ہمارے سیاستدانوں کی سیکوریٹی پر جس طرح قومی دولت بے دریغ خرچ کی جاتی ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اتنی رقم خرچ نہیں کی جاتی، بلکہ اس کا تصور بھی وہاں ممکن نہیں ہے۔ دراصل ہمارے سیاستدانوں اور سرکاری کارندوں کو سیکوریٹی کی ضرورت اسلئے محسوس ہوتی ہے کہ انہیں ہردم اپنے مخالفین یا دشمنوں سے خو ف رہنے لگا ہے
(نریندر مودی ( تصویر: جاگرن
پچھلے ہفتے ایک ایم ایل اے صاحب سےمتعلق یہ خبر چھپی تھی کہ انہیں اپنے مخالفین کی جانب سے خوف ہے کہ موقع پاتے ہی وہ انہیں قتل کردیں گے۔ موصوف نے پولیس کمشنر سے درخواست کی کہ انہیں چوبیس گھنٹے کی سیکوریٹی فراہم کی جائے۔ دراصل الیکشن میں ہار جانے کے سبب حکومت نے ان کی سیکوریٹی واپس لے لی تھی مگر انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے اورانہیں چوبیس گھنٹے کی سیکوریٹی فراہم نہیں کی گئی تو وہ یقیناً کسی قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن جائیں گے۔ چونکہ محکمہ پولیس کی معلومات کے مطابق اب ان کی جان کسی کیلئے اہم نہیں رہ گئی تھی، اس لئے ان کا سیکوریٹی کیلئے اصرار کرنا بے بنیادتھا۔ ان کی سیکوریٹی ختم کرنے کےساتھ ساتھ انہیں یہ حکم بھی ملا کہ الیکشن کے نتائج کے بعد سے اب تک جس طرح انہوںنے سیکوریٹی والوں کو زبردستی اپنے ہاں رکھا ہے، اس کی اجرت فوراً ادا کردیں، بصورت دیگر حکومت اس سلسلے میں کارروائی کے لئے مجبور ہوگی۔ ویسے پولیس والوںنے انہیں یہ بھی بتایا کہ اگر وہ اپنی سیکوریٹی کے اتنے ہی خواہش مند ہیں تو مناسب داموں پر سرکاری سیکوریٹی منگوا بھی سکتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے ہی دن ایم ایل اے صاحب نے سیکوریٹی استعمال کرنے کے دام ادا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پیغام بھی پہنچا دیا کہ انہیں سرکاری سیکوریٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خبر پڑھ کر ہمیں بڑا دکھ ہوا۔ پتہ نہیں بیچارے سیکوریٹی کے بغیراپنی راتیں کیسے گزارتے ہوں گے اور دن بھر یہاں وہاں جانے کیلئے کتنے پریشان ہوتے ہوں گے۔ ہوسکتا ہے محلوں کے آوارہ گردوں کو پیسے کا لالچ دے کر اپنی حفاظت کیلئے رکھ لیا ہو کیونکہ کل تک اپنے علاقے میں ان کی عزت سرکاری سیکوریٹی کے سبب ہی ہوا کرتی تھی اورآج اس کی عدم موجودگی میں ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آچکا تھا۔
اس ضمن میں ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ یوپی اور بہارمیں آپ کے سماجی رتبے کو سرکاری سیکوریٹی ہی سے جانا جاتا ہے۔ اگر چند معمولی پولیس والے آپ کے ارد گرد کھڑے نظرآئیں تو آپ معمولی آدمی سمجھے جائیں گے۔ اس کے برخلاف رائفل بردار سیکوریٹی آپ کے آگے پیچھے چل رہی ہوتو سارے شہری آپ کا طوطی بولنے لگتا ہے۔ کچھ امیدوار الیکشن میں ہار جانے سے اتنے رنجیدہ نہیں ہوتے جتنا انہیں لال بتی والی گاڑی کے چھن جانے کا غم ہوتا ہے۔ شاید اسلئے سیکوریٹی کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے وہ پارٹی تک بدلنے میں تکلف نہیں کرتے۔
خیر! ہمارے ملک میں جو وی آئی پی سیکوریٹی کا نظام ہے وہ آزادی کے طویل عرصے تک وجود میں نہیں آیا تھا۔ اس کی روشن ترین مثال مہاتما گاندھی کے قتل کا سانحہ ہے۔ اگر ان کے پاس بھی آج ایسی اسپیشل سیکوریٹی فورس ہوتی تو کسی گوڈسے کو ان کے قریب جانے کی ہمت نہ ہوتی۔ ملک کے وزیراعظم جواہر لال نہرو بھی ساری زندگی اکیلے گھومتے نظرآئے۔ ہاں! سادہ لباس میں پولیس والے ان کے اطراف موجود ہوتے تھے لیکن جس طرح آج سیاہ سوٹ بوٹ میں ملبوس، آنکھوں پر سیاہ عینک چڑھائے اور ایئر فون پر بات کرتے کمانڈوز وزیراعظم کے ارد گرد نظرآتے ہیں، ایسا منظر ان دنوں کبھی نظر نہیں آیا۔ دراصل مسز اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ایس پی جی(اسپیشل پروٹیکشن گروپ )تیار کیا گیا جس کا بنیادی کام وزیراعظم اوران کے اہل خانہ کی حفاظت کرنا تھا۔ کہتے ہیں کہ گولڈن ٹمپل پر حملے کے بعد ارون نہرو نے مسزگاندھی کو متنبہ کیا تھا کہ وہ سکھ محافظوں کو برخاست کر دیں اور ان کے بجائے دوسرے محافظ رکھ لیں مگر اندرا گاندھی نےانکار کردیاتھا۔ بدقسمتی سے انہیں محافظوں نے انہیں قتل کردیا۔ ۱۹۸۴ء میں یہ سانحہ ہوا اور ۱۹۸۵ء میں سیکریٹریز نے ایکElite پروٹیکشن صرف وزیراعظم کی حفاظت کیلئے بنائی تاکہ ملک کے اندرون میں اور غیرملکی دوروں پر اُن کی حفاظت پر سوالات نہ اٹھیں۔ اس اقدام سے قبل سارے اہم افراد کی سیکوریٹی کی ذمہ دار دہلی پولیس ہوا کرتی تھی اورانٹیلی جینس بیورو وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کی سیکوریٹی دیکھتا تھا۔ پھر ۱۹۸۵ء میں بیربل ناتھ کمیٹی نے وزارت داخلہ کو تجویز بھیجی کہ ایک اسپیشل پروٹیکشن یونٹ ہونی چاہئے جو قومی لیڈروں کی حفاظت کاکام کرے۔ بعد میں اس فورس کو’ایس پی جی‘کا نام دیا گیا اوراس کے سربراہ کو ڈائریکٹر کہا جانے لگا۔
تین سال تک تویہ بغیرکسی سرکاری حکمنامے کے تحت کام کرتی رہی۔ ۱۹۸۸ء میں پارلیمنٹ نے ایس پی جی ایکٹ پاس کیا اور سیکوریٹی باقاعدہ سرکاری ذمہ داری بن گئی۔ ۱۹۸۹ءمیں وشوناتھ پرتاپ سنگھ وزیراعظم بنے توانہوںنے راجیوگاندھی کی سیکوریٹی واپس لے لی۔ خدا کی کرنی کہ ۱۹۹۱ء میں راجیوگاندھی قاتلانہ حملے میں جاں بحق ہوئے اور چاروںسمتوں سے وی پی سنگھ پر لعنت ملامت کی جانے لگی لہٰذا پارلیمنٹ نے مذکورہ ایکٹ میں ترمیم کی جس کے تحت سارے سابق وزرائے اعظم اوران کے اہل خانہ کو دس برس تک سیکوریٹی دینے کا قانون پاس کیا گیا۔ جب اٹل بہاری واجپئی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو انہوںنے دس سال کی مدت گھٹاکر ایک سال کردی اور یہ شق بھی لگادی کہ اگر پارلیمنٹ کو محسوس ہوکہ سابق وزیراعظم اوران کے اہل خانہ کی جان کو ہنوز خطرہ پیش ہے تو یہ مدت بڑھائی جاسکتی ہے۔ جاتے جاتے موصوف نے سابق وزائے اعظم دیوے گوڑا، گجرال اور نرسمہاراؤ کی سیکوریٹی ختم کردی کیونکہ ان کے نزدیک یہ حضرات اب سارے خطروں سے محفوظ تھے مگر سیاست دیکھئے کہ انہوںنے اپنے لئے یہی سیکوریٹی آخری سانس تک باقی رکھی۔ اس ضمن میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جس دن منموہن سنگھ نے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑا، انہوںنے اپنے گھروالوں کی سیکوریٹی ختم کرادی اوریہ دلچسپ حقیقت بھی پڑھ لیجئے کہ حالیہ حکومت نے منموہن سنگھ کی ایس پی جی سیکوریٹی گھٹاکر انہیں ’زیڈ پلس‘ سیکوریٹی کے گروپ میں ڈال دیا ہے۔
کسے سیکوریٹی دی جائے؟ کس کی سیکوریٹی گھٹا دی جائے؟ یا بالکل ہی ختم کردی جائے؟ یہ وزارت داخلہ کے ہاتھوں میں ہے۔ اور وزارت داخلہ انٹیلی جینس بیوریو اور ’را‘ سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر اس کا تعین کرتی ہے۔ ظاہر ہے یہ رائے بے حدSubjective ہوتی ہے اور کوئی اس پر تنقید کرنے کے مجاز نہیں ہوتا۔ کس کی زندگی کو خطرہ درپیش ہے اورکون دہشت گرد یا کسی مخالف گروپ کے نشانے پر ہے، یہ فیصلہ بھی وزارت داخلہ کرتی ہے۔ ہاں! وزیراعظم اپنے حساس عہدے کے سبب ضرور سیکوریٹی کےمستحق ہیں اور ان کے اہل خانہ کو بھی سیکوریٹی دی جانی چاہئے مگر ہمارے ہاں وزیر داخلہ اور قومی سیکوریٹی مشیر ( اجیت ڈوبھال) بھی سیکوریٹی رکھتے ہیں اورکسی کی مجال نہیں کہ ان سے پوچھ لے کہ انہیں کس سمت سے خطرہ درپیش ہے۔ چونکہ انٹیلی جینس ایجنسیاں کسی کو جوابدہ نہیں ہوتیں لہٰذا وی آئی پی سیکوریٹی دینے میں سیاست کتنا کام کرتی ہے اس کا عام آدمی کو اندازہ ہوہی نہیں سکتا۔ یہی دیکھئے کہ نتن گڈکری، کرن ریجیجو، رام ولاس پاسوان، روی شنکر پرساد، مایاوتی اور اکھلیش یادو زیڈ پلس سیکوریٹی کے ساتھ گھومتے ہیں۔ موہن بھاگوت جو خود ایک ایسی تنظیم کے سربراہ ہیں جہاں کے کارکنان کواپنے تحفظ کی تربیت دی جاتی ہے اوران کی روزانہ کی مشقوں اور لاٹھیوں سے ایک دنیا خوفزدہ رہتی ہے ، انہیں بھی سرکاری خرچ پر زیڈ سیکوریٹی فراہم کی گئی ہے لہٰذا آپ سمجھ سکتے ہیں کہ سیکوریٹی عطا کرنے میں کون سے عوامل کام کرتے ہیں۔ ایکس سیکوریٹی ایک رائفل بردار پر مشتمل ہوتی ہے اور وائی سیکوریٹی کے تحت دو گن مین مقرر کئے جاتے ہیں۔ وائی پلس والوں کو دورائفل بردار باہر کیلئے اور ایک گھر کیلئے حاصل ہوتا ہے۔ زیڈسیکوریٹی میں ۶؍ گن مین باہر کیلئے اور دومکان کی حفاظت کیلئے جبکہ زیڈپلس میں ۱۰؍ گن مین باہر کیلئے اور دومکان کی حفاظت کیلئے متعین کئے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے سیاستداں عموماً نیشنل سیکوریٹی گارڈ (این ایس جی)کی مانگ کرتے ہیں۔ یہ خصوصی فورس دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے بنائی گئی تھی جسے صرف خاص موقعوں پر بلایاجاتا ہے مگر ہمارے سیاستدانوں کے دباؤ نے اسے بھی عام سیکوریٹی میں تبدیل کردیا۔ چونکہ اس فورس میں بری فوج کے تربیت یافتہ کمانڈوز شامل ہوتے ہیں، اسلئے ان کی موجودگی سے سیاستدانوں کی انا کو تسکین ملتی ہے اوران کا رتبہ بھی دیگر سیاستدانوں کے مقابلہ میں ۱۰؍ گنا بڑھ جاتا ہے۔ حیرت اس پر ہوتی ہے کہ جس فورس کو مخصوص حالات کیلئے تیارکیا گیا تھا، اسے سیاستدانوں کے ذاتی مفادات کیلئے استعمال کیاجانے لگا ہے۔
تان وہیں آکر ٹوٹتی ہے کہ کیا عوام کو سیاستدانوں کے جان ومال کے تحفظ کے فیصلے کا حق حاصل ہے؟ عوام کو تواس کا بھی احساس نہیں کہ سیاستدانوں کا ٹھاٹ باٹ اور رعب ودبدبہ ان کے پیسوں کے سبب ممکن ہے۔ اگر سیاستداں سرکاری بنگلوں میں مقیم ہیں، بجلی اورپانی کی سہولتوں سے لے کر سفر کیلئے گاڑیاں اور اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کیلئے انہیں ہوائی جہاز کے مفت ٹکٹ دستیاب ہیں اوریہ عزت مآب نمائندے ماہانہ لاکھوں کی تنخواہ بھی کماتے ہیں تویہ اسلئے ہے کہ عوام نے انہیں منتخب کرکے اسمبلی یا پارلیمنٹ میں بھیجا ہے اوران کے ایک ووٹ نے سیاستدانوں کے نام پانچ برسوں کا عیش لکھ دیا ہے۔
آج بھی امریکہ میں صرف ایک سیکرٹ سروس ملک کے صدر، نائب صدر اور سابق صدور اور ان کے گھر والوں کی سیکوریٹی کی ذمہ دار ہے۔ وہائٹ ہاؤس کی بھی وہی حفاظت کرتا ہے اور راجدھانی میں مقیم غیر ملکی افراد کی بھی وہی نگہداشت کرتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں صرف لندن میٹروپولیٹن سروس شاہی خاندان اور پارلیمانی نمائندوں، سرکاری عمارات اور سفرا کی سیکوریٹی کی ذمہ دار ہے۔ یقیناً تھوڑی بہت سیاست وہاں بھی ہوتی ہوگی مگر جس طرح کی سیاست ہمارے ہاں ہوتی ہے اس کا عشر عشیر بھی وہاں نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاستدانوں کی سیکوریٹی پر جس بے دریغ انداز میں قومی دولت خرچ کی جاتی ہے، اس کا وہاں تصور بھی ممکن نہیں۔ دراصل ہمارے سیاستدانوں اور سرکاری کارندوں کو سیکوریٹی کی ضرورت اسلئے محسوس ہوتی ہے کہ انہیں ہردم اپنے مخالفین یا دشمنوں سے خو ف رہنے لگا ہے۔ یہ خوف بھی ان کا اپنا تخلیق کردہ ہے۔ اگر وہ عدل وانصاف سے حکمرانی کریں، نفرت وتعصب کو ہوا نہ دیں تو ہمارا معاشرہ کبھی بدامنی کا شکار نہ ہو۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ ایک اکیلی خاتون عرب کے ایک کونے سے سفر کرتی دوسرے کونے تک جاتی اور اسے جان ومال کے لٹنے کا خوف نہیں ہوتا۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ میلوں کا سفر کرتے ہوئے تن تنہا اپنے غلام کو اونٹ پر بٹھائے فلسطین میں داخل ہوتے اور مخالف حکومت ان کا استقبال کرنے کیلئے منتظر ہوتی۔ اللہ کے رسولؐ درخت کے سائے تلے اکیلے آرام کر رہے ہوتے اورانہیں قتل کے ارادہ سے آنے والا شخص تلوار سونت کر بھی ان پر حملہ نہیں کرپاتا۔ ایسا اسلئے ممکن ہوا کہ ان نفوس قدسیہ کو صرف خدا کا خوف لاحق تھا اور یہ یقین بھی کہ زندگی اور موت کے فیصلے بنی آدم کے اختیارمیں نہیں۔ یہ نام نہاد حکمراں جس دن اپنی زندگی اور موت کے مالک کو جان لیں گے، اس دن انہیں کسی سیکوریٹی کی ضرورت نہیں رہے گی