• Thu, 19 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو پر ’پریوار واد‘ کا الزام، کتنا سچ، کتنا فسانہ؟

Updated: September 03, 2023, 5:05 PM IST | Sudeep Thakur | Mumbai

تاریخ بتاتی ہے کہ نہرو کی پہلی کابینہ کے جس رُکن کی نسل کا کوئی فرد پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچا، اس کا تعلق نہرو کے خاندان سے نہیں بلکہ سردار پٹیل کے خاندان سے تھا۔

Minibean with her father Sardar Patel Indira Gandhi with her father Pandit Nehru. Photo: INN
منی بین اپنے والد سردار پٹیل کے ساتھ اندرا گاندھی اپنے والد پنڈت نہرو کے ساتھ۔ تصویر:آئی این این

گزشتہ ایک عشرےکے دوران گاندھی نہرو خاندان پر ’پریوار واد‘ کے حوالے سے جتنے حملے ہوئے ہیں ،اتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔ کسی سیاسی خاندان پر کسی بھی دور میں اتنے حملے نہیں ہوئے۔ اس کا آغاز ۲۰۱۳ء ہی میں ہوگیا تھا جب نریندر مودی کو بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کمیٹی کا چیئرمین بنایا تھا۔ اس کے بعد ہی سے مودی، اقربا پروری کے نام پر سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی پر حملہ کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑرہے ہیں ۔ یہ حملہ ایک طرح سے بی جے پی کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بی جے پی لیڈر اور مودی حکومت کے وزراء بھی اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی، جنہوں نے۲۰۱۹ء کے لوک سبھا انتخابات میں راہل گاندھی کو امیٹھی حلقے میں شکست دی تھی،اسی حوالے سے را ہل گاندھی پر مسلسل حملہ کرتی ہیں ۔
 بی جے پی اور مودی کی تشریح میں ، سیاست میں ’پریوار واد‘ کا مطلب عام طور پر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا خاندان ہے۔ ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا واقعی پنڈت نہرو نے خاندان پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی؟ یوں تو سیاست میں ’پریوار واد‘ کے حوالے سے لگائے جانے والے ان الزامات کو جانچنے کا کوئی درست پیمانہ نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی،اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آزاد ہندوستان کی پہلی مرکزی کابینہ میں وزراء کے خاندان کے افراد کا پارلیمانی سیاست میں کس طرح کی حصہ داری رہی۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے ۱۴؍ اور۱۵؍ اگست۱۹۴۷ء کو اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی۔ ایک طرح سے یہ ایک قومی حکومت کی طرح تھی جس میں کانگریس کی مخالفت کرنے والی دیگر جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ ہی کچھ غیر سیاسی لوگ بھی شامل تھے۔ اس میں علاقائی توازن کے ساتھ ساتھ تمام مذاہب کی نمائندگی کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ پنڈت نہرو کی پہلی کابینہ میں نائب وزیر اعظم سردار پٹیل کے علاوہ ۱۲؍دیگر وزراء شامل تھے۔ ان میں ڈاکٹر راجندر پرساد، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر جان متھائی، آر کے شان موکھم شیٹی، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر، جگ جیون رام، سردار بلدیو سنگھ، سی ایچ بھابھا، راجکمار امرت کور، رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر شیاما پرساد مکھرجی، اور وی این گاڈگل جیسے لوگ وزیر تھے۔
 یہ کابینہ کیسے بنی؟ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس کے دستاویزی ثبوت بھی دستیاب ہیں ۔ بہر حال، یہ بتانا ضروری ہے کہ نہرو کی پہلی کابینہ میں ان کے سیاسی حریف بھیم راؤ امبیڈکر اور شیاما پرساد مکھرجی بھی شامل تھے۔ امبیڈکر اپنی تنظیم شیڈیولڈ کاسٹ فیڈریشن (ایس سی ایف) اور شیاما پرساد مکھرجی ہندو مہاسبھا کے نمائندے کے طور پر شامل تھے۔درحقیقت پہلی کابینہ مکمل طور پر نامزد کی گئی تھی کیونکہ اس وقت تک نہ آئین بنا تھا ، نہ ہی پارلیمنٹ بنی تھی۔ رائج سیاق و سباق میں ’پریوار واد‘ کو انتخابی سیاست کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے یعنی ہم ۵۲۔۱۹۵۱ء میں ہونے والے پہلے لوک سبھا انتخابات کو ’پریوار واد‘کی جانچ کیلئے ایک کسوٹی کے طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ بات واضح رہے کہ پہلے عام انتخابات سے پہلے ہی، نہرو کی پہلی کابینہ بکھر گئی تھی اور کئی وزراء اس سے الگ ہوگئے تھے، جن میں امبیڈکر اور شیاما پرساد مکھربھی تھے اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کا پہلے عام انتخابات (۱۵؍ دسمبر۱۹۵۰ء) سے پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا۔
 تاریخ بتاتی ہے کہ نہرو کی پہلی کابینہ کے جس رُکن کی نسل کا کوئی فرد پہلی بار پارلیمنٹ میں پہنچا اس کا تعلق نہرو کے خاندان سے نہیں بلکہ سردار پٹیل کے خاندان سے تھا۔ پہلے عام انتخابات میں ، نہرو کی پہلی کابینہ کے اراکین میں سے، سردار ولبھ بھائی پٹیل کی بیٹی منی بین ہی تھیں جو انتخابات جیت کر لوک سبھا پہنچی تھیں ۔ وہ گجرات سے کانگریس کے ٹکٹ پر جیتی تھیں ۔ کیا منی بین کو نہرو کی رضامندی کے بغیر ٹکٹ ملا ہوگا؟ ہرگز نہیں ۔ وزیر اعظم ہونے کے علاوہ نہرو اُس وقت کانگریس کے صدر بھی تھے۔ منی بین ۱۹۵۷ء میں دوبارہ لوک سبھا پہنچیں ۔۱۹۶۲ء میں سواتنتر پارٹی کے امیدوار سے الیکشن ہارنے کے بعد، کانگریس نے انہیں ۱۹۶۴ء میں راجیہ سبھا بھیجا تھا۔وہی منی بین پٹیل بعد میں کانگریس کی تنظیم میں شامل ہوئیں اور ایمرجنسی کے دور میں ۱۹۷۷ء میں نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی کے خلاف قائم کی گئی جنتا پارٹی کی امیدوار کے طور پر الیکشن میں کھڑی ہوئیں اور جیت کر لوک سبھا پہنچیں ۔ یہ اور بات ہے کہ سردار پٹیل کے بیٹے داہیا بھائی پٹیل کانہرو اور کانگریس سے اتفاق نہیں تھا۔ ان کے اپنی بہن منی بین سے بھی اختلافات تھے۔ پہلے وہ کانگریس میں تھے لیکن۱۹۵۷ء میں کانگریس سے الگ ہو گئے تھے۔۱۹۵۸ء میں ، وہ ’مہا گجرات جنتا پریشد‘ کی مدد سے پہلی بار راجیہ سبھا پہنچے۔ بعد میں وہ سواتنتر پارٹی میں شامل ہو گئے اور۱۹۷۳ء تک راجیہ سبھا کے رکن رہے۔ وہ سواتنتر پارٹی کے تیز طرار مقررین میں سے ایک تھے۔ داہیا بھائی کی بیوی بھانومتی نے بھی۱۹۶۲ء کا لوک سبھا کا الیکشن لڑا تھا، لیکن وہ جیت نہیں سکیں ۔
 نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی ان کے وزیر اعظم رہتے ہی انڈین نیشنل کانگریس کی صدر بن گئی تھیں لیکن ان کا پارلیمانی کریئر نہرو کی موت کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔ نہرو کی موت کے بعد لال بہادر شاستری۹؍ جون۱۹۶۴ء کو دوسرے وزیر اعظم بنے اور اندرا کو اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ شاستری کی کابینہ میں شامل ہونے کے بعد۱۹۶۴ء میں اندرا گاندھی پہلی بار راجیہ سبھا پہنچیں ۔ شاستری کی موت کے بعد کانگریس لیڈروں کی اندرونی رسہ کشی کے دوران، اندرا کو۱۹۶۶ء میں اُس وقت کے کانگریس صدر ’کے کامراج‘ کی تجویز پر وزیر اعظم بنایا گیا۔ اس کے بعد کی تاریخ تو خیر سب کو معلوم ہے۔نہرو کی پہلی کابینہ میں راج کماری امرت کور واحد خاتون تھیں ، لیکن وہ غیر شادی شدہ تھیں ، اسلئے ان کی سیاسی وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی بھی کوئی اولاد نہیں تھی، حالانکہ انہوں نے اپنے بھتیجے نورالدین کو بیٹے کی طرح پالا تھا، لیکن سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ اسی طرح رفیع احمد قدوائی کے بارے میں اطلاع ملتی ہے کہ ان کا ایک بیٹا تھا جو کم عمری میں فوت ہو گیا تھا۔سردار بلدیو سنگھ کے دو بیٹے تھے جن میں سے ایک سرجیت سنگھ، پرکاش سنگھ بادل کی ابتدائی کابینہ کے رکن تھے۔ اس کے علاوہ بلدیو سنگھ کی سیاسی وراثت کے بارے میں کوئی اور معلومات دستیاب نہیں ہیں ۔ جان متھائی، سی ایچ بھابھا اور شان موکھم شیٹی کی سیاسی وراثت کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں چلا (اسے راقم سطور کی معلومات کی حد تصور کیا جائے)۔ شیاما پرساد مکھرجی کے چار بچے تھے اور ان چاروں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں رہا۔نہرو کی پہلی کابینہ میں شامل ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کے بیٹے مرتیونجے پرساد دو بار لوک سبھا پہنچے۔۱۹۶۷ء میں پہلی بار (مہاراج گنج) سے کانگریس کے ٹکٹ پر اور دوسری بار (سیوان) سے ۱۹۷۷ء میں جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر جبکہ این وی گاڈگل کے بیٹے وٹھل راؤ گاڈگل ۱۹۷۱ء سے۱۹۹۱ء کے درمیان کئی بار راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے رکن رہے اور کانگریس کی مختلف حکومتوں میں وزیر بھی رہے۔
 امبیڈکر اور جگجیون رام کی سیاسی وراثت کے بارے میں الگ سے بات کرنے کی ضرورت ہے، جنہیں نہرو کی پہلی کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ یہ دونوں ملک کے بااثر دلت رہنما تھے۔ امبیڈکر کو آئین بنانے میں ان کے عظیم کردار کیلئے بھی جانا جاتا ہے لیکن یہ ستم ظریفی ہے کہ بھیم راؤ امبیڈکر الیکشن جیتنے کر کبھی پارلیمنٹ نہیں پہنچ سکے۔ پہلے عام انتخابات میں ، انہوں نے بمبئی نارتھ لوک سبھا حلقے سے الیکشن لڑا، لیکن کانگریس کے امیدوار سے ہار گئے۔ اس کے بعد انہوں نے بھنڈارا سے لوک سبھا کا ضمنی انتخاب لڑا اور وہ الیکشن بھی ہار گئے۔امبیڈکر کا انتقال ۱۹۵۶ء میں ہوا۔ ریپبلکن پارٹی آف انڈیا کی تشکیل میں ان کے اکلوتے بیٹے یشونت امبیڈکر کا کردار تھا، لیکن وہ بھی کبھی پارلیمنٹ کے رکن نہیں رہے البتہ ان کے بیٹے پرکاش امبیڈکر۱۹۹۸ء اور۱۹۹۹ءمیں دو بار لوک سبھا انتخابات جیت چکے ہیں ۔ امبیڈکر خاندان کے ورثے سے متعلق ایک اورمعلومات بھی کافی اہم ہے کہ ملک کے مشہور اسکالر آنند تیل تمبڑے یشونت امبیڈکر کے داماد ہیں ، یعنی بھیم راؤ امبیڈکر کے پوتے داماد ہیں ، جن کے خلاف موجودہ مودی حکومت نے بھیما کوریگاؤں معاملے میں مقدمہ دائر کیا ہے۔ ان پر’ یو اے پی اے‘ کے تحت کیس درج ہے۔
 جگ جیون رام نہ صرف نہرو کی پہلی حکومت کا حصہ تھے بلکہ انہیں متعدد مواقع پر وزیر اعظم کے عہدے کے مضبوط دعویدار کے طور پر بھی دیکھا گیا۔ سینئر صحافی نیرجا چودھری کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب’ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ‘ سے پتہ چلتا ہے کہ جگ جیون رام کے بیٹے سریش کے مبینہ جنسی سکینڈل نے ان کے سیاسی امکانات کو کیسے برباد کر دیا تھا تاہم جگجیون رام کی بیٹی میرا کمار، جو انڈین فارین سروس کی نوکری چھوڑ کر سیاست میں آئیں ، کئی بار ایم پی بن چکی ہیں اور مرکزی وزیر اور لوک سبھا کی اسپیکر بھی رہ چکی ہیں ۔
 دراصل سیاست میں پریوار واد ایک طرح سے تصورات کا کھیل ہے۔ خاص طور پر بی جے پی خاندان پرستی کو’ گاندھی،نہرو‘ خاندان کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ یہ ان کیلئے ایک آسان ہدف ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ اندرا کی پارلیمانی زندگی میں نہرو کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اگر آج ملک کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو کمیونسٹ پارٹیوں کے علاوہ شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ایسی ہو جو ’پریوار واد‘ کے اثر سے محفوظ ہو۔ اس وقت ملک میں دو خاندان سیاسی طور پر سب سے زیادہ بااثر سمجھے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک گاندھی،نہرو خاندان ہے اور دوسرا سندھیا خاندان ہے۔ وجے راجے سندھیا نے اپنا سیاسی سفر کانگریس سے شروع کیا تھا لیکن آج ان کا پورا خاندان بی جے پی کے ساتھ ہے۔۲۰۲۴ء کے انتخابات تک، کانگریس کو اقتدار سے بے دخل ہوئے ایک دہائی ہو چکی ہوگی۔ ایسے میں دیکھنا ہوگا کہ بی جے پی کس طرح ’پریوار واد‘ کو کانگریس کے خلاف ایشو بناتی ہے اور یہ بھی کہ رائے دہندگان اسے کس طرح دیکھتے ہیں ؟
مضمون نگار ایک فی لانس صحافی ہیں اور’دس سال، جن سے دیش کی سیاست بدل گئی‘ نامی کتاب کے مصنف ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK