• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

فتاوے: محرم کے روزوں کی تعداد، دادا کی پراپرٹی پوتوں کے نام، معتمر کا طواف

Updated: July 12, 2024, 2:46 PM IST | Mufti Azizurrehman Fatehpuri | Mumbai

شریعت کی روشنی میں اپنے سوالوں کے جواب پایئے۔ آج پڑھئے:(۱)محرم کے روزوں کی تعداد (۲)دادا کی پراپرٹی پوتوں کے نام (۳) مطاف میں نماز اور غیرمعتمر کا داخلہ (۴) معتمر کا طواف۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

محرم کے روزوں کی تعداد
 محرم کے کتنے روزے رکھتے ہیں اور کون کون سی تاریخ کو رکھ سکتے ہیں ؟ ظفر علی، کرناٹک
 باسمہ تعالیٰ۔ ھوالموفق: حضورﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ وہاں جو یہودی آباد تھے وہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو بطور خاص روزہ رکھتے ہیں۔ دریافت فرمایا تو معلوم ہوا کہ اسی تاریخ کو موسیٰ علیہ السلام اور ان قوم کو فرعون سے نجات ملی، یہ روزہ اس کی خوشی میں رکھا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریبی ہیں اس لئے آئندہ، ہم بھی یہ روزہ رکھیں گے ، نیز یہ بھی فرمایا کہ یہود کی مشابہت نہ ہو اس لئے ساتھ میں ایک روزہ مزید رکھیں گے۔ علماء نے لکھا ہے کہ مستحب یہ ہے کہ ۹؍ اور ۱۰؍محرم کے روزے رکھیں تاہم اگر کوئی ۹؍ کو نہ رکھ سکے تو ۱۱؍ محرم کو رکھ لے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
دادا کی پراپرٹی پوتوں کے نام 
 میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے دادا کی ایک پرا پرٹی ہے جسے دادا نے میرے والد کے زندہ رہتے میرے اور میرےچچازاد بھائی کے نام کر دیا تھا جبکہ ہماری بہنوں کا وصیت میں کوئی ذکر نہیں ، تو کیا اس میں سے بہنوں کو حصہ دینا پڑےگا؟برائے مہر بانی اس مسئلہ کا حل دین فطرت کالم کے تحت بتائیں۔ عبداللہ، دہلی
 باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: کسی وارث یا غیر وارث کو اپنی زندگی میں جائیداد یا اس کا کوئی حصہ دینا ھبہ کہلاتا ہے اور اگر یہ کہے یا لکھ کر دے میرے بعد فلاں زمین یا مکان وغیرہ فلاں کو دیا جائے تو اسے وصیت کہتے ہیں۔ ھبہ کے صحیح ہونے کے لئے یہ ضـروری ہے کہ اپنی زندگی ہی میں مالکانہ قبضہ دےکر جسے ھبہ کررہا ہے اس کی تحویل میں دےدے اور اگر دو یا زیادہ افرادکو دے رہا ہے تو اگر ایسی جائیداد ہے کہ تقسیم کی جاسکتی ہے تو تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصے پر مالکانہ قبضہ دے دے ورنہ ھبہ مکمل نہیں ہوگا۔ آپ کی تحریر سے بظاہر یہ سمجھ میں آتاہے کہ دادا نے دونوں کو صرف نامزد کیا ہے، نہ مالکانہ قبضہ دیا نہ تقسیم کرکے ہر ایک کا حصہ اس کے حوالے کیا۔اگر واقعی صورت حال یہی ہے تو نہ ھبہ مکمل ہوا نہ ہی آپ دونوں اس زمین کے مالک ہوئے۔ اس صورت میں یہ بھی دادا کے ترکے میں شامل ہوگی اور ان کے تمام ورثاء اس میں بھی حق دار ہوں گے۔ اس صورت میں وصیت بھی بے معنی ہے البتہ اگر ھبہ کے بجائے صرف وصیت ہو تو ہمیں وصیت نامہ دیکھنا پڑے گا لہٰذا یا تو وصیت نامہ بھیجیں یا پھر مقامی مستند علماء سے دریافت کرلیں جن کا فقہ وفتاویٰ سے بھی تعلق ہو۔واللہ اعلم وعلمہ اُتم
مطاف میں نماز اور غیرمعتمر کا داخلہ
 (۱) مطاف میں نماز سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے سے یا اس سے بھی پہلے سے لوگ صف لگانا شروع کر دیتے ہیں ، اس سے طواف کرنے والوں کا راستہ رکتا ہے۔کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ فہد خان، ممبئی
 باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: خانہ کعبہ میں ایک نماز کا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔ اس اجروثواب کے لئے لوگ وہاں وقت سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کو دیکھنا بھی باعث اجر و ثواب ہے ۔ بہت سے افراد تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ہیں مگر یہ حضرات کچھ دوری پر ہوتے ہیں۔ طواف وہاں کی اہم عبادت ہے وہ بھی جماعت کھڑی ہونے سے پہلے تک جاری رہتا ہے۔ لوگ گھنٹہ بھر پہلے مطاف میں اس طرح صف بندی کر لیں کہ طواف رک جائے، یہ مشاہدہ کے سراسر خلاف ہے۔ پھر وہاں دیکھ بھال کیلئے حرم کے شرطی (پولیس والے) مامور اور مستعد رہتے ہیں۔ صف بندی پر نظر رکھنا یہ بھی ان کی ڈیوٹی کا حصہ ہوتا ہے اس لئے اتنا پہلے اس طرح سے صف بندی صریح مبالغہ ہے۔ اس سے حاجیوں کے متعلق بدظنی بھی ہوسکتی ہے اس لئے ایسے مبالغوں وغیرہ سے بچنا چاہئے تاہم اگر کبھی واقعی ایسا ہونے لگے تو جن کی وہاں ڈیوٹی ہو اور جو ذمہ دار ہیں ، ان کو مناسب سدباب کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
 (۲)مطاف میں صرف عمرہ والوں کو جانے کی اجازت ہے تو کیا اس صورت میں قریب سے طواف کرنے کے لئے یا کعبہ شریف کے قریب نماز پڑھنے کے لئے غیر معتمر اگر احرام کی چادریں پہن کے چلا جائے تو ایسا کرنا مناسب ہے؟ فراز احمد ، ممبئی
باسمہ تعالیٰ ھوالموفق: یہ اس دور کا ایک نیا مسئلہ ہے ایسے مسائل کو نوازل الفقہ اور نوازل الفتاویٰ کہا جاتا ہے۔ در اصل حجاج کرام کی کثرت کے سبب حکومت نے غالباً حاجیوں کی سہولت ہی کے لئے یہ پابندی لگائی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر کچھ لوگ یہ قیاس کرتے ہیں کہ پابندی حکومت کی طرف سے ہے نہ کہ شریعت کی طرف سے جبکہ کثرت ِطواف ہر مسلمان کے لئے باعث اجر وثواب ہے۔ اس لئے اگراس پابندی سے بچنے کے لئے وقتی طور پر احرام کی چادریں پہن لی جائیں تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئے لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ صاف صاف منتظمین کو دھوکہ دینا ہے اس لئے اگر اس فعل کو حرام نہ کہا جائے تب بھی نامناسب بہر حال ہے۔ اس سے بہتر تو یہ حل ہے کہ مثلاً مسجد عائشہ ؓ سے عمرہ کا احرام باندھ کر عمرہ ہی کرلیا جائے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم
معتمر کا طواف
 کیا معتمر کو حرم سے واپسی پر طواف کرنا لازم ہے؟ 
فراز احمد، ممبئی
باسمہ تعالیٰ۔ھوالموفق: عمرہ میں میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ پہنچنے کے بعد عمرہ کے واجبات یہ ہیں : خانۂ کعبہ کاطواف، اس کے بعد صفاومروہ کی سعی، پھر سعی سے فارغ ہوکر حلق یا قصر کے ذریعہ احرام سے باہر آجانا، یہاں عمرہ مکمل ہوگیا۔ اس کے بعد مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے جتنے چاہیں نفلی طواف اور عمرہ کرتے رہیں، شرعاً معتمر کے ذمے مزید کوئی طواف نہیں ہے۔ واپسی کے وقت طواف حاجیوں کے لئے ہے اور یہ حاجی پر واجب ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اُتم

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK