دستور اور آئین پر عمل آوری کے چار محرکات ہیں۔
EPAPER
Updated: December 20, 2024, 4:07 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
دستور اور آئین پر عمل آوری کے چار محرکات ہیں۔
قدرت نے دو قوتیں انسان کے ساتھ رکھی ہیں، ایک انسان کی خواہشات، دوسرے اخلاقی جوہر، خواہشات بعض اچھی بھی ہوتی ہیں، اور بعض بُری بھی، خواہشات کی دنیا بہت وسیع ہے، اگر انسان ہر خواہش پوری کرنے لگے تو وہ گناہ سے بچ نہیں سکتا، مثلاً انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت کما لے، چاہے اس کیلئے رشوت لینی اور دینی پڑے، ظلم وزیادتی کا راستہ اختیار کرنا پڑے، دوسروں کی زمینوں اور جائیداد پر ناجائز قبضہ کی نوبت آجائے جبکہ اخلاقی جوہر انسان کو نیکی و بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور ظلم و زیادتی اور بُری باتوں سے روکتا ہے، ان دو قوتوں کو حدیث میں لمۂ ملکوتی اور لمۂ شیطانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف : ۱؍۱۹، باب فی الوسوسۃ )۔ مہذب انسانی معاشرہ میں انسانی خواہشات کو اخلاق کے دائرہ میں رکھنے کیلئے قانون بنایا جاتا ہے؛ اس لئے قانون کی بڑی اہمیت ہے اور اسی پر سماج میں عدل و انصاف کا قائم رہنا موقوف ہے۔
چند روز پہلے ۲۶؍ نومبر کی تاریخ گزری ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جسے ہم ’’یومِ آئین‘‘ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ مجلس دستورساز نے ۲۶؍ نومبر ۱۹۴۹ء کو آئین ہند کو اپنایا تھا۔
قانون کے سلسلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قانون کا کام انسانی زندگی کی تہذیب ہے، تہذیب کے معنی ’’ کانٹ چھانٹ‘‘ کے ہیں، جیسے ایک مالی پھول پودے لگاتا ہے؛ لیکن اگر صرف پودے لگا کر چھوڑ دے تواحاطہ کو جنگل بننے میں دیر نہیں لگے گی، اسی لئے اس کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے اورقرینہ کے ساتھ اس کو سنوارا جاتا ہے، یہی حال انسانی خواہشات و جذبات کا ہے، انسان کے اندر جو خواہشات رکھی گئی ہیں، وہ اپنی اصل کے اعتبار سے بُری نہیں ہیں لیکن جب یہ اعتدال کی حد سے گزرتی ہیں تو دوسروں کے ساتھ ناانصافی کی صورت اختیار کرلیتی ہیں ؛ اسی لئے قانون کی ضرورت پڑتی ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو رکھے، اور اس کو عدل واعتدال کے دائرہ سے باہر نہ جانے دے۔ قرآن مجید کی اصطلاح میں اسی کا نام ’’تقویٰ ‘‘ہے اور قرآن مجید نے ۴۷؍ مواقع پر مختلف اُسلوب میں تقویٰ اختیار کرنے کی تاکید کی ہے اور اسے سراہا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ قانون بنانے کاحق کس کو ہے؟ ایک جملہ میں اس کا جواب یہ ہے کہ جو علم بھی رکھتا ہو اور عدل و انصاف بھی کرسکتا ہو۔ جو شخص کسی کی ضروریات اوراس کے فائدہ و نقصان سے واقف نہ ہو، وہ اس کے مسائل کے بارے میں یقیناً صحیح رہنمائی نہیں کرسکتا، مثلاً اگر کمپیوٹر انجینئر سے کہا جائے کہ وہ ڈاکٹروں کے لئے ضابطۂ اخلاق متعین کرے اور ڈاکٹر سے کہا جائے وہ کسی صحافی کے مسائل حل کرے تو یہ یقیناً غیر دانشمندی اور ناسمجھی کی بات ہوگی؛ اس لئے قانون وہی بنا سکتا ہے، جو ان لوگوں کی ضروریات اور مصالح و مفاسد سے پوری طرح باخبر ہو جن کیلئے قانون بنا رہا ہے ورنہ اس کا بنایا ہوا قانون ہرگز قابل عمل نہیں ہوگا۔
اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ قانون بنانے والے ان تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کر سکیں، جن کے لئے قانون بنایا گیا ہے، مثال کے طور پر ہمارے ملک میں مسلمانوں سے کہا جائے کہ وہ اس ملک کا دستور بنائیں تو وہ اپنے طبقہ کی بھلائی دیکھیں گے، ہندوؤں، سکھوں اوردوسرے مذہبی گروہوں کے ساتھ ممکن ہے وہ انصاف نہ کرپائیں، یہی حال اس وقت ہوگا جب ہندوؤں یا سکھوں کے ہاتھ میں قانون کی باگ دے دی جائے، اسی طرح اگرایک علاقہ کے لوگ قانون بنانے کا اختیار رکھتے ہوں تو وہ دوسرے علاقہ کے لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے؛ اس لئے یہ ضروری ہے کہ قانون بنانے والی شخصیت علم اور عدل دونوں کی حامل ہو۔
اسی لئے اسلام کی نظر میں اصل قانون بنانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ علیم و خبیر ہے یعنی پوری کائنات اس کے علم میں ہے اوروہ ذرّہ ذرّہ سے باخبر ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنی اس صفت کو بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے ساتھ ذرا بھی ظلم نہیں کرتا، اس کی ذات ظلم و تعدی سے ماوراء ہے، یہ بھی اسی حقیقت کا اظہار ہے کہ انسان کے لئے زندگی کا قانون مقرر کرنا اور دستور بنانا خدا ہی کا حق ہے: ’’حکم صرف اللہ ہی کا ہے۔ ‘‘ ’’خبردار! (ہر چیز کی) تخلیق اور حکم و تدبیر کا نظام چلانا اسی کا کام ہے۔ ‘‘(الاعراف : ۵۴ )
انسان کا بنایا ہوا قانون ہمیشہ ان دو پہلوؤں میں سے کسی پہلو سے ناقص رہے گا، یا تو وہ علم کی کوتاہی پر مبنی ہو گا، یا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے سے قاصر ہو گا، اسی لئے قانون میں مذہب کی بڑی اہمیت ہے؛ کیوں کہ مذہب کا رشتہ خدا کی تعلیمات سے جڑا ہوا ہوتا ہے؛ لہٰذا جو مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ہوگا، وہ انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور انسانی ضروریات کی تکمیل کا اہل ہوگا۔ قانون جب مذہب سے آزاد ہوتا ہے تو اپنے اصل مقصد کو کھودیتا ہے۔
قانون کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی خواہشات بے لگام نہ ہو جائیں لیکن جب مذہب کی دیوار ٹوٹ جاتی ہے تو پھر خواہشات کیلئے کوئی سر حد باقی نہیں رہتی۔ انسان اپنے آپ کو آزاد کہتا ہے ؛ لیکن حقیقت میں وہ اپنی ہی خواہشات کا غلام ہوتا ہے، یہ غلامی بعض اوقات انسانوں کی غلامی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے کیوں کہ یہ انسان کو فطرت کا باغی بنا دیتی ہے اور فطرت سے بغاوت، چٹان سے سر ٹکرا نے کے مترادف ہے۔
اس کی مثال آج کی مغربی تہذیب ہے، مغرب نے آج قانون کو مذہب و اخلاق کی حدود سے آزاد کردیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو چیزیں انسان کیلئے واضح طور پر مہلک اورنقصان دہ ہیں اُن کو بھی جائز ٹھہرا لیا گیا ہے، مثال کے طور پر انسان کا ہوش و حواس کی حالت میں ہونا فطرت کے مطابق ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص بے ہوش ہو جائے تو اس کے تمام متعلقین بے قرار ہو جاتے ہیں، شراب اور دوسری منشیات کا کام بھی یہی ہے کہ وہ کم یا زیادہ دیر کیلئے انسان کے عقل و شعور کو معطل کر کے رکھ دیتی ہیں، نیز وہ جسم کے بہت سے اعضاء کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں ؛ بلکہ اکثر حالات میں وہ ایسے زہر کا کام کرتی ہیں جو بتدریج انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے؛ اس لئے ساری میڈیکل دنیا نشہ آور چیزوں کے نقصان دہ ہونے پر متفق ہے، اس کے باوجود آج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک نے شراب کو عام ہونے دیا ہے اور اسے سند ِجواز عطا کیا ہے۔
اسی طرح اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ خدا نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کی صنفی ضرورت کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہے؛ اس لئے ہمیشہ سے مرد و عورت کا ایک دوسرے سے نکاح ہوتا رہا ہے؛ کہ اس میں ایک دوسرے کی ضرورت کی تکمیل بھی ہے اور نسل انسانی کی افزائش بھی۔ دنیائے طب کے تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اس کے بر خلاف مرد یا عورت کا اپنی ہی جنس سے صنفی خواہش کو پورا کرنا نہایت ہی نقصان دہ ہے، اور یہ ایڈز جیسی خطرناک اور لاعلاج بیماری کا سبب بنتا ہے، اس کے باوجود آج اکثر مغربی ملکوں نے اس باغیانہ طریقۂ کار کو جائز قرار دیا ہے؛ اس لئے یہ حقیقت ہے کہ قانون اگر مذہب سے آزاد ہو جائے تو بے سمتی اختیار کرلیتا ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ جمہوری ممالک مذہب اور اخلاق کی مسلمہ اقدار کے دائرہ میں رہتے ہوئے قانون بنائیں۔
قانون پر عمل کرنے کے لئے عام طور پر چار محرکات ہوتے ہیں، قانون کا خوف، ضمیر کی آواز، سماج کا خوف، خدا اور آخرت کا تصور۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ قانون جب بھی کسی چیز کا حکم دیتا ہے، یا کسی بات سے منع کرتا ہے، تو اس کی مخالفت کے لئے سزا بھی تجویز کرتا ہے۔ سزا کا خوف انسان کو قانون کی مخالفت سے باز رکھتا ہے لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ قانون کا خوف اسی وقت تک ہوتا ہے، جب تک کہ قانون کی آنکھ دیکھ لے، جب کوئی دیکھنے والی آنکھ اور ٹوکنے والی زبان موجود نہ ہو تو انسان قانون توڑنے پر جری ہو جاتا ہے۔
دوسرا محرّک ضمیر کی آواز ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرتِ سلیم پر پیدا فرمایا ہے؛ اس لئے فطری طور پر وہ گناہ سے شرم محسوس کرتا ہے اور اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان جرم کو چھپا کر کرنا چاہتا ہے۔ بہت سے قاتلوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ عدالت سے تو بری ہوگئے لیکن اندرونی احساسِ ملامت کی وجہ سے مختلف نفسیاتی امراض نے انہیں گھیرلیا۔
قانون شکنی سے بچنے کا تیسرا محرّک سماج کا خوف ہے، انسان کے لئے سماج کی حیثیت حصار کی ہے، وہ اس حصار کے اندر رہ کر ہی زندگی گزار سکتا ہے؛ اسی لئے اسے ’’ سماجی حیوان‘‘ کہا جاتا ہے، انسان چاہتا ہے کہ وہ اپنے سماج میں اس طرح رہے کہ لوگ اس پر اعتماد کریں، اس کا احترام کریں اور وہ لوگوں کا محبوب بن کر رہے، نفرت و بے اعتمادی کے ماحول میں انسان کی زندگی بے سکون ہو جاتی ہے اور سکون ہی انسان کیلئے سب سے زیادہ مطلوب شئے ہے؛ لیکن جب ایک دفعہ انسان کا مجرمانہ چہرہ سماج کے سامنے آجاتا ہے تو پھر جھجک ختم ہو جاتی ہے اور انسان سوچنے لگتا ہے کہ جب کردار کا چہرہ داغدار ہو ہی چکا ہے، تو ایک داغ لگے یا دس، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ سوچ سماجی خوف کو کم کردیتی ہے۔
قانون شکنی کو روکنے والا تیسرا محرّک خدا کا خوف اور آخرت کی جوابدہی کا احساس ہے۔ یہ خوف رات کی تاریکی اور گھر کی تنہائی میں بھی انسان کے ہاتھ تھام لیتا ہے اوراس کو جرم سے باز رکھتا ہے۔ رسولؐ اللہ کے عہد میں متعدد واقعات ایسے پیش آئے ہیں کہ جن لوگوں سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا، انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ اس غلطی کی سزا نہایت ہی سنگین اور سخت ہے، خدا کے سامنے جوابدہی کے احساس کے تحت خود حاضر ہو کر غلطی کا اعتراف کیا، اور خواہش کی کہ اس پر سزا جاری کردی جائے، یہی وجہ ہے کہ آج کے دورِ انحطاط میں مذہبی شخصیتوں کے یہاں جرم کا تناسب سب سے کم ہے، اخبارات میں بعض اوقات مذہبی شخصیتوں سے متعلق بعض افسوسناک خبریں آجاتی ہیں ؛ لیکن مجموعی تعداد کے لحاظ سے ان کا تناسب بمقابلہ دوسرے لوگوں کے بہت کم ہوتا ہے۔ اگر کپڑا سیاہ ہو جائے اور اس پر روشنائی کی ایک دوات بھی ڈال دی جائے، تو بدنمائی نہیں ہوتی لیکن سفید کپڑے کو بد نما کرنے کیلئے ایک قطرہ کا گرجانا بھی کافی ہوتا ہے، یہی مثال مذہبی شخصیتوں اور معاشرہ کے دوسرے گروہوں کی ہے، پس یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ مذہب ی وجہ سے انسان پوری طرح قانون کی خلاف ورزی سے رُک جاتا ہے مگر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ قانون کی خلاف ورزی سے بچانے کا سب سے اہم، بڑا اور مؤثر محرّک ہے !
اس لئے قانون کا مذہب سے گہرا تعلق ہے، کم سے کم ایک محب وطن ہونے کی حیثیت سے ہندوستان کے بارے میں ضرور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مغرب کی پیروی میں اور امریکہ ویورپ کے دباؤ سے متأثر ہو کر ایسے قوانین نہیں بنانے چاہئیں جو مذہب اور اخلاق کے دائرہ سے باہر ہو جائیں، جن سے مسلّمہ قدریں ٹوٹ جائیں اور جو فطرت سے بغاوت کے دائرہ میں آجائیں۔ اسی میں ملک کی بھی بھلائی ہے اور انسانیت کی بھی۔