اگر ایسا ہوا تو ہماری درسگاہوں سے صرف امتحانی رپورٹ کارڈ پر مارکس کے ’کارنامے‘ انجام دینے والے طلبہ ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں لائق و قابل طلبہ بھی تیار ہوں گے۔
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 2:28 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai
اگر ایسا ہوا تو ہماری درسگاہوں سے صرف امتحانی رپورٹ کارڈ پر مارکس کے ’کارنامے‘ انجام دینے والے طلبہ ہی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں لائق و قابل طلبہ بھی تیار ہوں گے۔
زبان کی اہمیت سے ہر کوئی واقف ہے۔ بچّہ جب بولنا شروع کرتا ہے، وہیں سے اُس کا وجود عمل میں آنا شروع ہوتا ہے اور آگے چل کر زبان ہی اُس کی شناخت بن جاتی ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان اپنی زبان کے نیچے پوشیدہ ہے۔ عالم و جاہل، دانا و ناداں، مہذب و غیرمہذب، با شعور و بے شعور، شائستہ و غیر شائستہ، اِن سب میں امتیاز کرنے کا معیار زبان ہی ہے۔ زبان ہی سے انسان کی علمی سطح کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اسی بناء پر بنیادی تعلیمی اداروں سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زبان، زباندانی، لسانیات سے زیادتی اور استحصال کو برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ دریں اثنا ٹیکنالوجی کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش بھی ہوئی کہ ٹیکنالوجی بڑھتی جارہی ہے، اسلئے زبان کا معیار گھٹتا جارہاہے حالانکہ مثبت طریقے سے سوچیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبانیں جن سے ہم واقف ہیں اُنھیں مزید سیکھنے اور زباندانی کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ٹیکنالوجی معاون ثابت ہورہی ہے۔
نمبروں کا کھیل :
گزشتہ چند دہائیوں میں تعلیمی اداروں میں نامعلوم وجوہات کی بناء پر نمبروں کا کھیل شروع ہوا۔ زباندانی کے پرچوں کو بھی معروضی سوالات کی نہج پر مرتّب کیا جانے لگا اور اس طرح طالب علم زبان سیکھے نہ سیکھے، اُس کا امتحانی نتیجہ جاذب نظرہو، اس پر ساری قوت صَرف( یا ضائع؟) ہونے لگی ہے۔ دراصل یہ امتحانی نمبرات یا مارکس کا کھیل امتحان کے بعد نہیں بلکہ اسکول کے کلاس روم ہی سے شروع ہوتا ہے۔ سائنس کے اُستاد کلاس میں داخل ہونے پر طلبہ سے مخاطب ہوتے ہیں :’’بچّو! آج ہم بہت ہی اہم سبق پڑھنے جارہے ہیں ’مینڈک کا دورِ حیات‘۔ یہ ایک سبق پورے ۸؍ نمبر لاتا ہے۔ اسلئے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ‘‘کچھ دیر بعد اُردو کے اُستاد کلاس روم میں داخل ہوکر مخاطب ہوتے ہیں۔ ’’آج ہم ’مولانا آزاد: حیات و کارنامے‘ سبق پڑھنے جارہے ہیں۔ سرسری ہی پڑیں گے کیوں کہ پچھلے سارے امتحانی پرچوں پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس سبق سے متعلق اب تک ایک آدھ نمبر کا سوال ہی پوچھا گیا ہے۔ ‘‘جی ہاں ! صحیح پڑھا آپ نے ہمارے کلاس روم میں کہا جارہا ہے کہ’ مینڈک کا دَورِ حیات‘ اہم ہے کہ وہ ۸؍مارکس لانے والا سبق ہے اور ’مولانا آزاد :حیات و کارنامے‘ سبق کی کوئی اہمیت نہیں کہ امتحان میں اُس سے متعلق ایک آدھ نمبر کا سوال ہی پوچھا جاتارہا ہے۔
وہ اساتذہ کہاں گئے؟
نمبر، مارکس، اوّل درجہ، امتیازی درجہ، میرٹ لسٹ، ان سب کے اِرد گرد جب تعلیمی نظام گردش کرنے لگا تو یہ نظام نزاع ہی کے عالَم میں چلا گیا کیوں کہ اس میں طلبہ، اساتذہ، والدین اور انتظامیہ کی جملہ کوششیں اس پر مرکوز ہوگئیں کہ امتحان کارپورٹ کارڈ کس طرح زیادہ سے زیادہ جاذب نظر آئے۔ علم، تعلیم، حصولِ علم، متعلم اور معلّم.... ان سب کے نظام پر نہایت ہی بھونڈے طریقے سے شب خون برپا ہوتے دیکھ کرآج رہ رہ کر ہمارے اساتذہ کرام یاد آتے ہیں کہ اُن اساتذہ کرام کا رویّہ زباندانی کے تعلق سے کیسا تھا اور کیوں یاد آتے ہیں ؟ ملاحظہ فرمائیں :
(۱)اردو کے ہمارے ایک اُستاد نے ہمیں اقبال کے ایک شعر ’کیا میں نے اُس خاکداں سے کنارہ÷ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ‘ کی تشریح کیلئے ۴۰۔ ۴۰؍منٹ کے ڈھائی پریڈ صَرف کئے تھے۔ اس شعر کی تشریح کرتے وقت ہمیں وہ یہ بھی سکھا سکتے تھے کہ ’میں نے اس دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی جہاں زندگی کا واحد مقصد روزی روٹی حاصل کرنا ہے، یعنی نظم کو نثر میں تبدیل کرکے وہ خاموش ہوسکتے تھے یا دو تین منٹ میں تشریح کچھ یوں کرسکتے تھے کہ شعر کی تشریح کیلئے صرف دو نمبر مختص ہیں، اسلئے تین چار سطروں میں تشریح لکھ دیں تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ نمبر بڑھانے کے دوسرے گُر بتانے میں لگ جاتے۔
(۲)طلبہ کو نمبرات کے جنگل میں بھٹکانے والے افراد کو ہم یہ بھی بتانا چاہیں گے کہ ہمارے اُستاد نے علامہ اقبال کے ایک مصرعہ ’شمشیر و سنا ں اوّل، طائوس و رباب آخر‘ کی تشریح بیان کرنے میں ۴۰؍منٹ کا ایک پورا پریڈ صَرف کیا تھا اور اُس دوران اُنھوں نے ایک بار بھی گھڑی نہیں دیکھی تھی۔ اس شعر کی تشریح کیلئے صرف دو نمبر مختص ہیں، یہ بتانے کی خطا بھی اُن سے سرزد نہیں ہوئی تھی۔
(۳)غالب کا مصرعہ ’لیکن آنکھیں روزن دیوار زنداں ہوگئیں ‘ کی تشریح میں اُستاد نے پورا پریڈ کچھ اس طرح لگا دیا کہ جب پریڈ کی گھنٹی بجی تو سبھوں کی آنکھیں نم تھیں۔
(۴)مولانا الطاف حسین حالی کے ایک مضمون کو پڑھانے سے پہلے ہمارے اُستاد نے اُن کی تصانیف ’حیات جاوید‘ اور ’مقدمہ شعر و شاعری‘ پر سیرحاصل گفتگو کی تھی جبکہ مولانا حالی کے اس درجہ مفصل تعارف پر امتحان میں ایک نمبر کا بھی سوال پوچھا جانے والا نہیں تھا اور حالی کا وہ تعارف درسی کتاب میں بھی نہیں تھا۔ اس کے باوجود طلبہ کو حالی کا مکمل تعارف (مع مسدس حالی کے تعلق سے سرسیّد کے افکار) بتانا اُنہوں نے کیوں ضروری سمجھا جبکہ اُس سے طلبہ کی مارکس شیٹ پر ایک نمبر کا بھی اضافہ نہیں ہونے والا تھا؟
(۵) ڈپٹی نذیر احمد کے شہرئہ آفاق ناول ’توبتہ النصوح‘ کے مرزا ظاہر دار بیگ کے کردار کے الفاظ کو ہمارے اُستاد نے ہمیں رَٹنے کیلئے نہیں کہا تھا اور نہ ہی یہ کہا تھا کہ اس کردار پر پیراگراف لکھنے پر کتنے نمبر ملیں گے مگر وہ ساری سطور ابھی تک لفظ بہ لفظ ذہن میں محفوظ ہیں۔ ملاحظہ کیجئے: ’’چراغ کیا میں تو لیمپ روشن کروانے کا ارادہ کیا تھا لیکن گرمی کے دن میں پروانے بہت جمع ہوجائیں گے اور آپ پریشان ہوجائیں گے اور اس مکان میں ابابیلوں کی کثرت ہے، روشنی دیکھ کر گِرنے شروع ہوں گے اور آپ کا بیٹھنا دشوار کردیں گے، تھوڑی دیر صبر کیجئے کہ ماہتاب نکل آتا ہی ہے۔ ‘‘
کئی دہائیوں قبل کے اُستاد محترم نے کچھ ایسا پڑھا یا تھاکہ وہ سب آج بھی ذہن میں محفوظ ہے اور پھر ہمیں ریاکاری و ظاہری نام و نمود کے عکّاس یہ کردار جب جب ہمیں نظر آتے تھے تب ہمیں تعجب نہیں ہوتا تھا۔ ہم دل ہی دل میں یہ کہتے تھے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے مرزا ظاہر بیگ کی شکل میں یہ کردار پہلے ہی پیش کیا تھا۔
محترم اساتذہ کرام! یہ تحریریں، اُن کے کردار یہ سب کچھ ہمیں یاد اسلئے ہیں کہ اُس دَور کے اساتذہ کلاس روم میں داخل ہوتے ہی یہ نہیں کہتے تھے کہ یہ سبق امتحان میں کتنے نمبرات لے کر آتاہے بلکہ وہ زباندانی کی گہرائی و گیرائی میں لے جاتے تھے، اسلئے اُس دَور کے طلبہ درسی کتاب سے ہٹ کر سوچتے اور اپنی رائے قائم کرتے بلکہ طالب علمی کے زمانے ہی سے اخبارات و رسائل کے ذریعے اپنی فکر و آراء کو دوسروں تک پہنچاتے تھے۔ اُس زمانے میں امتحانی نتیجے کی رپورٹ کارڈ پر صدفیصد نمبر حاصل کرنے والے طلبہ تیار نہیں ہوتے تھے البتہ انتہائی قابل، لائق اور مثبت فکر کے حامل طلبہ کی ایک فوج ہمارے تعلیمی اداروں میں تیار ہوتی تھی۔ آخر میں ہم یہ بھی عرض کرناچاہیں گے کہ ایک ایک بات کو سمجھانے کیلئے کئی کئی موضوعات، واقعات، تواریخ کے حوالے دینے والے اِن اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ دو سو سے پانچ سو روپے ہی تھی۔