئے ہوا کہ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار محض اسلئے کھڑے کئے گئے تھے کہ وہ ووٹ کاٹ سکیں۔ پیسوں کی ریل پیل دیکھی گئی، مذہبی کارڈ بھی کھیلا گیا۔ ’ووٹ جہاد‘ اور ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا شوشہ چھوڑ کر دھرم یدھ کی بات کی گئی۔ حزب مخالف کے امیدواروں حتیٰ کہ مسلم امیدواروں میں سے بھی بعض نے خوب روپے خرچ کئے۔ جہاں تک مسلم حلقوں کا معاملہ ہے ایسا لگتا ہے کہ ایک طبقہ فیصلہ کئے بیٹھا ہے کہ الیکشن کو وہ کمائی کا ذریعہ بنائے گا۔ ای وی ایم پر بھی سوال اٹھے، ممکن ہے تمام اعتراضات یا شکوک صحیح نہ ہوں مگر سب بے بنیاد بھی نہیں ہیں۔ مَیں خود اپنی بیوی کے ساتھ جس بوتھ پر ووٹ ڈالنے گیا اور ووٹ ڈال کر واپس آنے لگا تو ایک افسر نے روکا کہ مشین سے آواز نہیں آئی ہے۔ مَیں نے یہ سوچ کر کہ ممکن ہے کمزوری کے سبب بٹن دبانے میں کوتاہی ہوئی ہو دوبارہ مشین کی طرف بڑھنا چاہا تو مشین سے آواز آنے لگی۔ اب یہ کون پوچھتا کہ مشین سے آواز آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟
الیکشن سے پہلے کچھ لوگوں نے اتحاد امت کے نعرے بھی دیئے تھے۔ کئی میٹنگیں بھی ہوئی تھیں مگر الیکشن نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب حکمراں پارٹیوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے تھا۔ ملی قیادت کی بھی دہائی دی گئی مگر نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فائدہ انہیں کو پہنچا جنہیں ہرانے کیلئے یہ نعرے دیئے جا رہے تھے مثلاً شردپوار کی این سی پی نے اجیت پوار کی این سی پی کے مقابلے ۲ء۲۷؍ فیصد زیادہ ووٹ حاصل کئے مگر ان کی این سی پی کے محض ۱۰؍ اور اجیت پوار کی این سی پی کے ۴۱؍ امیدوار کامیاب ہوئے۔ اسی طرح شندے سینا نے ادھو سینا کے مقابلے محض ۲ء۴۲؍ فیصد زیادہ ووٹ حاصل کئے مگر ان کے ۵۷؍ اور ادھو سینا کے ۱۰؍ امیدوار ہی کامیاب ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۰؍ حلقوں میں امیدوار اتارنے والی ونچت بہوجن اگھاڑی اور ۱۵۵؍ حلقوں میں امیدوار کھڑے کرنے والی نو نرمان سینا (راج ٹھاکرے) کا ایک بھی امیدوار نہیں جیت سکا۔ یہ بھی عجیب ستم ظریفی تھی کہ ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسے نعروں کی مخالفت اجیت پوار اور پنکجا منڈے نے تو کی کسی سیکولر یا مظلوموں کی حمایت کرنے والی کسی پارٹی نے یہ دعویٰ یا احتجاج نہیں کیا کہ سماج کے ایک طبقے کو دستوری حق سے محروم کرنے کے ساتھ مطعون بھی کیا جا رہا ہے کہ ان کی منہ بھرائی کی جارہی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ خاص الیکشن کے موقع پر مذہب و ملت کے نام پر ووٹوں کی اپیل کرنے والے کہاں سے آجاتے ہیں؟ اور اول جلول بکتے ہیں۔
اپوزیشن محاذ یا اتحاد میں اختلاف بھی تھا۔ شیوسینا (ادھو) نے اعلان کیا تھا کہ گوتم اڈانی کو جس طرح دھاراوی کا پروجیکٹ دیا گیا ہے وہ رد کیا جائے گا مگر این سی پی (شرد) نے اس پر نظر ثانی کی بات کہی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد جان بوجھ کر ہارا ہے کہ نئی حکومت گوتم اڈانی کو پروجیکٹ پورا کرنے میں مدد کرے مگر یہ تو سب سمجھتے ہیں کہ اڈانی کی دولت نے مہاراشٹر کے الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
دوسری طرف مسلم ووٹروں کو حاشیے پر رکھنے کی حکمت عملی کے تحت خاموش مگر پُرزور مہم چلائی گئی۔ ادھو اور شردپوار کو خاص طور سے نشانہ بنایا گیا کہ پہلے نے بی جےپی سے ناطہ توڑا تھا اور دوسرے نے امیت شاہ سے پنجہ آزمائی کی تھی مگر مسلم ووٹوں کی اکثریت انہیں کے ساتھ رہی۔ مجلس اتحاد المسلمین اور سماجوادی پارٹی میں کشمکش دیکھی گئی مگر خود سماجوادی پارٹی بھی اس کشمش کا شکار ہوئی۔ لاڈلی بہن یوجنا کے تحت ۸۰؍ تا ۹۰؍ لاکھ عورتوں کے کھاتوں میں ساڑھے سات ہزار روپے جمع ہوئے ہیں اس کا فائدہ یقیناً حکمراں محاذ یا اتحاد کو پہنچا ہے۔ حکمراں اتحاد دیر سویر حکومت سازی بھی کر لے گا مگر یہ سوچنا کہ شیوسینا اور این سی پی ہمیشہ کے لئے ہار گئی ہے غلط ہوگا۔ جمہوریت میں اس قسم کے فیصلے آتے رہتے ہیں مگر محروم و مظلوم طبقے میں جس طرح لالچ اور فوری فائدے کو فروغ دیا جا رہا ہے اس سے ظالم کی حمایت کا رجحان بڑھے گا۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ حالیہ الیکشن میں ایک ہی مثبت پہلو سامنے آیا کہ عوام نے ان سیاسی نمائندگان کو سبق سکھا دیا جو استحکام کا نعرہ لگا کر انتشار کو دعوت دیتے اور سودے بازی کرتے ہیں یا پہلے سودے بازی کر چکے ہیں۔ آئندہ ان اشخاص کو بھی سبق سکھائیں گے جو مذہب و ملت اور چودھراہٹ کے نام پر الیکشن کو کمائی کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ملی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو مہاراشٹر کا حالیہ الیکشن الیکشن تھا ہی نہیں ووٹوں کی خرید و فروخت تھی۔ اس خرید و فروخت نے کسی نے دھیمی اور کسی نے بلند آواز میں یہی آواز دی کہ ’’باپ بڑا نہ بھیّا سب سے بڑا روپیہ!‘‘n